پٹواری کی لال کتاب !!!

اتوار 20 ستمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

وزیراعظم عمران خان نے اگلے دن ملک سے پٹواری کلچر ختم کرنے کی بات کی ہے، اور کہا کہ تمام اراضی کو مکمل کمپیوٹرائزڈ کیا جائے گا، یہ باتیں وہ الیکشن سے پہلے بھی کرتے رہے ہیں بلکہ پٹواری کا لفظ ایک سیاسی پراپیگنڈہ بن گیا جو اپنے مخالفین کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، اب بطور وزیراعظم جب وہ پٹواری کلچر ختم کرنے کی بات کرتے ہیں تو حیرت اور خوشی دونوں ھوتی ہے۔

حیرت اس لئے کہ کیا یہ صرف باتیں ہیں اور خوشی اس لئے کہ اگر انگریز کا دیا ہوا یہ تحفہ تبدیلی کا باعث بن جائے تو کیا خوبصورت اور دیر پا کام ہو جائے۔۔انگریز نے یہ نظام بنانے کے لیے بہت محنت کی تھی، لیکن ان کے غلاموں نے اس سارے کلچر کو سیاست، اجارہ داری، رشوت اور قبضہ گیری کے لیے استعمال کیا، پٹواری ملک کے چپے چپے کا بادشاہ بن گیا، جس کے سامنے سائیلین کاغذات اٹھائے سالوں زنجیر عدل ہلاتے رہتے ہیں مگر اس سے تنازعہ ہی برآمد ہوتا ہے، انگریزوں نے بڑی خوبصورتی سے یہ عہدہ تخلیق کر کے اپنی زیر انتظام کالونیوں کو کنٹرول کیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ اسی پٹواری نظام نے اراضی کے بندوبست اور ریکارڈ مرتب کرنے میں اہم کام کیا جو آج تک چل رہا ہے، وقت کے ساتھ اس کا ارتقاء اور جدت کو جان بوجھ کر روک دیا گیا جس سے عوام سخت تکالیف میں مبتلا ہوئے، اب اگر اس کو بدلنے کی کوشش کی جائے اور جدت لائی گئی تو بہت آسانی ہو گی۔

(جاری ہے)

ایک رپورٹ کے مطابق برصغیر میں سرکاری سطح پر زمینوں کے انتظام کی تاریخ شیر شاہ سوری سے لے کر اکبر اعظم اور برطانوی راج تک پھیلی ہوئی ہے۔انگریز نے 1860ء میں اراضی کا ریکارڈ مرتب کرنے کا کام شروع کیا، جبکہ 1900ء میں پہلا بندوبست اراضی کیا گیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پر کام کیا جاتا رہا اور 1940ء کے بندوبست میں اس نظام کو باقاعدہ نافذ کیا گیا، اس وقت کے سارے پنجاب کا ریکارڈ ترتیب دیا گیا جو آج تک اصل ریکارڈ اراضی بل رہا ہے۔

برطانوی حکومت نے اس کی چالیس کتابیں مرتب کیں جن میں پٹواری کی لال کتاب بہت مشہور ہے۔باقاعدہ محکمہ مال تشکیل دیا گیا، جس میں پٹواری، گرداور، اور تحصیل دار اس کے بلا شرکت غیرے بادشاہ بن بیٹھے، سب سے پہلے واجب الارض یا واجب العرض نامی کتاب مرتب ھوئی، یہ سب سے اہم دستاویز تھی۔اس دستاویز میں ہر گاوں کو ریونیو اسٹیٹ قرار دیا گیا، جس زمین آباد کرنے والوں کی پشت ہا پشت نام، قومیت، عادات و خصائل، ملکیت، رسم و رواج، مشترکہ مفادات،قوانین زمینداروں کی تفصیل، زراعت پیشہ حتی کہ اماموں تک حقوق وفرائض درج کیے گئے، یہاں تک کہ کس زمین سے امام کو کتنا حصہ فصل میں دیا جائے گا، سب کا اندراج کیا گیا تھا، پٹواری روزانہ کی بنیاد پر علاقے کی کارگزاری لکھتا تھا، برطانوی راج میں محکمہ مال بنایا گیا تو زمین کی۔

خصوصاً پنجاب کے ہر حصے کی پیمائش کی گئی، سابق سارے پنجاب کی اٹک تک بڑی باریک بینی سے پیمائش ہوئی،نمبرات، خسرہ، سڑکوں، پیدل راستوں، دریا ، نالے، گویا ہر چیز کا واضح اندراج کیا گیا اور قوانین وضع کیے۔ہر گاؤں کا لٹھا، تیار کیا گیا، شجرہ نسب، ملکیتی ریکارڈ جمع بندی نامی کتاب میں کیا اور بعد ازاں اس کتاب کو رجسٹر حقداران قرار دیا گیا۔

خانہ ملکیت میں نمبر زمین، کھیوٹ، کھتونی، خسرہ، کیلہ، مربعہ جا اندراج تھا۔ہر چار سال بعد تبدیلیوں اور ریکارڈ کی درستگی کے لیے مالکان کی موجودگی میں چیزیں مرتب کی جاتیں، انگریز نے گویا پنجاب کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑا جس کو اپنی کتاب اور ریکارڈ میں درج نہ کیا ھو ۔یہی نقشے، لٹھے آج تک چل رہے ہیں، زمانے میں بہت نشیب و فراز آئے مگر اس نظام کو جدید ذرائع کا حصہ بنانے کے لیے کچھ نہیں ھو ما، سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے اراضی ریکارڈ مرتب کرنے کی کوشش کیں اور بڑا خطرہ سمجھ کر چھوڑ دیا، موجودہ حکومت نے اس پر کام شروع تو کیا ھے، 26000 موضعات مکمل ہیں اور 3000 مزید رہتے ہیں وزیراعظم عمران کی سوچ کے مطابق اگر یہ زمین ریکارڈ پورے ملک میں عمومآ اور پنجاب میں خصوصاً  مرتب ھو گیا تو یہ بڑا کام ھو گا اراضی دنیا بھر میں کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کا حصہ ہے، پاکستان میں یہ کام اور پٹواری کی بادشاہت توڑنی ھے۔

تو وزیراعظم عمران خان آگے بڑھیں تبدیلی ممکن ہے،  دیکھیں پٹواری کی لال کتاب سے لاکھوں سائلین وابستہ ہیں ان کو بڑی آسانی میسر آئے گی اور وزیراعظم بھی پٹواری نظام کو ختم کرکے تسکین حاصل کر سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :