ٹیکسوں کا نفاذ اور تاجروں کا ردعمل

پیر 14 اکتوبر 2019

 Nasir Alam

ناصرعالم

 یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ملاکنڈڈویژن ایک ٹیکس فری زون ہے اوراس علاقے کے عوام کو یہ ریلیف میسر ہے کہ ان پر کسی قسم کا ٹیکس لاگو یا نافذ نہیں کیا جاسکتا مگر اس کے باوجود بھی مختلف اوقات میں یہاں پر ٹیکسوں کے نفاذ کی کوشش کی گئی ہے جس کے خلاف سیاسی وسماجی حلقوں،تاجروں اور عوام نے بھرپور آوازاٹھائی جس کے نتیجے میں ٹیکس نفاذکا فیصلہ واپس لیا جاتاتاہم اب حال ہی میں سوات کے مرکزی شہرمینگورہ میں ٹی ایم اے کی جانب سے ٹیکسوں کے نفاذ کا فیصلہ کیاگیا ہے جس کے تحت تاجروں سے ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کے خلاف تاجروں میں ایک بار پھر غم وغصے کی لہردوڑ گئی ہے جنہوں نے ٹی ایم اے کے ٹیکسوں کو مستردکردیا ہے،اس حوالے سے تاجررہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگرکسی دکاندارکوٹی ایم اے کی طرف سے ٹیکس کی کوئی پرچی موصول ہوئی ہے تو وہ وہی پرچی فیڈریشن کے پاس جمع کرائیں اور ٹی ایم اے کوکسی قسم کا ٹیکس ادانہ کرے، انہوں نے لاؤڈسپیکرکے ذریعے کاروباری طبقہ کو آگاہ کیاہے۔

(جاری ہے)


 اب چونکہ ٹی ایم اے کی طرف سے نت نئے فیصلے مسلط کئے جارہے ہیں جس کا کاروباری طبقہ متحمل نہیں ہوسکتابلکہ اس کے نتیجے میں مختلف مسائل جنم لیں گے جبکہ عوامی پریشانیاں بھی بڑھیں گی لہٰذہ ایسے کسی بھی فیصلے کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں جو عوامی مسائل میں اضافے اورکاروبار کی تباہی کا سبب بنے ،جیسا کہ انہی سطورمیں تذکرہ کیا گیا ہے کہ ملاکنڈڈویژن ایک ٹیکس فری زون ہے جس کے تحت یہاں پر کسی قسم کا ٹیکس لاگو نہیں کیا جاسکتا ہے مگر دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہاں کے عوام سے ادویات اورموبائل کارڈ سمیت دیگر مدات میں مختلف ناموں اورمختلف طریقوں سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ایسے ٹیکسوں کیخلاف بھی یہاں کے عوام نے مختلف اوقات میں آوازاٹھائی تاہم وہ صدابصحرا ثابت ہوئی ،مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ٹیکس وہاں نافذکیا جاتا ہے جہاں کے لوگوں کو حکومتوں کی طرف سے زندگی کی تمام تر سہولیات ان کی دہلیز پر میسر ہوں تو وہ لوگ بخوشی ٹیکس بھی اداکرتے ہیں مگر سوات ،ملاکنڈڈویژن کے لوگوں کو تو کسی قسم کی سہولت بھی میسر نہیں۔

 ایسے میں ان پر ٹیکس لگانا ظلم نہیں تو اورکیا ہے،اس وقت سوات میں بے روزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے ،تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادڈگریاں لے کر ملازمتوں اور روزگارکی تلاش میں سرگرداں پھرتے نظر آرہے ہیں مگر انہیں ہرجگہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑتاہے ان لوگوں نے روزانہ صبح سے لے کر شام تک مزدوری کی تلاش میں گھومنا پھرنا ایک طرح سے اپنا معمول بنالیا ہے مگروہ ہر بار مایوس لوٹ جاتے ہیں،اسی طرح سوات میں خودساختہ مہنگائی اوراوپر ناقص ومضرصحت اشیاء کے سبب مقامی لوگ ذہنی کرب اور پریشانی سے گزررہے ہیں مگر ان کے حال پر کسی کو ترس تک نہیںآ تا ،موجود ہ حکومت انہیں کسی قسم کی سہولیات نہیں دے رہی ہے۔

 اس سے قبل بھی جتنی حکومتیں گزری ہیں ان میں سے بیشتر نے یہاں کے عوام کو مایوسی اورمحرومی کے سواکچھ نہیں دیا ہے ،صرف الیکشن کے زمانے اہل سوات کو سبزباغ دکھائے جاتے ہیں سیاستدان سوات کے لوگوں کے کاندھوں پر پاؤں رکھ رکھ کر اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں اورپھر ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو بھلا کر اقتدارکے مزوں میں مصروف ہوجاتے ہیں جہاں سے سوات کے عوام کیلئے ایک بار پھر مایوسی کا دور شروع ہوجاتا ہے ،سوات میں حکومتوں کی طرف سے سہولیات نداردہیں مگر اوپر سے یہاں کے عوام کے کاندھوں پر ٹیکسو ں کا بوجھ ڈالا جارہاہے جو ظلم وزیادتی اورسراسرناانصافی ہے ،اب حال ہی میں ٹی ایم اے نے ٹیکسوں کے نفاذکا جو فیصلہ کیا ہے وہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے جس کے خلاف تاجر برادری ڈٹ چکی ہے جبکہ اس فیصلے سے عوام میں بھی پریشانی پھیلی ہوئی ہے لہٰذہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹیکسوں کے نفاذکا فیصلہ واپس لے اور اس کی بجائے عوام کو زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات فراہم کرے تاکہ انہیں سکھ کی سانس نصیب ہوسکے۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :