سلطانوں کی لڑائی!!!

جمعہ 5 اپریل 2019

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

شہرت،دولت اور خوش آمد ایک نفسیاتی بیماری ہے،جس کو لگ جاتی ہے اسے غذا کم ہونے پر دورے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔فرحت اللہ بیگ نے اسے ریہ کی بیماری قرار دیا تھا کہ جس کو لگ جائے اسے دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔سر سید احمد خان نے ڈیڑھ سو سال پہلے اپنے مضمون"خوش آ مد "میں برصغیر کے مسلمانوں کو آ گاہ کیا تھا۔یہ بیماری آ ج بھی مذہبی، سیاسی اور سماجی طور پر عام ہے۔


دنیا میں جو لوگ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے وہ اپنے وسیع ظرف کی وجہ سے محفوظ رہے۔جیسے ہی ظرف کا فرق پیدا ہوا بڑے بڑے علماء،لیڈر،اداکار۔فنکار ،شہزادے دھڑم سے گرے کہ آٹھ نہ سکے۔لیڈی ڈیانہ۔مائیکل جیکسن،صدام حسین، قذافی، عرفات،شاہ فیصل۔نیکسن،اور دنیا کے کئی منظر آ پ کے سامنے ہوں گے۔مگر جس نے ظرف اور قربانی کا مظاہرہ کیا وہ امر ہوگے ۔

(جاری ہے)

نیلسن مینڈیلا،مارٹن لوتھر کنگ جونیئر،مدر ٹریسہ۔ایدھی۔سر سید۔قائداعظم کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔
عمران خان نے ایک طویل عرصہ جدوجہد کے بعد یہ مقام پایا ہے۔مگر ملتان کے سلطان۔۔ شاہ محمود قریشی۔جاوید ہاشمی،اور جہانگیر ترین کے درمیان شروع سے مخاصمت موجود تھی،جاوید ہاشمی نے کنارہ کشی اختیار کی،عمران پر کاری ضرب لگائی مگر ہاشمی جو بڑا آ دمی تھا کہیں دھول میں گم ہو گیا،مگر شاہ محمود اور جہانگیر ترین کے درمیان شہرت ،مخاصمت میں بدلتے بدلتے، باقاعدہ لڑائی میں تبدیل ہو گئی۔

کون حق پر ہے اور نقصان کس کا ہو گا۔؟ دونوں کو تجزیہ کر لینا چاہیئے،جہانگیر ترین کے ساتھ ہمیں کام کا تجربہ ہے وہ انتہائی محنتی۔جدوجہد پر یقین رکھنے والا اور پروفیشنل شخص ہے۔بد قسمتی سے نااہلی کا شکار ہو کر تنہا رہ گیا۔
شاہ محمود کو اس سے تسکین ضرور پہنچی ہو گی جیسے نواز شریف کی نااہلی سے شہباز شریف کو اطمینان قلب ہوا۔یا مریم نواز کے آوٴٹ ہونے سے ہمزہ کے خوابوں کو تقویت ملنے لگی۔

یہ کھیل ایسا ہی بھیانک ہوتا ہے۔ملتان کے سلطان ٹکٹوں کی تقسیم پر،پھر جیت اور ہار میں بھی الجھے مگر جہانگیر ترین کی بادشاہ گری نے سب گرد بیٹھا دی تھی۔
شاہ محمود قریشی نے اس خلا اور جہانگیر ترین کی عدم موجودگی سے خوب اندرون ملک اور بیرون ملک شہرت پائی۔حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھی شاہ جی کا گراف ان کی محنت ، عمران خان کی شخصیت اور فوج کی اعلیٰ ترین کارکردگی سے اور بلند ہو گیا۔

جو ان کی ر گوں میں آ گ بن کے دوڑنے لگا۔خدا کرے اس آ گ سے حکومت کا کمزور آ شیانہ نہ جل جائے یا شاہ جی فطری انجام سے دوچار نہ ہو جائیں۔چونکہ شہرت بیماری ہے جو اچھے خاصے صحت مند آ دمی کو بستر مرگ تک لے آتی ہے۔
دوسرا جھگڑا پنجاب یا کم ازکم جنوبی پنجاب کی سلطانی حاصل کرنے کا ہے وہاں جہانگیر ترین کو اپنی محنت،خدمت اور بے لوث حکومت سازی کی وجہ سے برتری حاصل ہے۔

اگر یہ موقع پرستی ہے یا کوئی اشارہ تو بھی نقصان شاہ جی کا زیادہ ہو گا۔قیادت عمران خان کے پاس ہے۔اور اس کے بغیر تحریک انصاف کچھ نہیں۔کیا ایک اور بھٹو بننے کی خواہش مند ی ہے تو وہ سکہ اب بیداری اور سوشل میڈیا کے ہوتے نہیں چل سکتا۔ہاں وکٹ پر رہ کر کھیلنے سے شاہ جی کو بہت کچھ مل سکتا ہے۔جہانگیر ترین کو عمران خان اور ان کا کام پسند کرتے ہیں۔شہرت کی بیماری کو روگ نہ بنائیں اسی میں ملک اور حکومت کا بھلا ہے۔جو براہ راست عوام کو منتقل ہو گا۔
عشق کی چوٹ یکساں پڑتی ہے دلوں پر۔۔۔۔۔۔ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے۔یوسف رضا گیلانی۔جاوید ہاشمی،اور شہرت کے کئی سلطانوں سے سبق سیکھیں۔قربانی آپ کو آ مر کر دے گی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :