ڈوبتا نظام،ناکام حکمران: جائیں تو جائیں کہاں…!!

ہفتہ 29 دسمبر 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

24دسمبرکو نوازشریف کو ایک دفعہ پھر بدعنوانی کے جرم میں 7سال کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔24دسمبر ہی کو آصف علی زرداری اینڈ کمپنی کی منی لانڈرنگ اور بے نامی بنک اکاونٹس کی تحقیقات کیلئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں پیش کی گئی،جس میں انکو بڑے سنگین الزامات کا سامنا ہے،27دسمبر کو بلاول،زرداری اور انکے کاروباری اور سیاسی گروہ کے سینکڑوں افراد کوایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ امریکہ میں موجود مبینہ جائیداد کاغذات نامزدگی میں نا ظاہر کرنے کے الزام میں زرداری کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا جارہا ہے ۔

شہباز شریف اس سے پہلے ہی مختلف قسم کے الزامات میں جیل میں ہیں ۔ اسی طرح مسلم لیگ نواز کے سعد رفیق اور انکے بھائی بھی بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں ہیں۔

(جاری ہے)

شہباز شریف،سعدرفیق،سلمان رفیق کو سردست کسی عدالت سے سزا نہیں سنائی گئی اور ناہی کسی عدالت میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔قبل ازیں جولائی2018ء میں عام انتخابات سے پہلے نواز شریف انکی بیٹی مریم صفدر اور داماد صفدرکو مختلف قسم کے الزامات میں عدالتی سزائیں سنا کرجیل بھیج دیا گیا تھا جب کہ الیکشن گزرنے کے بعد’مجرموں‘ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے پر انکو عدالتی کاروائی کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

قبل ازیں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی طویل عدالتی کاروائیوں کے دوران11سال جیلوں میں کاٹ کر تمام کیسوں میں ”باعزت“ بری ہوچکے ہیں۔اب پھر انکے آگے پیچھے ہتھکڑیاں لہرائی جارہی ہیں۔جنرل ایوب خان کے دور سے احتسابی شکنجے کو مختلف ناموں سے مخالف سیاسی عناصر کی بیخ کنی کیلئے استعمال میں لایاجاتا رہا ہے مگر احتساب کی عمر دراز ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں،رشوت،کمیشن،قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے کمائی جانے والی’ کالی دولت‘ کی صحت پہلے سے بھی بہتر ہوتی جارہی ہے۔


کہا جاتاہے کہ گہری خاموشی کے نیچے طوفان پنہاں ہوتا ہے ۔یہی خاموشی بڑھ جائے تو پھرگردوپیش کے ’سیانے ‘گھبرانا شروع کردیتے ہیں۔ سماج پر لمبی مدت سے محیط ایسی ہی خاموشی نے پاکستان میں طاقت ورحلقوں کومصنوعی شور بپا کرنے پر مجبور کردیاہے۔حکمران طبقے کے ایک چھوٹے سے حصے کااحتساب،مقدمہ بازی،پکڑپکڑائی اور چھوڑ چھڑائی کا طلاطم پیدا کرکے ایک مصنوعی شورپیدا کیا جارہا ہے۔

    پاکستان کا حکمران طبقہ ریاست کے’ نامیاتی بحران‘ کو ٹالنے کیلئے ہمیشہ کچھ ٹیکٹس تسلسل سے استعمال کرتاچلاآیا ہے۔بدامنی،دھشت گردی اور قتل وغارت گری کے ذریعے ایسے ”آپریشن“ شروع کئے جاتے ہیں جن کا انت ’حکومتوں کو کمزور یا ختم کیا جانا‘ اور ’غیر جمہوری‘ قوتوں کے اختیارات اور دائرہ کار میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔کراچی میں یہ کھیل بھی شروع ہوچکاہے۔

ایک اورمستقل بھونڈا طریقہ ”احتساب“کا ہے۔پاکستان میں ’احتساب‘ کا ڈرامہ پچاس ساٹھ سالوں سے ’کامیابی‘ سے چل رہا ہے۔ حکمرانوں کے ایک دھڑے کو ”کٹہرے “ میں کھڑا کرکے پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں،غریبوں کو اپنے دکھوں اور تکالیف سے صرف نظر کرنے اور دھوکہ دینے کیلئے اک تماشہ کیا جاتا ہے۔پچاس سالوں کے احتساب سے بہت سے اہداف حاصل ہوئے مگر بدعنوانی اور لوٹ مارکا کھیل پہلو ہی میں پہلے سے کئی ہزار گنا بڑا حجم بڑھا کرچلتا رہا۔

ماضی کی نسبت،کرپشن کا کاروبار چند مخصوص شعبوں سے بڑھ کروسیع وعریض ہوتاگیا۔رشوت اوراسمگلنگ یا دوسرے لفظوں میں غیر قانونی بدعنوانی کی جگہ پر جدید،سائنٹیفک اور ریاستی اعانت پرمبنی’قانونی‘ لوٹ ماراوربدعنوانی نے کامیابیوں کے میدان میں جھنڈے گاڑ دیئے۔ بتدریج ناکامیوں کا شکار ریاست کا بڑے سے بڑے عالمی معاشی بحرانوں میں اپنے قدموں پر کھڑا رہنا حیران کن کارنامہ ہے جس کے عقب میں ”کالے کاروبار“ اور دھندوں سے پیدا کی گئی دیوھیکل دولت کے پہاڑ ہیں۔

پاکستان کی سرکاری معیشت لڑھک رہی ہے مگر شہروں کے چاروں طرف کروڑوں اور اربوں روپے کے محلات تعمیر ہورہے ہیں،چھوٹے سے چھوٹے شہر میں بھی اربوں روپے کی قیمتی گاڑیاں سڑکوں پر تیرتی پھرتی ہیں۔یہ اسی دولت کا کرشمہ ہے جس کو ماضی بعید میں ’ہذامن فضل ربی‘ اور ماضی قریب میں ”یہ سب تمہارا کرم ہے آقاکہ بات اب تک بنی ہوئی ہے“ کے لاحقے کے ساتھ منسلک کرکے پیش کیا جاتا رہاہے۔


 پاکستان میں کارخانے بند ہوتے جارہے مگر ہر ہفتے کسی نا کسی نئے بنک کا افتتاح ہورہا ہوتا ہے۔ہر بنک اربوں کھربوں کے ڈپازٹ سے چل رہا ہے ۔امرواقع یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کادوتہائی حصہ کالی دولت کے انبھار پر مشتمل ہے ،موجودہ اتھل پتھل ’قابو کالی معیشت ‘کے سامنے استوار کی گئی ’بے قابو کالی معیشت ‘کے خلاف ہے ۔اس کالی دولت کے پہاڑ کے ایک سرے کی ”بلاسٹنگ“بڑی لینڈ سکیپنگ کا باعث بن سکتی ہے جس کی وجہ سے بڑی تباہی ہوسکتی ہے۔

مگر ابھی تک حالات نام نہاد ”سویلین یا جمہوری“اشرافیہ کے ایک حصے کے ہی خلاف دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے سیاسی عناصر جو ہمیشہ پاکستان کی بالادست قوتوں کی ’سیاسی پراکسی‘کا فریضہ نبھانے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ،ہزاروں الزامات اورسینکڑوں سنگین اقدامات کے باوجود‘سردست کسی قسم کے’محاسبے‘،بازپرس ،سزاوجزا کے عمل سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔

80ء کی دھائی میں کالی دولت جمع کرنے کیلئے بہت سے شاندار مواقع عالمی اور مقامی طاقتورحلقوں کے ”افغانستان جہاد“کے معرکے نے مہیا کئے۔ افغان جہاد نے ایک طرف خطے پر اسلحہ اور بارود سے خون کی ہولی کاکھیل شروع کیا تو دوسری طرف نقد ڈالروں کے ساتھ ہیروین اور غیرملکی اسلحے کے غیر قانونی بیوپار کو ابھاردیا۔کئی دھائیوں تک پہلے غیر ملکی طاقتوں کیلئے اوربعد ازاں مقامی سرپرستوں کیلئے ’جہادی پراکسیز‘کی بھرتیوں،جنگی تربیت اور اسلحہ کی فراہمی نے ایسے منہ زور عفریت کوپیدا کیا جس نے پھر اپنی عسکری اور گروہی طاقت کو اپنی معاشی،سیاسی اورسماجی طاقت کی استواری اور بڑھوتری کیلئے استعمال میں لانا شروع کیا۔

یوں نئی معاشی تراکیب معرض وجود میں آئیں اور مستقبل کی معیشت کا لازمی جزو بن گئیں۔ہر معاشی نظام اور اس سے جڑے قوانین و طریقہ ہائے کارسماج میں ہونے والی سرگرمیوں خصوصی طور پر سیاست پر کئی طریقوں سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کالی دولت کے حصول کا معاشی نظام سرکاری معاشی نظام کے پہلو میں مسلسل مگر تیزی سے ارتقائی مراحل طے کرتا چلا آرہا ہے۔

شروع شروع میں جہاد افغانستان سے وضع ہونے والا کالی دولت کا نظام‘ جہاد کے نگہبانوں اور سرپرستوں کا مرہون منت ہونے کی وجہ سے اپنا بڑا حصہ بھی اعانت کاروں کو دینے پر مجبور تھا پھر بتدریج چورراستوں میں وسعت آنے سے باہمی چپقلش اورخلیج وسعت اختیارکرنے لگی یوں انکی سرزنش کی ضرورت بھی درپیش آتی رہی۔ایسی جدل کے وسیع مضمرات مقامی آبادیوں کو اب تک بھگتنے پڑرہے ہیں۔

مگر کالی معیشت نے اپنے ابتدائی راستوں سے نکل کر وسیع وعریض میدانوں کا رخ کیا اور ایسے عناصر جنہوں نے جہاد کا طریقہ کاربراہ راست اختیارنہیں بھی کیا تھا انہوں نے غیر مسلح معاشی جرائم کی سائنس کے نئے سنگ میل عبور کرنا شروع کردیئے۔یہ منڈی کی معیشت ہے، ہر کاروبار میں مسابقت ،مقابلہ،رقابت جیسے معاملات سراٹھاتے ہیں۔ ارتکاز دولت کی دوڑ میں بھی مقابلہ جدل کے مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔

یوں کئی لحاظ سے ’طاقت ور قوتیں‘ اپنی دولت کے پہاڑوں کے دوسرے یا تیسرے نمبر پر چلے جانے پر برہم ہیں،پھرجہاد ی دھندے بھی گراؤٹ اور کساد بازاری کاشکار ہیں۔یوں غصہ اور ضرورت کا تقاضہ ہے کہ مخالفین کو زیر کیا جائے اور کسی نا کسی طرح اوراس کالی دولت کو بھی قابوکیا جائے۔چونکہ سیاسی پراکسی کے بغیر ”گلشن کاکاروبار“ نہیں چل سکتااس لئے صفائی ستھرائی اور احتسابی عمل میں موجودہ ”سیاسی پراکسیوں“اورانکے رشتے داروں سے زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جارہی ، بس اتنا ہی ”پوز“ کیا جارہا ہے جو ’معاملات‘ کو متوازن ظاہر کرسکے،توازن کے مصنوعی تاثر میں رنگ بھرنے کیلئے ”سیاسی پراکسیوں“ کے کچھ حصوں کی پکڑدھکڑکی جاسکتی ہے۔

    جتنا بھی احتساب کا ناٹک کیا جائے مگر خود ریاست کیلئے ممکن نہیں ہے کہ ماضی کے حلیفوں اور آج کے حریفوں کو حرف غلط سمجھ کر یکسر مٹادیا جائے کیوں کہ یہ کھوٹے کھرے سکوں کا ذخیرہ جابجا ریاست کی ضرورت بنتا اور استعمال ہونا ہوتا ہے۔ کٹھ پتلیوں کے اس کھیل میں موجودہ حکمران کبھی بھی پرانے والوں کی جگہ لے سکتے ہیں اور آج کے معتوب کل کلاں اپنی’ عظمت رفتہ‘ پربحال ہوسکتے ہیں۔

        حکمران طبقے کے دھڑوں میں لڑائی تو اس نظام کے شکستہ ہونے کی دلیل ہے اوریہ امر امریکہ سے اسرائیل اور برطانیہ سے سابق کالونی پاکستان تک دیکھاجاسکتاہے۔مگر لڑائی جتنی بھی شدت اختیار کرجائے متحارب دھڑے کبھی بھی بنیادی نقص پر انگلی نہیں اٹھاتے کیونکہ ان سب پرواضع ہے کہ جس منڈی کی معیشت کے سبب وہ اکثریتی محنت کش طبقے پراقلیت ہونے کے باجود حاوی اور برترہیں اسکی خرافات،زوال پزیری،استحصال،ظلم وجبر اوراکثریتی طبقے کے خلاف جرائم کی نشاندہی‘ سب سے پہلے انکی معاشی،سیاسی اور سماجی برتری کی جعل سازی کو بے نقاب کردے گی ۔

    دوسری طرف سیاسی اشرافیہ کی تاریخی زوال پذیری اوربطور حکمران طبقہ اہلیت کی عدم موجودگی کا سب سے زیادہ فائدہ ریاست کے طاقتورادارے اٹھارہے ہیں ۔خود کوکسی بھی” معروف“ قسم کے احتسابی عمل سے ماؤرا قراردینے بلکہ ایسے سوال کو بھی ناقابل معافی جرم قراردے دیئے جانے کی وجہ سے وہ سماج کی پست شعورحامل پرتوں بالخصوص درمیانے طبقے کی یاداشت میں ”نیک نام اورقابل تکریم“پائے جاتے ہیں۔

بتدریج میڈیا پر گرفت کو مضبوط بنانے سے وہ اپنے پراپگنڈہ کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ مگر باوجودایک عارضی مرحلے (امریکی سامراج کی بجائے چینی سامراج کی تابعداری)کے‘ جس میں بظاہر پاکستانی ریاست امریکی سامراج سے روٹھی نظر آتی ہے ،اسکا بنیادی کردار سامراجی مقاصد کی آلہ کار کا ہی ہے۔سلالہ اور 2مئی کے زخموں سے خون ابھی تک رس رہا ہے ،آہ وبکا یا چیخ وپکار کوکسی قسم کی سنجیدہ لڑائی پر مخمول کرنا درست تجزیہ نہیں ہے۔

زیادہ خرچی لینے والا لاڈلہ اور بگڑا بچہ تادیب پر گستاخی بھی کرجاتا ہے مگرپھر مان بھی جاتا ہے۔ نعرہ بازی اور ’تاثرزدہ‘ خارجہ پالیسی کوئی بنیادی اختلاف پر مبنی نہیں ہے۔ لہذا ایسا ممکن نہیں ہے کہ مارکیٹ اکانومی کی معمولی کارکن قسم کی پاکستانی ریاست ازخود امریکہ جیسی دیوھیکل ملک سے دوسال پہلے والے شمالی کوریا جیسی بھی محاذآرائی کرسکے۔

ہاں پراکسی کی حد تک کچھ ممکنات ہمیشہ رہتے ہیں جوہم انتہائی اچھے تعلقات اوربظاہر کسی اختلاف سے ماؤرا ممالک کے مابین بھی دیکھ سکتے ہیں۔    بنیادی نکتہ معیشت کا ہے جو شدید زبوں حالی کاشکار ہے اور موجودہ ٹونے ٹوٹکوں سے نا بحال ہوسکتی ہے اور ناہی چل سکتی ہے۔جیسے فریال تالپور لال شہباز قلندرکے مزار پر جاکرخود کومحض نفسیاتی سہارا دینے کی کوشش کررہی ہیں ،اسی طرح غیرملکی ڈا لر اسٹیٹ بنک میں مستعار رکھنے سے کوئی بنیادی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔

عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے ڈوبتے ابھرتے جزیروں پر کھڑی پاکستانی نحیف معیشت کی بحالی بس ایک خواب ہے جس کو کنٹرولڈ میڈیا پر توکسی قسم کی اچھی تعبیر دی جاسکتی ہے مگرچند مہینوں میں منی بجٹ(ایک اورمنی بجٹ لانے کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں) ،مہنگائی کے طوفان ،بے روزگاری میں اضافہ،غربت اورپسماندگی کی گہری کھائیاں‘ حقیقت کا آشکار کرنے کیلئے کافی ہیں۔

عمران خاں کے مسلسل یوٹرن اور ’کہہ مکرنی ‘کو عظیم لیڈروں کی پہچان قراردیکر خود کو بھی اسی فہرست میں قراردینا اگر چہ ایک مذاق قراردیا جارہا ہے مگر اس کے اندر ہولناک سنجیدگی بھی پنہاں ہے۔ جب نظام اس حد تک بوسیدہ ہوچکاہو کہ کسی قسم کی ’رفوگری‘تک ممکن نارہی ہوتوپھر کسی بھی دعوے یا وعدے کی پاسداری کیسے ممکن رہ سکتی ہے ؟امید دلانا اوروعدے کرنا بھی مجبوری ہے اورپھر اس سے مکر جانے کے علاوہ بھی کوئی حل نہیں ہے۔

اس کیفیت میں انڈے مرغیوں کے علاوہ پکڑ پکڑائی،عدالتوں کے ایوانوں میں انصاف کی زنجیروں کے ساتھ کھینچاتانی ،پیشی،سماعت،فردجرم،انکاراورفیصلے،سزائیں،جیل اورپھر ضمانتیں ۔۔۔ پھر ازسرنواحتساب احتساب کا کانوں کو پھاڑدینے والا شور۔یہاں پر یہی کیا جاسکتا ہے۔
 جب کوئی نظام اپنے عہد کے تقاضے نبھانے اور سماج کو آگے بڑھادینے سے قاصر ہوجائے تو پھر ان نظام کے بادشاہوں اور پیادوں کو ”جائیں تو جائیں کہاں ؟…“ گنگنانا پڑجاتا ہے۔

اب یہ کسی بھی سمت چلیں ‘کہیں بھی نہیں پہنچ پائیں گے،محنت کش طبقے کے لئے تو روز اول سے ہی مگر اب یہ نظام اپنے اوپر فائیزحکمرانوں کیلئے بھی ناقابل استعمال اورناقابل برداشت ہوچکاہے۔یہ نا ہی اس نظام کو چلا سکتے ہیں اور ناہی بدلنے کی جراء ت کرسکتے ہیں۔یہ فریضہ محنت کش طبقے کا ہے کہ وہ اب اس نظام کو مزید برداشت کرنے سے انکارکردے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :