شٹر ڈاؤن ہڑتال یا حکومت کیخلاف ریفرنڈم

پیر 15 جولائی 2019

 Nasir Alam

ناصرعالم

ضلع سوات میں تیر ہ جولائی کوحالیہ پیش کردہ بجٹ ، ٹیکسوں اور مہنگائی کیخلاف سوات میں تاجر برادری کی کال پرمکمل شٹرڈاؤن ہڑتال رہی جس کے ساتھ ساتھ پہیہ بھی رکا رہا ،یہ سوات کی تاریخ کی اس لئے منفردہڑتال تھی کہ اس روز نہ صرف تمام تر بازار،کاروباری مراکز ،مارکیٹ اوربازار بند رہیں بلکہ گلی کوچوں میں موجود چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی بند تھیں اس کے علاوہ تندور،ہوٹل،قصائی،میڈیکل سٹور،ورکشاپ،بیکریوں،دودھ دہی اورآٹے چینی کی دکانوں ،بڑے بڑے جنرل سٹوراوریہاں تک کہ مستریوں کی دکانوں کو بھی تالے پڑے نظر آرہے تھے جس کے سبب ہر طرف ہو کا عالم تھا،اگر چہ اس ہڑتال کے سبب لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا جبکہ جو لوگ اپنے گھروں سے دور تھے ہڑتال کی وجہ سے انہیں کھانے پینے کی اشیاء تک نہ مل سکیں مگر اس کے باوجود بھی لوگوں کی جانب سے اس ہڑتال کو سراہا گیا ۔

(جاری ہے)

مبصرین کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے بھی اس شٹر ڈاؤن ہڑتال کو حکومت کیخلاف ایک کامیاب ریفرنڈم قرار دیا، جن کا کہناتھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کے ساتھ جو وعدے کئے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا ،حکمرانوں نے قرضے نہ لینے کا اعلان کیا مگر بعدمیں قرض پے قرض لیتے رہیں،عوام کو سہولیات کی فراہمی کے دعوے کئے گئے مگر سہولیات دینے کی بجائے ان سے سہولیات چھین لیں گئیں ،بجلی،گیس،پیٹرول سمیت دیگر اشیائے ضرورت کے نرخوں میں اس حد تک اضافہ کیا گیا کہ اب عوام ان چیزوں کو صرف دیکھ سکتے ہیں خرید نہیں سکتے باالفاظ دیگر ان کی قوت خرید جواب دے گئی ہے ، اور تو اور ادویات کی قیمتوں میں اس قدراضافہ ہوا کہ جو لوگ مستقل طورپربعض ادویات استعمال کررہے ہیں وہ انہیں خریدنے سے قاصر ہوگئے جس کے نتیجے میں ان کی زندگیا ں خطرے میں پڑ گئیں،شوگر اور بلڈپریشر سمیت تمام تر ادویات کی قیمتوں میں نہ صرف دو سو فیصد اضافہ کردیا گیابلکہ بہت سی ادویات مارکیٹ سے غائب بھی ہوگئیں۔

آخر یہ کہاں کا انصاف ہے بلکہ آخر یہ کیا ماجرہ ہے؟جہاں بھی دیکھوعوام موجود ہ حکومت سے بے زار اور نالاں نظر آرہے ہیں ،عوام کو نہ تو طبی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی تعلیمی سہولیات کا نام ونشان نظر آرہاہے ،عوام کہتے ہیں کہ ہم نے مثبت تبدیلی کیلئے ووٹ دیا تھا مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ یہ حکومت ایسی تبدیلی لائے گی جس سے عوام کو پہلے سے میسر سہولیات بھی چھن جائیں گی اورساتھ ساتھ ان کیلئے قدم قدم پر نت نئے مسائل سراٹھائیں گے اس صورتحال کے سبب اب وہ ووٹ دینے پر پچھتا رہے ہیں، عوام نے کہاہے کہ ملاکنڈڈویژن ٹیکس فری زون ہے جہاں پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگایا جاسکتا مگر موجودہ حکومت یہاں کے مصیبت زدہ عوام کے کاندھوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کررہی ہے جس کے سبب عوام میں سخت بے چینی اور پریشانی پائی جاتی ہے ۔

حکومت اورحکومتی اہلکاروں کی کارکردگی صرف نعروں ،دعوؤں اور فوٹوسیشن تک محدود رہ گئی ہے ،خالی خولی وعدے حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن گئے جس کے بعد عوام سوال اٹھانے لگے ہیں کہ کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ کہاں گیا؟بے گھرلوگوں کو گھردینے کا نعرہ لگا کر نادرا کے ذریعے لوگوں سے رجسٹریشن کے نام پرجو فیس وصول کی گئی وہ رقم کہاں گئی ؟ڈیموں کے نام پر وصول کردہ چندہ کہاں گیا ؟شجرکاری کیلئے مختص کردہ اربوں روپے کہاں گئے؟ عوام کو گیس بجلی لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے اور گھر گھر تک سوئی گیس پہنچانے کے سبز باغ دکھائے گئے ان سے ووٹ بٹور لئے گئے اوراقتدارملنے کے بعد عوام کو مسائل اورمشکلات کے دلدل میں دھکیل کر حکمران اقتدارکے مزے لوٹنے لگے مگراب بھی عوام مثبت تبدیلی دیکھنے کیلئے منتظر ہیں،عوام اب بھی پر امیدہیں،وہ آج بھی کسی مسیحاکی راہ دیکھ رہے ہیں،وہ اپنا دردبانٹنے کیلئے آج بھی کسی ہمدرد اورغمخوار کا انتظار کررہے ہیں،وہ آج بھی منتظر ہیں کہ کوئی آکر ان کے زخموں پر مرہم رکھے گا ،لہٰذہ اب بھی وقت ہے کہ موجود ہ حکومت عوام کی مشکلات ،پریشانیوں اورمہنگائی کا خاتمہ کرنے اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے فوری ،عملی اور موثر اقدامات اٹھاکر ان کی صحیح معنوں میں نمائندگی اور ترجمانی کرے ،اس سے نہ صرف عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی اور پریشانیوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ ان کا حکومت پر سے اٹھتا ہوا اعتماد بھی بحال ہوجائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :