ایک اور یوٹرن۔۔۔روٹی کی قیمت پھردس!!!

پیر 22 جولائی 2019

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

ایک ہفتہ قبل ہی کہہ دیا تھا کہ جناب روٹی 15کی نہ کریں،یہ عوام دشمن فیصلہ ہے،عوامی مشکلات میں اضافہ نہ کریں کیونکہ رودھوکے ایک روٹی ہی رہ گئی ہے جو غریب عوام دن رات ایک کر کے بمشکل پوری کر رہے ہیں اسے تو کم ازکم مہنگائی کے مارے عوام کی پہنچ سے دورکرکے انھیں فاقوں پر مجبورنہ کریں،پھرگذشتہ کالم میں بھی عرض کی تھی کہ خیبرپختونخواحکومت میں مہنگائی میں کمی لانے میں ناکام حکومت بالخصوص وزیرخوراک جوماشاء اللہ حاجی نمازی بھی ہیں وزیراعظم عمران خان کے اس حکم نامے کو عملی جامہ پہنانے میں بھی یکسرناکام ہو چکے ہیں کہ مہنگائی کو روک کر عوام کو ریلیف دیاجائے ،مگروزیرخوراک موصوف مہنگائی کو تو کیاروکتے الٹا سات روز تک قانون شکن و خودسرنان بائیوں کے ہاتھوں غریب عوام کی درگت بنتے دیکھتے اورخاموش تماشائی کا کرداراداکرتے رہے ۔

(جاری ہے)

اندازہ کیجئیے جب ایک ہفتہ تک صوبائی وزیر خوراک کو ہی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی(حالانکہ انھیں تو بروقت صورتحال کا ادراک کرناچاہییے) توصوبے کے26اضلاع کی کیاحالت ہوئی ہو گی کیونکہ دوتین روز قبل ضلع ہری پور میں محکمہ خوراک کے ضلعی افسرشیرازانورخان سے رابطے پر انھوں نے بتایا تھا کہ ہری پور میں 190گرام روٹی کی 15روپے قیمت ڈپٹی کمشنرہری پور کے نان بائیوں سے مذاکرات و گفت وشنیدمیں مقررہوئی ہے۔

پھر اس سوال پر کہ اس کا کوئی نوٹیفیکیشن یا سرکاری نرخ جاری ہواہے توضلعی افسرخوراک کاکہنا تھا کہ ابھی تک صوبائی محکمہ خوراک اس بارے کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔دوسری طرف حالت یہ تھی کہ نان بائی بھی کسی باقاعدہ سرکاری حکمنامے کے اجراء کے بغیرہی15روپے میں کم وزن روٹی فروخت کر کے غریب عوام کی بے بسی کاجی بھر کے مذاق اڑاتے رہے۔ جب کہ اس افسوس ناک صورتحال میں قانون نافذکرنے والے ادارے اورضلعی انتظامیہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب نظرنہیں آئی جس کی ایک مثال ضلع ہری پور کی تین تحصیلیں اورلاکھوں آبادی پر مشتمل شہری علاقے بھی ہیں جہاں محکمہ خوراک ودیگرمحکموں کی طرف سے حسب روایت غفلت برتی گئی اورمیڈیاکی براہ راست نشان دہی کے باوجود نااہل ذمہ داران عوام کو ریلیف دینے اورقانون شکن عناصرکولگام دینے میں یکسرناکام رہے۔

ادھرروٹی کی قیمت 15روپے ہونے کے ساتویں (گذشتہ)روزصوبائی وزیر خوراک الحاج قلندرخان لودھی کی زیرصدارت متعلقہ حکام کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس پشاورمیں منعقدہواجس میں یوٹرن لینے میں مشہورحکومت کے وزیرخوراک نے ایک بارپھراپنے قائدعمران خان اورحکومت کے لیے جگ ہنسائی کا جوازپیداکرتے ہوئے روٹی کی قیمت15کے بجائے 10روپے مقررکرنے اوروزن190گرام کے بجائے 130گرام طے کر کے اس کے نفاذ کے احکامات اس انتباہ کے ساتھ جاری کیے کہ روٹی سمیت دیگراشیاء خوردونوش کے وزن اورمعیارمیں کمی کسی صورت برداشت نہیں کی جا ئے گی اورگراں فروشوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی ۔

چلیں ایک ہفتہ بعدہی سہی مگرعوام کے لیے مقام شکرتوہے کہ صوبائی وزیرخوراک کواحساس تو ہوگیاکہ کچھ غلط ہورہا ہے حالانکہ اگرانھیں اپنے قائداوروزیراعظم عمران خان کی یہ ہدایت اورحکم یادرہ سکتا کہ صوبے اورحکام مہنگائی کو روکیں تو پتہ نہیں اس کا وزیرخوراک موصوف کو علم نہیں ہو سکاتھا یاوہ ایک ہی تیرسے دوشکارکرنے کے خواہاں تھے کہ روٹی کی قیمت15روپے ہونے کے بعدغریب عوام میں اضطراب،بے چینی اورحکومت کے خلاف جذبات بھڑکنے کے بعدروٹی کی قیمت کم کرنے کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے جاری مہنگائی روکنے پر مبنی ہدایت پرعملدرآمدکے احکامات بھی جاری کر دیں گے کہ وزن اورمعیارمیں کمی کے مرتکب ہوشیاروبیداررہیں ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔

مگرلگتایوں ہے کہ یہ بھی ،لودھی بیانیہ ،ہی رہے گا کہ مہنگائی بیان بازیوں سے ختم نہیں ہوتی اورناجائزمنافع خورصرف انتباہوں سے قابومیں نہیں آتے بلکہ اس کے لیے کپتان(ذمہ دارحاکم) سمیت جملہ اسٹیک ہولڈرزکو میدان عمل میں نکل کر عوام کو ریلیف فراہم کرنے اوروضع شدہ قوانین پر عملدرآمدکے لیے فوری اورموثراقدامات کرناپڑتے ہیں ۔خیبرپختونخواکے وزیرخوراک سے کوئی پوچھے کہ سوائے نمائشی اقدامات کے آپ کے محکمے کی کارکردگی کیا ہے تو شایدان سے کوئی جواب نہ بن پڑے کیونکہ جو وزیر خوراک رمضان المبارک جیسے مقدس ایام میں غریب عوام کو ،کندچھروں، سے نجات دلانے کے لیے خودساختہ مہنگائی کو نہ رکواسکیں اورنہ ہی سستے بازاروں کا انعقادکر کے عوام کو ریلیف پہنچاسکیں تو وہ اورکیاگراں قدرخدمات انجام دیں گے؟دیکھنے والوں نے دیکھ لیا ہے کہ سستے بازاروں کے انعقادکی آڑ میں غریب عوام سے سنگین مذاق کیاگیامگروزیرخوراک وہاں آکرفوٹوسیشن کرواتے رہے ،انھوں نے کبھی گوارانہ کیا کہ خوشامدیوں اورچاپلوسوں کے جلوس اورعوام دشمنوں کے جلوکے بغیرکسی روزاچانک چھاپہ زنی کر کے خودساختہ مہنگائی اورعوامی مشکلات کا عملی روپ جانچ سکیں ،مگریہ سب تو تب ہوتاجب وزیرخوراک صحیح معنوں میں غریب عوام کا بھلاچاہتے اورماتحت افسران کی کارکردگی چیک کرتے ۔

ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ صوبائی وزیر خوراک قلندرلودھی کو کس نے عوام دشمن مشورہ دیاتھاکہ روٹی 15روپے کر دی جائے؟یاان سے مشاورت واجازت کے بغیرہی یہ عوام دشمن فیصلہ کرلیاگیا؟اس کے باوجودنجانے وزیرخوراک کیوں اورکس مصلحت کے تحت ایک ہفتہ تک عوام کے لٹنے پٹنے کا تماشادیکھتے رہے اوران کے ماتحت بھی یہ ہی روش واندازاپنائے رہے ،نہیں یقین توگذشتہ ایک ہفتہ کے اخبارات اورسوشل میڈیاوزٹ کرلیں ہری ور سمیت دیگراضلاع کی خیرخبراورافسران خوراک کی ناہلیاں آپ پر آشکارہو جائیں گی البتہ پشاورکے ڈپٹی کمشنرمتحرک رہے انھیں بہرحال کریڈٹ دیناپڑے گا کہ وہ ان گذرے سات دنوں میں قانون شکن عناصرکے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے میں پیش پیش رہے۔

وزیرخوراک سن لیں کہ یہ ہی افسوس ناک اورعوام دشمن صورتحال تھی جس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو کہناپڑاکہ آٹے اورروٹی کی قیمت میں اضافہ حکومت کے خلاف سازش ہے تو الحاج قلندرلودھی صاحب آپ ہی بتائیے کہ پھرحکومت کے خلاف اس سازش کا سہراکس کے سربندھناچاہییے؟ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیرعمران خان اگرعوام کو واقعی ریلیف دینے کے خواشمندہیں تو انھیں چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے ماتحت وزراء کی کارکردگی رپورٹ لینی چاہییے اورناقص کارکردگی کے مرتکب وزراء سے بغیرکسی تاخیرکے وزارتوں کے قلمدان واپس لے کر باصلاحیت اورعوام دوست ممبران اسمبلی کو متعلقہ وزارتیں سونپ کر عوام کو ریلیف فراہم کرناچاہییے علاوہ ازیں جن جن ریجنزکے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرزاوردیگر سرکاری اداروں کے ضلعی افسران کی کارکردگی بھی عوام کو ریلیف کے پیمانے پر پوری نہیں اتررہی توان کے خلاف بھی بلا تاخیرتادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے کیونکہ اگریہ افسران اپنے اپنے ایریازمیں اداروں اورافسران کو عوامی خدمات کی بطریق احسن انجام دہی پرنہیں لاسکتے تو پھر یہ کس کام کی تنخواہ لے رہے ہیں؟جس طرح منتخب عوامی نمائندے عوام کو جواب دہ ہیں اسی طرح سرکاری خزانے سے تنخوا اوربھاری بھرکم تنخواہیں و مراعات لینے والے بھی عوام کو جواب دہ ہیں اوران سے جواب طلب کر کے ہی انھیں عوام کی بہترخدمت اورریلیف فراہمی کے قابل بنایاجاسکتاہے بصورت دیگر یہ اپنے عہدے صرف انجوائے ہی کرتے رہیں گے اورعوام اسی طرح مشکلات درمشکلات سے دوچاررہیں گے اورپھرتبدیلی کے دعوے جائیں گے بھاڑمیں!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :