لاک ڈاؤن کھلنے کے اثرات

ہفتہ 16 مئی 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

کئی ہفتے مسلسل گومگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد حکومت پاکستان نے آخرکار یہ فیصلہ کرلیا کہ لاک ڈاؤن کھول کر معمولات زندگی کو ایک حد تک نارمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔لیکن ہمیں اس بات کا ضرور جائزہ لینا ہوگا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی کیا صورتحال ہے اور دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں یہاں یہ وائرس بڑھنے کی شرح کیا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے کرونا ڈاکٹر فیصل سلطان نے بریفنگ میں بتایا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کرونا کا پھیلاؤ دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے اسی وجہ سے ہمارے صحت کے مراکز پر بوجھ نہیں پڑا۔

جس کا سامنا دیگر ممالک کر رہے ہیں۔ان کے اس دعوے کو دیکھتے ہوئے ہم اختصار کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کا موازنہ پیش کریں گے اور پھر لاک ڈاؤن کے معیشت پر اثرات کا جائزہ لیں گے۔

(جاری ہے)

امریکہ کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے وہاں کے اعداد و شمار کے مطابق ہر 100 افراد میں سے 16 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ وہاں پر اموات کی شرح تقریبا چھ فیصد ہے۔

بھارت میں ہر 100 میں سے 3 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور اموات کی شرح 3فیصد ہے بنگلہ دیش میں ہر 100 میں سے 12 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ پاکستان کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں کرنا ٹیسٹ کے مرحلہ سے گزرنے والے 100 میں سے 10افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔یہ اعدادوشمار حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ہیں۔

سعودی عرب میں ہر 100 میں سے 9افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور اموات کی شرح 0.6 فیصد ہے۔سپین میں 100میں سے دس افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ اموات کی شرح 10 فیصد ہے جرمنی میں ہر 100میں سے تقریبا 5 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ اموات کی شرح 3.4فیصد ہے۔ان اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان دنیا کے انہی ممالک کی صف میں شامل ہے جہاں پر کرونا وائرس بڑھنے کی شرح تیز ہے البتہ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں شرح اموات کم ہیں۔

ان اعدادوشمار کے مطابق پاکستان 140 ممالک کی فہرست میں پہلے 20 ممالک میں سے 16 ویں نمبر پر ہے جہاں ہر 10 دن بعد شرح اموات دگنی ہو رہی ہے۔27 اپریل کو پاکستان میں اموات کی تعداد 281 تھی جو کہ دس دنوں بعد یعنی 7 مئی کو 564 تک پہنچ گئی۔اسی طرح پاکستان 40 ممالک میں 32 نمبر پر ہے جہاں کرونا کیسز کی تعداد 12دنوں میں دگنی ہوجاتی ہے۔25 اپریل کو ملک میں کیسز کی تعداد11940 تھی جو بارہ دنوں 24073 تک پہنچ گئی۔

ان حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ وزیراعظم کی طرف سے لاک ڈاؤن کھولنے کے ملکی حالات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
کرونا وائرس نے جہاں پر دنیا میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا وہاں پر پوری دنیا کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پاکستان بھی ان کمزور معیشت رکھنے والے ممالک میں شامل ہے جہاں پر کرونا وائرس نے پہلے سے ہی لڑکھڑاتی معیشت کے اہم شعبوں پر بڑے منفی اثرات مرتب کیے۔

وائرس سے بچاؤ کے لیے وفاق اور صوبوں نے لاک ڈاؤن کیا اس فیصلے سے کرونا کا پھیلاؤ تو یقینا کم ہوا لیکن تاجروں اور صنعتکاروں اور عام دکانداروں کا دیوالیہ نکل گیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے زرعی پالیسی اسٹیٹمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ کرونا وائرس سے معاشی شعبوں کو شدید دھچکا لگے گا۔معاشی ترقی کی رفتار 1.5 فیصد منفی میں رہنے کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔

ملک کا تاجرطبقہ شدید متاثرہ ہے دیہاڑی دار طبقے کے حالات اور بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہیں۔حکومت کی طرف سے احساس پروگرام کے تحت 12 ہزار فی خاندان دینے کے پروگرام پر عمل کیا گیا۔لیکن اس کے باوجود حالات کار میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔
پاکستان میں رمضان المبارک کا مہینہ جاری ہے۔ کچھ دنوں بعد عید الفطر کی آمد آمد ہے۔رمضان المبارک کے اندر ملکی معیشت کا پہیہ اس تیزی سے گھومتا تھا کہ بہت سے دکاندار اپنے پورے سال کی شرح منافع کے برابر اس ماہ مبارک میں منافع کماتے تھے بازاروں میں خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔

الگ سے عید بازار لگتے تھے۔ لیکن اس دفعہ یہ ساری سرگرمیاں انجماد کا شکار ہیں۔ان حالات میں عوام اور تاجروں کی طرف سے مسلسل حکومت پر دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ وہ لاک ڈاوٴن میں نرمی کرے تاکہ معاشی سرگرمیاں شروع ہو سکیں۔ حکومت نے اس موقع پر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا۔یہ ایسا فیصلہ ہے جو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں کر سکا۔حکومت کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ ملک بھر میں قائم لاکھوں چھوٹی بڑی مارکیٹیں کھول دی جائیں ۔

یہ تمام دکانیں ہفتے میں پانچ روز صبح فجر سے لے کر شام پانچ بجے تک تک دیے گئے ایس او پیز کے مطابق کام کریں ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس بارے میں مسلسل شعور دینے کی کوشش کی جاتی رہی کہ ان ایس او پیز پر عمل درآمد ان کی زندگی کی حفاظت کا ضامن ہے۔پاکستان کی تاجر اور کاروباری برادری نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا کہ تقریبا ڈیڑھ مہینہ لاک ڈاؤن کے بعد انہیں کاروبار کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔

ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے صدر میاں انجم نثار نے وزیراعظم کی جانب سے لاک ڈاوٴن میں نرمی کے فیصلے کو ملکی معیشت کے لیے خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور کاروبار سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کا روزگار بھی بحال ہوگا۔پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت عقیل کریم ڈیڈی نے بھی وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاوٴن میں نرمی کے فیصلے کو ملکی معیشت کے لئے ایک درست اور خوش آئند قدم قرار دیا انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے معیشت میں سرگرمیاں فروغ پائیں گی۔

لاک ڈاون کی وجہ سے اگرچہ سب کچھ بند ہے لیکن اب امید ہوچلی ہے کہ صورت حال بہتر ہوگی لوگوں کو روزگار ملے گا ۔ لوگ مایوسی کا شکار ہوگئے تھے اور بازار میں مندی کا تسلسل تھا وہاں بھی اب بہتری دیکھی جا سکے گی۔تاجر رہنماؤں کے مطابق ایک طرف وائرس کا خوف اور دوسری طرف روٹی روزی کی فکر نے تاجروں اور دوکانداروں کو ذہنی مریض بنا دیا تھا۔ صرف کراچی کے تاجر یومیہ ساڑھے تین سے چار ارب کے نقصان کا سامنا کر رہے تھے۔

راقم کے مشاہدے کے مطابق پاکستانی قوم عمومی طور پر پر دلیری کا مظاہرہ کر رہی ہے تاہم یہ دلیری مستقبل میں کسی نقصان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے عوام نے اس کے خوف کو اگرچہ اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا۔ لیکن اس کے باوجود تیزی سے بڑھتے ہوئے کیسز ایک لمحہ فکریہ ہے۔لاک ڈاوٴن کے کھلنے سے ملکی معیشت پر بہتر اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔

دیہاڑی دار طبقے کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔چھوٹے دکاندار جو لاک ڈاوٴن کے سب سے زیادہ متاثر تھے ان کے گھر کا چولہا جلے گا۔جس کے ملکی معیشت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔اب ساری ذمہ داری پاکستان کے بہادر عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے دیے گئے اس ریلیف کا کس حد تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔
عوام کو چاہیے کہ وہ نہ صرف بتائی گئی حفاظتی تدابیر کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے سے سماجی دوری رکھنے کے لئے حکومتی احکامات پر سو فیصد عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

اگر عوام کی طرف سے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک طرف قوم اس خوفناک وائرس کا بھی مقابلہ کرلے گی دوسری طرف بھوک اور بے روزگاری کا مقابلہ کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ان حالات میں عوام کو حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگی۔
بیرونی دنیا میں کئے گئے حفاظتی انتظامات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس بیماری سے بچاوٴ کا واحد ذریعہ احتیاط ہے۔

ہمیں بطور قوم اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک اور دستانوں کااستعما ل لازمی بنایا جائے۔سماجی دوری رکھنے کے لئے جو ہدایات حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ہیں ان کا خیال رکھا جائے۔مقامی انتظامیہ کے کندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ بڑھ گیا ہے ۔ انتظامیہ کو چاہئیے کہ وہ ایسے قواعد و ضوابط مرتب کرے کہ جاری کردہ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے دوکانداروں کو کاروبارکا موقع نہ دیا جائے۔

اسی طرح بازاروں اور پبلک مقامات پر بغیر ماسک اور دستانوں کے آنے پر جرمانے عائد کئے جائیں۔ فوری سزا اور جزا کے عمل سے عوام الناس کو اس ضابطہ کار میں لانے میں آسانی ہو گی۔ بازاروں میں بڑھتے ہوئے رش اور حکومتی ہدایات کی سرعام خلاف ورزی نے ماہرین اور ڈاکٹرز کو پریشان کر دیا ہے۔اگر بے احتیاطی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔اگر عوام نے از خود حفاظتی انتظامات نہ کئے تو پھر حکومتی ذرائع کے مطابق لاک ڈاوٴن کی طر ف دوبارہ جایا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :