سیاسی ناکامیوں کا شکار اسرائیلی حکومت کا بیت المقدس پر وحشیانہ حملہ

منگل 11 مئی 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

مسلمانوں کا قبلہ اول ایک مرتبہ پھر خون آلود کر دیا گیا۔ایک مرتبہ پھر بے گناہ مسلمانوں کے خون سے بیت المقدس کا فرش رنگین ہوگیا۔مسجد میں بیٹھ اپنے رب کے نام کی مالا جپنے والے پرامن مسلمانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔اسرائیلی حکومت اپنی سیاسی ناکامیوں کا بدلہ بھی معصوم فلسطینیوں سے لینے لگی۔
تفصیلات کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسلمانوں کے قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس جوتوں سمیت داخل ہو گئی جس کے بعد فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے۔

مغربی کنارے میں اسرئیلی فورسز کی ظالمانہ کارروائی میں 2 فلسطینی شہید اور ایک شدید زخمی ہو گیا۔ مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی نوجوان زخمی ہوگئے۔

(جاری ہے)


نہتے فلسطینیوں نے اسرائیلی پولیس پر پتھراو? کیا اور بوتلیں پھینکیں۔فلسطینی زرائع کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسلمانوں کے قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس جوتوں سمیت داخل ہو گئی جس کے بعد فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے۔


اسرائیلی پولیس نے فلسطینیوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کی اور ربڑ کے گولے فائر کیئے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی پٹی میں کشیدگی ایک ہفتے سے جاری ہے۔
 مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی نوجوان زخمی ہوگئے۔
مقبوضہ بیت المقدس کے مشرقی حصے میں فلسطینیوں کے گھر خالی کرانے پر ہنگامے شروع ہوئے، جس دوران صیہونی فورسز نے 9 فلسطینیوں کو گرفتار بھی کرلیا۔


مغربی ممالک جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ نے غیر قانونی یہودی آباکاری کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ماہ رمضان کے آغاز سے تقریبا روزانہ ہی احتجاج کرنے والے فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوتی آ رہی ہیں۔
اسرائیلی مقبوضہ علاقے میں جاری بدامنی کے اثرات علاقے بھر پر پڑے ہیں۔ ہمسایہ ملک اردن نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ مزید ''اشتعال انگیز ''اقدامات سے گریز کیا جائے۔


الاقصیٰ میں جمعة الوداع کی نماز میں 70،000 افراد نے شرکت کی۔ یہ بات اسلامی نگراں ادارے نے بتائی ہے جو اس مقام پر نگرانی کے فرائض انجام دیتا ہے۔ بعد ازاں، ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس دوران حماس کے سبز پرچم لہرائے گئے، اور پرامن طور پر منتشر ہونے سے قبل حماس کی حمایت میں نعرے بازی کی گئی۔اس سے قبل گزشتہ دنوں بھی میں اسرائیلی فوج کی بھاری نفری نے مسجد اقصی میں گھس کر مقدس مقام کی بے حرمتی کرنے کے ساتھ وہاں پر نماز کی ادائیگی کے لئے روزہ داروں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس موقع پر قابض فوج نے باب العامود کے مقام سے چھ فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا۔ قابض فوج نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر لاوَڈ اسپیکروں کی تاریں کاٹ ڈالیں اور اذان پر پابندی لگادی گئی ہے۔ صیہونی آباد کاروں کے لگاتار کئی دن سے مسجد اقصی پر وحشیانہ حملوں اور اسلام مخالف نعرے بازیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی عوامی، مذہبی اور قومی حلقوں کی طرف سے مسجد اقصی میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کو وحشیانہ فعل قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔

اردن نے بھی مسجد اقصی میں اسرائیلی فوج کی مداخلت اور نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے صہیونی ریاست کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایاہے۔ بیت المقدس کو یہودی بنانے کے صیہونی حکومت کے عمل کے تحت مسجد اقصیٰ پر حملے ہو رہے اور نیز اس مقدس مقام کے اسلامی ڈھانچہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کے ساتھ ہی القدس کے باشندوں کو اس مقدس مقام کو چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

صیہونیوں کی جانب سے آئے دن مسجد اقصیٰ پر حملے کیے جارہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظمیں ان اقدامات کے باوجود خاموش رہیں۔ مسجد اقصیٰ کے خلاف جاری توہین پر مختلف فلسطینی گروپوں کے وسیع پیمانے پر احتجاج کے باوجود، عالم اسلام کے اکثر ممالک اور عالمی دنیا لبوں پر مھر سکوت ثبت ہے۔ایک جانور کے مرنے پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے عالمی ادارے فلسطین میں جاری مظالم پر مھربلب ہیں۔

یاد رہے کہ مسجد اقصی کے خلاف اسرائیلی کوششوں کا آغاز 7 جون 1967 سے ہوا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ 7 جون 1967 مسجد اقصی کے باب مغاربہ پر حملہ کیا اور اس کی چابیوں کوزبر دستی اس وقت اپنے قبضے میں لے لیا گیا جب اسرائیلی فوج نے شہر پر قبضہ کر کے اردنیوں کو وہاں سے باہر نکالا تھا۔ 9 جون 1967 اسرائیلی افسروں نے مسجد اقصی میں نماز جمعہ ادا کرنے پر پابندی لگا دی۔

21 جون 1969 ڈینس مائکل روہان نامی ایک آسٹریلوی سیاح کا روپ دھارے دہشت گرد نے مسجد کو آگ لگادی جس سے اس کی شاندار محراب خاکستر ہوگئی جبکہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا نصب کیا ہوا منبر بھی نذرِ آتش ہوگیا۔ پوری دنیا میں اس کی مذمت کی گئی۔ 16 نومبر 1969 حرم شریف کے جنوب مغربی جانب موجود گوشہ فخریہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ 14 اگست 1970 دی جیرشن سلمان گروپ نے جو کہنے کے لئے ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کا فیصلہ کئے ہوئے تھا‘ زبر دستی حرم میں داخل ہو گیا لیکن مسلمانوں کے سخت ردعمل کی وجہ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا البتہ اس گھمسان میں کء نمازی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔

2008 اور 2009 میں اسرائیل نے حماس کے خلاف بڑی سخت لڑائی چھیڑی جس میں 22 دن تک خوب بربریت کا مظاہرہ کیا۔ الغرض اسرائیل کا ٹارگٹ مسجد الاقصی کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں کرنا‘ گنبد صخرہ کو ڈھا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا اور اسرائیلی شدت پسندوں کو وہاں آباد کرنا ہے۔لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوگا اسرائیل دنیا کا ایک متنازع ملک ہے۔

فلسطین اور عرب دنیا کے ساتھ مخصوص تعلقات کی وجہ سے ہر وقت عالمی میڈیا کی خبروں میں رہتا ہے اسرائیل میں اگر کوی سیاسی بحران آتا ہے تو پوری دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ممالک اس میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ اس سیاسی اتار چڑھاؤ کا براہ راست اثر مسلم ممالک پر ہوتا ہیاب شنید یہ ہے کہ۔اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی قیادت والی لیکود پارٹی کو اب اپوزیشن کا کردار ادا کرنا پڑ سکتا ہے، گزشتہ بارہ برسوں میں ایسا پہلی مرتبہ ہو گا۔


اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو مقررہ وقت، تک ایک نئی اتحادی حکومت تشکیل دینے میں نا کام ہو گئے۔اس سیاسی ناکامی کو چھپانے اور خفت مٹانے کیلے اسرائیل نے بیت المقدس پر چڑھائی کردی۔
چونکہ موجودہ انتظامیہ کے لیے مقررہ وقت گزرچکا ہے اس لیے صدر رووین ریولین اب حکومت کی تشکیل کا کام اسرائیلی پارلیمان کے کسی دوسرے رکن کو سونپ سکتے ہیں۔


مخلوط حکومت قائم کرنے کی ذمہ داری کس کو دی جاسکتی ہے؟
صدرریولین اب یش ایتید پارٹی کے رہنما یائر لیپد کو حکومت سازی کا موقع دے سکتے ہیں۔ سابق نیوز اینکر لیپد کو نیتن یاہو کا سخت مخالف سمجھا جا تا ہے۔
زرائع کے مطابق صدر ریولن اب کسی اور رکنِ پارلیمان کو نئی حکومت کی تشکیل کے لیے 28 دن کا وقت دے سکتے ہیں۔
یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ یائر لاپڈ ہوں گے جن کی ’یش اتید‘ جماعت گذشتہ انتخابات میں نتن یاہو کے دائیں بازو کے ’لیکوڈ‘ کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہی تھی۔


انھیں فریقین کو اکھٹے کرنے کے لیے ان کے مابین وسیع نظریاتی اختلافات دور کرنے کا یقینی طور پر ایک بڑے چیلینج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر صدر کے جانب سے نامزد کیے گئے رکن پارلیمان بھی حکومت بنانے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں تو وہ امیدوار منتخب کرنے کی ذمہ داری پارلیمان کو سونپ سکتے ہیں۔ اگر یہاں بھی ناکامی ہوتی ہے تو اسرائیل ایک اور عام انتخابات میں جا سکتا ہے۔


نتن یاہو کی بدعنوانی کے سلسلے میں جاری مقدمے کی سماعت کے باعث اسرائیل میں سیاسی پیچیدگیاں سامنے آئی ہیں۔ ان کے حریفوں کا موقف ہے کہ مجرمانہ الزامات کا سامنا کرتے ہوئے انھیں اس عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔
نتن یاہو کی زندگی کے سفر کا جائزہ۔
اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہنے کا ریکارڈ قائم کرنے والے بنیامین نیتن یاہو سنہ 1949 میں تل ابیب میں پیدا ہوئے تھے۔

سنہ 1963 میں ان کے خاندان نے اس وقت امریکہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جب نتن یاہو کے والد اور ایک معروف تاریخ دان اور سماجی کارکن بینزیون کو امریکہ میں ٹیچر کی نوکری آفر ہوئی تھی۔
اٹھارہ برس کی عمر میں نتن یاہو اسرائیل واپس آئے اور اس دوران وہ پانچ برس تک فوج کا حصہ رہے۔ انھوں نے 'سایریٹ متکل' نامی مقبول کمانڈو یونٹ میں بطور کپتان ذمہ داری نبھائی اور 1968 میں بیروت ایئرپورٹ پر کیے گئے حملے میں بھی حصہ لیا اور وہ 1973 کی مشرقِ وسطیٰ جنگ کا بھی حصہ تھے۔


فوج میں ذمہ داری نبھانے کے بعد وہ واپس امریکہ چلے گئے جہاں انھوں نے ایم آئی ٹی سے بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سنہ 1976 میں نتن یاہو کے بھائی جوناتھن یوگانڈا کے شہر انتیبے میں ایک ہائی جیک ہونے والے طیارے سے یرغمالیوں کو بچانے کے لیے کیے گئے ریسکیو آپریشن میں ہلاک ہو گئے۔ ان کی ہلاکت کا نتن یاہو خاندان پر خاصا گہر اثر پڑا اور ان کا نام اسرائیل میں لیجنڈری حیثیت اختیار کر گیا۔


نتن یاہو نے اپنے بھائی کے نام پر ایک انسداد دہشتگردی انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی اور 1982 میں وہ امریکہ کے لیے اسرائیل کے ڈپٹی چیف آف مشن تعینات ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نتن یاہو کو عوامی طور پر لانچ کر دیا گیا۔
انگریزی زبان پر عبور رکھنے اور مخصوص امریکی لحجے میں بات کرنے والے نتن یاہو امریکی ٹیلی ویژن پر ایک جانی مانی شخصیت بن کر ابھرے جو صحیح معنوں میں اسرائیل کی وکالت کرتے تھے۔

نتن یاہو کو 1984 میں اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کا مستقل نمائندہ مقرر کر دیا گیا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے سیاسی سفر پر ایک نظر
بنیامین نتن یاہو نے اسرائیل کے وزیرِاعظم کی حیثیت سے 15 برس کے دور اقتدار کے دوران دو ایسی انفرادی خصوصیات حاصل کیں جو قبل ازیں کسی اسرائیلی سیاست دان کو حاصل نہ ہوسکیں۔ ایک تو وہ ملک کے سب سے زیادہ عرصے تک برقرار رہنے والے سربراہ بنے اور دوسرا وہ ایسے پہلے وزیرِ اعظم بھی بنے جنھوں نے بطور وزیرِ اعظم کے دوران فوجداری کے مقدمات کا سامنا کیا۔

اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا دفاع کیا۔
ان کے حامی انھیں متعدد الیکشنز جیتنے کے باعث 'کنگ بی بی' اور 'جادوگر' کے القابات سے نوازتے رہے ہیں تاہم اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ کے سربراہ کو اب بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے اور وہ سیاست میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
نتن یاہو کی کامیابی کا راز
مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کے مطابق ماضی کے الیکشنز میں ان کی فتح کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کی (بقول انکے)خطرناک فورسز سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔


اور دوسغ وجہ یہ ہے کہ انھوں نے فلسطینیوں کے لیے بھی خاصی سخت بلکہ ظالمانہ پالیسی اپنائی رکھی اور امن کی کسی بھی بحث میں سکیورٹی خدشات کو سرِ فہرست رکھا ہے۔ وہ اسرائیل کی بقا کو ایران سے لاحق خطرے کے حوالے سے بھی بارہا خبردار کر چکے ہیں۔انکے یہ اقدامات انکو اسرائیلی عوام میں مقبول رکھے ہوے ہیں۔
اقتدار تک کا سفر
سنہ 1988 میں جب وہ اسرائیل واپس آئے تو انھوں نے ملکی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی اور لیکوڈ جماعت کے لیے ایک نشست پر کامیاب بھی ہوئے جس کے بعد انھیں ڈپٹی وزیرِ خارجہ تعینات کر دیا گیا۔


اس کے بعد وہ جماعت کے سربراہ بن گئے اور پھر سنہ 1996 میں وہ اسرائیل کے پہلے براہ راست منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم بنے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوا کیونکہ یتزاک رابن کے قتل کے بعد قبل از وقت انتخابات کروائے گئے تھے۔ نتن یاہو اسرائیل کے سب سے کم عمر رہنما تھے اور وہ پہلے ایسے وزیرِ اعظم تھے جو ریاست کے 1948 میں وجود میں آنے کے بعد پیدا ہوئے۔


سنہ 1993 میں اوسلو میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والے امن معاہدوں کی شدید مذمت کرنے والے نتن یاہو نے اقتدار میں آنے کے بعد ہیبرون کا 80 فیصد حصہ فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں دے دیا۔ اس فیصلے پر انھیں ملک کے دائیں بازو کے افراد کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
سنہ 1999 میں انھیں اس وقت اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے جب انھوں نے مقررہ وقت سے 17 ماہ قبل الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا۔


نتن یاہو کی شکست کے اسباب۔
مسلسل 15 سال اسرائیل پر حکومت کرتے ہوے نتین یاہو نے کءء اہم اقدامات کیے۔ایک طرف تو امریکی انتظامیہ خصوصا ٹرمپ کے دور حکومت میں آنکے امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کیے۔فلسطینوں پر مظالم کا سلسلہ بھج نہ رکا۔انکے منظم قتل عام جاری رہا۔امریکہ کی آشیرباد کے باعث ہر عالمی فورم پر اسکی پشت پناہی جاری رہی اور یہ آپنے ملک کے عوام میں مقبول رہے۔

انکی مقبولیت میں پہلی دراڑ تب آء جب سنہ 2016 کے بعد سے نتن یاہو کو بدعنوانی کی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا اختتام نومبر 2019 میں ان پر رشوت، فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے جیسے تین مختلف کیسز میں فردِ جرم عائد ہونے پر ہوا۔
نتن یاہو پر الزام ہے کہ انھوں نے امیر کاروباری شخصیات سے تحفے وصول کیے اور بہتر میڈیا کوریج حاصل کرنے کے لیے احسانات کیے۔


وہ ان تمام الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی جانب سے کی جانے والی الزام تراشیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ مئی 2020 میں انھوں نے مقدمے کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح وہ کسی بھی مقدمے کا سامنا کرنے والے پہلے وزیرِ اعظم بن گئے اور انھوں نے اپنے مخالفین کی جانب سے عہدے سے دستبردار ہونے کے مطالبات کو مسترد کیا۔


ان الزامات کے سائے تلے نتن یاہو گذشتہ ایک سال میں تین غیر نتیجہ خیز عام انتخابات کے باعث ریکارڈ پانچویں مرتبہ وزیرِ اعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم اس بارے انھوں نے اپنے سیاسی مخالف بینی گینٹز سے اقتدار شیئر کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور کورونا وائرس ایمرجنسی سے نبردآزما ہونے کے لیے قومی سیاسی اتحاد قائم کیا۔
تاہم آٹھ ماہ بعد ہی اس اتحاد کے ٹوٹنے کے باعث ملک میں دو سالوں میں چوتھا الیکشن ہوا۔

حالانکہ اس الیکشن میں لیکوڈ جماعت نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں، تاہم نتن یاہو کی بطور وزیرِ اعظم کام جاری رکھنے کے مخالفین میں اضافے کے باعث وہ اکثریت حاصل نہ کر سکے اور یوں اب ان کا سیاسی کریئر خطرے میں پڑ گیا ہے۔
حرف آخر۔
اسرائیل اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔دوسال میں چار عام انتخابات منعقد ہوچکے ہیں لیکن وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔

مبصرین کے مطابق انتخابات میں کامیابی کیلے نتن یاھو کسی مہم جوئی کا اہتمام کر سکتے ہیں تاکہ اسرائیلی عوام کی ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں۔اور اگر ایسا ہوا،اور فلسطین کے شہریوں پر ظلم و ستم کا نیابازار گرم کیا گیا تو مشرق وسطی کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا بھی اس صورتحال پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔اگر کسی مہم جوئی کے امکانات نظر اے تو ایک نء جنگ کے خطرات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

اور جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے دوسری قطر اور کی دیگر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کر چکے ہیں۔عرب دنیا کے نوجوان حکمران اپنے بزرگوں کے برعکس اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نء جہات کو تلاش کر رہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :