غدار وطن

منگل 26 مئی 2020

Naeem Kandwal

نعیم کندوال

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ یہ ملک ہمیں حادثاتی طور پر نہیں ملا بلکہ اس کے لیے لاکھوں جانوں کا نظرانہ پیش کرناپڑا۔ جانوں کا نظرا نہ صرف اِس کے قیام تک نہیں، بلکہ قربانیوں کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ پاکستان آرمی کے افسر اور جوان آئے روز اپنی قیمتی جانیں اِس وطن کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ ہمارا مقابلہ ایک ایسے ملک سے ہے جو دنیا کا تیسرا بڑا دفاعی بجٹ رکھنے والا ملک ہے ۔

جو اپنے بجٹ کا تقریباََ70فیصد دفاع کے لیے مختص کرتا ہے ۔ ہماری افواج جنگی جنون رکھنے والے اِس ملک کا مقابلہ بہادری سے کر رہی ہیں۔1965ء کی جنگ ہو یا معمول کی جھڑپیں، ہماری بہادر افواج دشمن کو ہمیشہ ذلت آمیز شکست سے دو چار کرتی ہیں۔ہماری بہادرا فوج کے جوان اپنا تن من دھن ہماری حفاظت کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔

(جاری ہے)


 پاکستان آرمی ہماری محافظ ہے ۔

ہماری بہادر فوج ہمارے لئے ایک ماں باب کا کردار ادا کر رہی ہے ۔جس طرح ایک مرغی کا بچہ اپنی ماں کے پروں کے نیچے خو د کو محفوظ سمجھتا ہے اسی طرح ہم اپنے ملک میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ لیکن کچھ غدارعناصر ملک دشمنی میں مصروف ہیں یعنی وہ میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ یہ غدار عناصر اس وقت پاکستان آرمی کے افسروں اور جوانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جو اِن کی حفاظت کے لیے اپنا سکون اور زندگی تک قربان کر دیتے ہیں۔

جو ہمیں خوشیاں دے کر غم مول لیتے ہیں۔شاید اِن پروپیگنڈوں سے یہ غدار ہمارے دشمن بھارت کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان آرمی کی تضحیک کی جارہی ہے جس میں ایک مخصوص سوچ کے لوگ ہمیشہ کی طرح بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو قیام پاکستان کے خلاف تھے ۔یہ پروپیگنڈہ ایک خاص منصوبہ بندی سے کیا جارہا ہے لیکن بہت جلد یہ غدار عناصر بے نقاب ہوں گے۔

2017ء میں ایک دردناک واقعہ پیش آیا جس میں ظلم کی انتہا کر دی گئی ۔ ایک سابق وزیر اعظم کی سیکیورٹی نے ایک معصوم بچے کو کچل دیا۔یہ واقعہ جہلم کے قریب پیش آ یا۔یہ بارہ سالہ معصوم بچہ ہسپتا ل میں جا کر دم توڑ گیا۔ لا قانونیت اور بے حسی کی انتہا یہ تھی کہ بچے کو کچلنے کے باوجود وہ سیاسی شخصیت اور اُن کے گارڈز نے گاڑیوں کو نہ روکا ۔ اُن کے نزدیک اُس بچے کی جان کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔

یہ ایک دردناک واقعہ تھا لیکن اِس واقعہ پر کوئی شور نہیں مچایا گیا اور نہ ہی پروپیگنڈہ کیا گیا۔اِس واقعہ کو کسی سیاسی پارٹی یا سیاست سے نہیں جوڑ ا گیاتو پھر ایک فرد واحد کو ایک معزز ادارے سے کیوں جوڑا جا رہا ہے؟
2017ء میں ایسا ہی ایک دردناک واقعہ پیش آیا۔جس میں ظلم کی انتہاکر دی گئی۔ بلوچستان اسمبلی کے ایک ممبر نے ایک ٹریفک وارڈن کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیا۔

یہ ٹریفک وارڈن موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ یہ بہت ہی قابل مذمت واقعہ تھا ۔ یہ ایک سیاسی رہنما کا فعل تھا لیکن اس واقعہ کو بھی نہ تو سیاست سے جوڑا گیا اور نہ ہی سیاستدان سے ۔ تو پھر فرد واحد کے ایک فعل کو ایک معزز ادارے سے کیوں جوڑا جا رہا ہے؟
ہمارے ملک کی تاریخ قانون شکنی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔مثلاََ سیاسی حکام کی طرف سے پولیس کو دھمکیاں دینا ، بیوروکریٹس کو دھمکیاں دینا ، قبضہ مافیا کی سر پرستی ، معصوم بچوں سے زیادتی کرنے والوں کی سر پرستی ، اقربہ پروری اور عدلیہ پر حملے قابل ذکر ہیں۔

لیکن کبھی کسی نے اِن واقعات کو کسی سیاسی پارٹی یا سیاست سے نہیں جوڑا تو پھر حالیہ واقعے کو کیوں ایک معزز ادارے سے جوڑا جا رہا ہے ؟ کسی بھی ملک کی افواج اُس ملک کی محافظ ہوتی ہیں اور افواج کے جوان اور افسران قوم کے ہیرو ہوتے ہیں۔لوگ اُن پر جان نچھاور کرنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔لیکن ہم ہیں کہ اپنے ہیروز کی تضحیک کرتے ہیں ۔ یہ سراسر غداری ہے ۔

جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ صاحب نے آج واضح کیا ہے کہ پاک فوج ایک منظم ادارہ ہے۔پاک فوج میں احتساب کا موئژ نظام ہے۔ذمہ دار افسر اور اس کی اہلیہ کے خلاف سخت کارروائی ہو چکی ہے۔
رواں سال جنوری میں ہمسایہ ملک ایران کے ایک جرنیل قاسم سلیمانی شہید ہوئے ۔ اِس افسر کی شہادت پر جیسے پورے ایران میں صفحہ ماتم بچھ گیا۔ ایرانی عوام عورتیں ، مرد اور بچے اپنے گھر وں کو چھوڑ کر سڑ کوں پر آگئے ۔

تاریخ عالم میں اِتنا بڑا ہجوم کبھی نہیں دیکھا گیا جتنا کہ اس ایرانی جنرل کے جنازے میں تھا۔دوسرے ممالک اپنے ہیروز کو اِس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔
اِس واقعہ سے ثابت ہو چکا کہ ہمارے ملک میں غداری کے جراثیم موجود ہیں۔کچھ غدار لوگ پاکستان آرمی او راپنے وطن کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ ہماری افواج ہماری محافظ ہے ۔ اپنے وطن اورمحافظوں سے غداری صرف غداری ہی نہیں بلکہ نمک حرامی بھی ہے۔یہ غدار لوگ بہت جلد بے نقاب ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :