اے پی سی اور گرگ آشتی

جمعرات 24 ستمبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

پاکستانی سیاست میں آجکل کثیر جماعتی کانفرنس کا ہر سُو شہرہ ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب کبھی بھی ملک میں ایسی کسی تحریک کا احیا ہوا ہے اس میں پس پردہ ایسے مفادات مضمر ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ایسے تحاریک اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔وہ اس لئے کہ پوری قوم اور ان راہنماؤں کے علم میں ہوتا ہے کہ اس اتحاد کے پس پردہ حقائق کیا ہیں،جیسا کہ آجکل کثیر جماعتی کانفرنس میں موجود تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے قبلہ رخ میں قوم کی نجات کا تعین کئے ہوئے ہیں۔

ان حقائق کو جان کر تو محسوس ہوتا ہے کہ پنجابی کا یہ اکھان (ضرب المثل) من و عن درست ہے کہ ”کھان نوں ساری انگلیاں اکھٹی ہو جاندی اے“۔گذشتہ روز ہونی والی کثیر جماعتی کانفرنس کی سب سے اہم بات میاں نواز شریفکا خطاب تھا جو کہ انہوں نے انگلینڈ سے ایک وڈیو لنک کے ذریعے اپنے اتحادیوں سے کیا۔

(جاری ہے)

اس کے دور رس کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یا کیا اس خطاب کا کوئی معنی خیز نتیجہ برآمد بھی ہو گا یا انہوں نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے،اس کی تفصیل اپنے آئندہ کالم میں پیش کروں گا۔

تاہم میاں نواز شریف کی تقریر کے اہم نکات اور اس پر اپنا تجزیہ پیش گزار ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں مولانا فضل الرحمن کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے کہ حکومت کو گرانے کے لئے پارلیمنٹ میں موجود اتحادی جماعتوں کے ممبران کو مستعفی ہو جانا چاہئے تاکہ نئے الیکشن کے ذریعے سے اتحادی جماعتیں بر سراقتدار آسکے۔لیکن شائد میاں صاحب زمینی حقائق سے بے خبر ہیں کہ ایسا ہونا ابھی ممکن نہیں ہے ،وہ اس لئے کہ ایسا نہ تو پیپلز پارٹی کے راہنما چاہتے ہیں اور نہ ہی ان کے برادر میاں شہباز شریف چاہتے ہیں۔

شہباز شریف کے اس نکتہ سے عدم اتفاق کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں یہ اکثر کہا جا رہا ہے کہ وہ آجکل خفیہ طورپر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر فرما رہے ہیں۔اسی طرح پی پی سندھ میں صوبائی حکومت کے خاتمہ کا کبھی بھی سوچ نہیں پائے گی۔کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ایوان ِ بالا کے ساتھ ساتھ سندھ صوبائی حکومت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

اس لئے میاں صاحب کی اس تجویز کو تو ان کے اپنے اتحادی ہی عمل پیرائی سے روکے رکھیں گے۔لیکن دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔وہ اس لئے کہ اونٹ کو بٹھانے کے لئے ایک شتر بان کی ضرورت ہے جبکہ کثیر جماعتی اتحاد میں تو ہر کوئی اپنی مرضی سے اونٹ کو بٹھانے کے در پے ہے۔
اس کے علاوہ میاں صاحب نے دور آمریت اور آمرانہ عزائم کا بھی کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اگر جمہوری اور آمرانہ نظام حکومت کے اقتدار کے دورانیہ کا تجزیہ کیا جائے تو آمریت کا دورانیہ ،جمہوری حکومت سے دگنا رہا ہے۔

لیکن افسوس ہے کہ میاں صاحب ایسی بات کرنے سے پہلے کیوں بھول گئے کہ وہ از خود کتنی بار ایسی سازشوں کا حصہ رہے ہیں کہ جس میں فوجی آمریت کے ساتھ مل کر انہوں نے مخالفین کا دھڑن تختہ کیا ہے،خاص کر بے نظیر حکومت کا۔گویا جمہوریت کو جمہوری شخصیات سے ہی خطرہ رہا ہے۔مقام افسوس تو یہ ہے کہ اب وہی جماعت ایک پلیٹ میں کھا رہی ہے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔

ایک ہی پلیٹ میں کھانے اور ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہونا ایک سوالیہ نشان تو ضرور بناتا ہے۔کہ جب اس گھر کو اس گھر کے چراغ سے آگ لگی ہے تو باہر کے لوگوں کو لعن طعن چہ معنی۔جمہوری حکومتوں کے خلاف فوج کے ساتھ مل کر جمہوری اداروں کی تباہی کی ذمہ دار افواج پاکستان نہیں بلکہ جمہوری ادارے اور جمہوریت پسند حکمران رہے ہیں۔جیسے کہ انہوں نے پرویز مشرف پر بھی کھل کر تنقید کی،ان کا تنقید کرنا بنتا ہے لیکن مجھے کیوں لگتا ہے کہ میاں صاحب کو جس بھی میڈیا اینڈ پریس سیکرٹری نے یہ تقریر لکھ کر دی یا تو وہ حقائق سے بے خبر تھے یا پھر میاں صاحب نے ویڈیو لنک پر آن لائن جانے سے قبل اس تقریر کو ایک بار بھی پڑھ کر نہیں دیکھا ہو گا،وگرنہ وہ ضرور اس بات سے با خبر تھے کہ مشرف حکومت کا موجودہ حکومت سے کیا لینا دینا۔

کیونکہ تحریک انصاف تو اس وقت اقتدار مین نہیں تھی۔اقتدار میں کون لوگ تھے۔کس کے دور حکومت میں مشرف کو باہر جانے دیا گیا۔یہ باتیں تو میاں صاحب کے علم میں تھیں۔تو پھر مشرف کے باہر جانے اور اسے کڑی سزا دلوانے کی باتیں بے معنی سے لگتی ہیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے او آئی سے کے کردار اور پاکستانی خارجہ پالیسی پر بھی کڑی تنقید کی کہ پاکستان اپنا کردار او آئی سی میں بہتر طور پر نبھانے میں ناکام رہا ہے۔

اس بات پر اتفاق اس لئے کیا جا سکتا ہے کیونکہ خارجہ پالیسی میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔حیران جن بات یہ بھی تھی ان کی تقریر میں کہ عاصم باجوہ کے خلاف انکوائری ہونی چاہئے،بالکل ہونی چاہئے لیکن کس کی درخواست کے بدلے میں۔ماضی میں پاکستانی سیاست میں ہمیشہ سے ہی حزب اختلاف نے ہی حکومت وقت کے خلاف تحاریک کا آغاز کیا ہے جیسا کہ ماضی قریب کی اگر بات کی جائے تو خود میاں صاحب کی حکومت کو عمران خان نے عدالتی اور احتجاجی تحریک سے ختم کیا تھا۔

اس لئے میاں صاحب کی جماعت کو بھی چاہئے کہ دلیر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے جنرل عاصم باجوہ کے خلاف عدالت سے رجوع فرمائیں اور ان کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں۔لیکن ایسا اب ممکن اس لئے دکھائی نہیں دیتا کہ ن لیگ کے پاس اس وقت سب بادشاہ ہیں لیکن حکومت ،اقتدار،احتجاج اور تحریک چلانے کے لئے بادشاہ کے ساتھ ”گولے“بھی چاہئے ہوتے ہیں۔

جسے پاکستان میں ورکرز کہا جاتا ہے۔اور ن لیگ میں اس وقت ورکرز کی شدت سے کمی ہے۔
میرے لئے سب سے اہم اور حیران کن بیانیہ یہ تھا کہ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے بلکہ اسے لانے والوں کے ساتھ ہے۔واہ رے قسمت کیا کیا دن دکھا دئے کہ اب چور بھی کہے گا چور ،چور۔یہ کسے پتہ نہیں کہ عمران خان کو لانے والے کون ہیں اور اس بات کی طرف اس نے از خود اشارہ بھی دئے ہیں لیکن آپ اور پی پی کیسے حکومت میں آتے رہے ہیں اس سے کیسے انکار ممکن ہے۔

میاں صاحب بات کرنے سے قبل اسے تولنا بہت ضروری ہوتا ہے اسی لئے میں نے کہا تھا کہ نواز شریف نے تقریر سے قبل تقریر کو غور سے پڑھا ہی نہیں۔خیر کثیر جماعتی کانفرنس میں اپنی اپنی نشستوں پر براجماں ہر پارٹی لیڈر کی باڈی لینگوئج اس کی نفسیات کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔کانفرنس میں موجود پارٹی راہنماؤں کے اندازِ نشستن سے مجھے ایرانی ضرب المثل گرگ آشتی میں پیش آنے والی کہانی یاد آگئی کہ۔


کہتے ہیں کہ ایران کا ایک علاقہ ایسا ہے جہاں بھیڑئیے اور برف باری بہت ہوتی ہے۔جب برفانی موسم کا عروج ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ جانداروں کو خصوصا بھیڑیوں کو شکار تلاش کرنے میں دقت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسے میں بھیڑیوں کا ایک غول ایک جگہ دائرہ کی شکل میں جمع ہو جاتے ہیں اور سب ایک دوسرے کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب کسی بھیڑئیے کو نیند آئے اور باقی بھیڑیئے اس پر حملہ کر کے اسے شکار کر لیں۔

جب کسی ایک بھیڑیئے کو شکار کر لیا جاتا ہے تو اسے کھانے کے بعد پھر سے سبھی بھیڑیئے اسی طرح دائرہ بنا کر دوسرے بھیڑیئے کے سونے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔اس سارے عمل کو گرگ آشتی اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اکٹھ اور صلح دراصل منافقانہ صلح ہوتی ہے کیونکہ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس بیٹھا بھیڑیا کب نیند کی آغوش میں جائے اور دیگر اس پر حملہ کر کے اسے ترنوالہ بنا لیں۔اگر موجودہ صورت سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا جائے خاص کر اے پی سی کی تمام جماعتوں کے اجلاس کا تو آپ محسوس کر سکیں گے کہ سیاسی میدان میں یہ گرگ آشتی سے کسی طور کم نہیں۔خدا ہمارے ملک کو ہر قسم کے بھیڑیوں ،بلیات اور آفات سے محفوظ رکھے،کیونکہ ملک ہے تو ہم ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :