بستے کا بوجھ۔۔تاریخی قانون!

جمعہ 11 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

خیبرپختونخوا اسمبلی کئی حوالوں سے منفرد ہے، ایک تو نوجوان طبقے سے تعلق رکھنے والے ممبران بہت ہیں، دوسرا  نئی سوچ اور عمل کا شوق بھی پایا جاتا ھے، قانون سازی کے اعتبار سے تمام صوبائی اسمبلیوں میں سر فہرست ہے اور اب تک تقریباً ساٹھ سے زائد بل منظور کر چکی ہے، جس میں عوامی مفاد کے کئی قوانین شامل ہیں، تاجروں اور صنعتکاروں کے لیے بھی قوانین کو بہتر کیا گیا ہے حال ہی میں پبلک پرائیویٹ بل منظور کیا گیا جس کی بہت پذیرائی ہوئی، گزشتہ دنوں سکولز بیگز کا قانون منظور کیا گیا ہے، جو ایک تاریخی بل ہے عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق جو بچے اپنے وزن سے دس فیصد زیادہ بوجھ کا بستہ یا بیگ اٹھاتے ہیں ان کی ھڈیوں، نشوونما اور صحت میں کمزوری نمایاں ہوتی ہے، اسپین میں 1403  بچوں پر تحقیق کی گئی جن کی عمریں 12 سے 17 سال تک تھیں، دیکھا گیا کہ جن بچوں کے سکول بیگز کا وزن دس فیصد زیادہ تھا ان میں سے 61 فیصد بچے کمر درد میں مبتلا پائے گئے، جن میں لڑکوں کی نسبت لڑکیاں زیادہ تھیں، ھمارے ھاں عموماً 30 سے 40 فیصد وزن زیادہ ہوتا ہے، صبح نرم، گرم بستر چھوڑ کر وزنی بیگ اٹھانے پر اکثر بچے اکتاھٹ، عدم دلچسپی اور سستی کا شکار رہتے ہیں، پھر ھوم ورک کا بوجھ کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا ، ھمارے ھاں حکومتوں نے تعلیم پر توجہ کم ہی دی چہ جائیکہ وہ اس طرح کے قوانین بھی پاس کرتیں، موجودہ حکومت نے خیبرپختونخوا میں پہلے دور میں بھی صحت، تعلیم اور پولیس کے محکمے میں اصلاحات لائی تھیں اس مرتبہ بھی کوشش جاری ہے جس کےمستقبل میں اچھے نتائج برآمد ہوں گے، خیبرپختونخوا اسمبلی سکول بیگز کا بوجھ کم کرنے کے لیے قانون سازی کرنا چاھتی تھی جس پر ھائی کورٹ پشاور نے 7 اکتوبر کو ایک ڈرافٹ منظور کیا  تھا، حکومت خیبرپختونخوا نے اسے کابینہ کے سامنے رکھا جس نے دوسری جماعت سے پانچویں تک سکول بیگز کا وزن 5.3 کلو گرام، چھٹی سے دسویں تک 5.4 کلو گرام اور گیارہویں جماعت کے لیے بیگز کا وزن 7 کلو گرام رکھنے کی تجویز دی گئی تھی  سکول بیگز ایکٹ پہلا قانون ھے جیسے کسی اسمبلی نے منظور کیا ھے، جس کے لیے پہلی جماعت کے لیے 2.4 کلو گرام، دوسری کے لیے 2.6 کلو گرام، تیسری جماعت کے لیے 3 کلو گرام اور ھائیر سکینڈری کے لیے 7 کلو گرام وزن رکھا گیا ہے، صوبائی وزیر تعلیم شہرام ترکئی جن پر عمران خان بہت اعتماد کرتے ہیں اور گذشہ دور حکومت میں صحت کے شعبے میں نمایاں تبدیلیاں لائے تھے، انہوں نے اب تعلیم کے محکمے کی ذمہ داری اٹھائی ھے جو بچوں کے کندھوں سےبوجھ اٹھانا چاہتے ہیں، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ پہلا تاریخی بل ہے، جس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں گے، نجی سکولوں کو دو لاکھ تک جرمانہ دینا پڑے گا بیشتر لوگ اور سکول بھاری بیگز کو تعلیم کا اچھا معیار سمجھتے ہیں، تاھم جدید تحقیق کے مطابق یہ بوجھ بچوں کے لیے نقصان دہ ہے،  پاکستان میں قانون کی پاسداری اور عمل درآمد پر بے شمار مسائل موجود ہیں لوگ اس ملک سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ"ہرکوئی اپنی مرضی" کرتا ھے قانون کی خلاف ورزی معمول ہے، جن اداروں کا کام لا قانونیت کو روکنا ھوتا ھے وہ بھی قانون کی خلاف ورزی صرف کمزور طبقے کی دیکھتے ہیں، اسی سستی کی وجہ سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

اب خیبرپختونخوا اسمبلی نے یہ بل منظور کیا ھے تو ھم خوش آمدید کہتے ہیں عمل  درآمد کے لیے بھی اقدامات کرنے ھوں گے۔دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی ایسی قانون سازی پر توجہ دینی چاہیے، اس سال تو بچے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے بھی بہت خوش ہیں کیونکہ خوب کورونا چھٹیوں نے انہیں محبوب بنا دیا ہے اب کم بوجھ بیگز بھی بچوں کے لیے خوشی کا باعث ھو ں گے، تعلیم اور تعلیم سے جڑے ہر عمل کو دیکھنا چاھیے، اس وقت ایک اور مسئلہ طلباء کے لئے وبال جان بنا ھوا ھے اور وہ ہے تعلیمی اداروں کے باہر منشیات کا کاروبار جس سے طلباء کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، والدین کے لئے مسلسل پریشانی کا باعث ہے، وزیراعظم نے بھی گذشتہ دنوں اس پر اپنے عزم کا اظہار کیا، سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد کروانا نوجوان نسل کو بچا سکتا ہے، آئس، نشہ اور اشیا نوجوان نسل کا فیشن بنتا جا رہا ہے، اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، معیار تعلیم اور تربیت کا اہتمام ضروری ہے سب سے بہترین سیلکشن اساتذہ کی ھونی چاہیے، جس میں صلاحیت، نفسیات اور قابلیت کو پرکھنے کا پیمانہ بنایا جائے۔

ایک بل تاریخی منظور ہوا ہے تو باقی معاملات کو بھی دیکھنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :