"مزدوروں کی ابتدائی پیش رفت"

اتوار 18 اکتوبر 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

سارا دن بورژوا میڈیا کمال ڈھٹائی سے چپ سادھے تھا۔ 14اکتوبر 2020 ء کو ملک کے طول وعرض سے ہزاروں مزدور' لاکھوں مزدوروں کے نمائندگان کے طور پر' ملک کے دارالحکومت میں جمع تھے۔ وہ حکمرانوں کے ایوانوں کا گھیراؤ کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ مزدوروں کے جمع ہونے کا عمل پچھلے دن سے جاری تھا۔ اس دورران قومی بورژوا میڈیا کی آنکھیں بند ہی رہیں۔

انکےکیمرے شرمندگی کے مارے منہ موڑے ساکت تھے۔ کوئی ٹکر نہیں چلا، کوئی بریکنگ نیوز نہیں جاری کی گئی۔مزدوروں کے فلک شگاف نعرے گونجتے رہے، مگر میڈیا ھاوسز میں  سارا دن خاموشی ہی رہی۔ کارپوریٹ میڈیا کے تربیتی نصاب کے مطابق شائید حکمران طبقے کے مسخروں کی لا یعنی جگتیں ہی اصل خبر ہوتی ہیں۔    پاکستان بھر کے مزدور چھانٹیوں،نج کاری، کالے قوانین، مزدور انجمنوں  کی راہ میں قدغنوں، مہنگائی میں مسلسل اضافے،  نیو لبرل معیشت کے حملوں، اجرتوں میں مہنگائی کے تناسب سے عدم اضافے، اسکیلز،پروموشن قوانین پر عدم عمل درآمد،پاکستان اسٹیل سمیت بہت سے پبلک سیکٹرز اداروں کی مجوزہ بندش اور مزدوروں کی جبری برطرفیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

(جاری ہے)

یہ احتجاج ارب پتی اور مزدور دشمن میڈیا مالکان کیلئے بھی اتنا تکلیف دہ ہے جتنا حکمرانوں اور دیگر سرمایہ داروں کیلئے ہے۔
مگر نکلے سورج کو آخر کتنی دیر تک نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ آخر حامد میر کو سوشل میڈیا پر اعترافی جملہ لکھنا پڑا کہ ‏"پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر آج لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ینگ ڈاکٹرز سے لیکر کلر کوں اور مزدوروں تک ہزاروں مردوخواتین نے دھرنا دیا اور سارا دن حکومت کے خلاف نعرے بازی کی جسے دیکھ کر ایسا لگا کہ عوام آگے نکل گئے اور اپوزیشن پیچھے رہ گئی ۔

یہ کافی حد تک مزدوروں کے اس عزم جرآت اور حوصلے کا اعتراف ہے جس کا ملک کی سیاسی پارٹیوں اور قیادت میں فقدان ہے"۔
ہزاروں  مزدوروں کا یہ اجتماع انہی مسائل کے حل کے لئے ہے' جن مسائل کا ادراک انہیں ہر ہر لمحے رہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ انہوں نے اب کڑھنے اور بے بسی پر مبنی بیان بازی کی بجائے جدوجھد کے میدان میں عملی پیش رفت کرکے دکھائی ہے۔

یہ بالکل آغاز ہے اور یہ تحریک کئی مراحل  سے گزرے گی۔ مانگوں،احتجاج،مذاکرات،ناکامی اور کامیابیوں کے عمل میں بہت تجربات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سکھ اور فتح کے حصول کی کشمکش میں قربانیاں بھی دینا ہونگی اور دھوکوں،فریب،غداریوں اور پیٹھ پیچھے وار کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ حملے باہر سے بھی ہونگے مگر اندر سے بھی ہوسکتے ہیں، ان کو آنکھیں کھول کر رکھنا ہونگی۔

جدوجھد کے دوران غلطیاں بھی ہونگی اور جدوجھد  سے باہر تماش بینوں کی تنقید اور ہدائت کاری کے اوچھے وار بھی سہنے ہونگے ۔
ریاستی حملوں میں شدت بھی آسکتی ہے مگر ہر حملہ مزدوروں اور انکی قیادتوں کو "سونے سے کندن" بنانے کا باعث بنے گا۔ عروج وزوال، ناکامی اور کامیابیاں، حتہ کہ کامیابیوں کے بعد پسپائیوں کا تحریکوں کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

تاریخوں کی تاریخ اس قسم کے متنوع مراحل کی گواہ ہے۔
 کسی تحریک کے نکتہ آغاز میں ہی  حتمی نتائج کی آرزو رکھنا' رومانیت سے لبریز خیال پرستانہ خواہش تو ہوسکتی ہے مگر حقائق کو منجمد معروض کی تہوں میں جانچنا ضروری ہے۔ مزدور کئی دھائیوں سے بڑی تحریکوں سے کٹ کر حالات سے سمجھوتوں کا عادی ہوچکا تھا۔ برف کی پہلی تہیں پگھلی ہیں۔  تحریک کی حدت اور حصوں کو بھی ملانے کا باعث بنے گی۔

ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے۔ قیادتوں کو نیچے سے دباؤ کا سامنا ہے، مذاکراتی عمل کی بھی حدیں ہوتی ہیں۔ اب لولی پوپ سے مزدور بہلنے والے نہیں ہیں۔
 کروڑوں مزدوروں تک پیغام پہنچانے اور لاکھوں کے تحرک کو ممکن بنانا ایک مسلسل عمل سے ہی حاصل ہوگا۔ عمومی اور محدود احتجاج کا چھوٹا موٹا عمل اپنے اس آغاز میں ہی جتنا مقداری اور معیاری بلندی پر پہنچ گیا ہے، آنے والے عرصے میں بغیر بڑی تاخیر سے محنت کش طبقے کی پچھلی اور سست رو پرتوں کو متوجہ کرکے شامل کرنے کا باعث بنے گا۔

  مگر دھائیوں کے بعد متحرک ہونے والی پرتیں اب اور زیادہ لمبا وقت نہیں لیں گی، اب  حالات کا چابک اور سامراجی اقدامات کی ضربیں انہیں سونے نہیں دیں گی۔ مگر پھر بھی فیصلہ کن کردار معروض کا ہی ہوگا۔ دوسری طرف لفظی گولہ باری کی بجائے ہر اس گروہ،فرقے،یا افراد کو عمل کے میدان میں آکر وہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کو وہ طولانی خطابوں میں ناگزیر قرار دیتے آئے ہیں یعنی محنت کش طبقے کے پاؤں کے پنجے سے اپنی ایڑی ملا کر چلا جائے۔

عام ہڑتال ایک مسلسل عمل کے حتمی نتیجے کا نام ہے۔ جس کے لئے کارخانوں،اداروں اور محنت کشوں کی تمام پرتوں کو سیاسی طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ عجلت پسند عام ھڑتال کے نعرے کو اسکے مکمل عمل کے بغیر ہی نافذ کرانا چاہتے ہیں، گویا جیسے پورے ملک میں چھوٹی بڑی ہڑتالوں کے سلسلے ایک عرصے سے جاری ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مزدوروں کے نظریاتی دشمنوں نے انکو عملی جدوجھد کی بجائے عدالتی کاروائیوں میں مصروف کرکے کند کردیا تھا۔

صنعتی مزدور ایک لمبے عرصے سے جدوجھد کے میدان سے باھر ہے۔ محنت کش طبقے کے جمود کے باعث بلدیہ ٹاون جیسا منظم قتل عام ممکن ہوسکا۔
 اکا دکا اور ایک دوسرے سے لاتعلق احتجاج اور دھرنے' محنت کش طبقے کی باقی پرتوں سے وہ رشتہ قائم نہیں کرپاتے جس کی عام ہڑتال سےقبل ضرورت ہوتی ہے۔
اسلام آباد دھرنے نے مختلف محکموں،اداروں،ٹریڈز،فیکٹریوں کے ایسے ہزاروں مزدوروں کو باہم آشنا کرایا ہے جو مختلف صوبوں،زبانوں،خطوں،قوموں،فرقوں اور نسلوں سے تھے۔

بہت عرصے کے بعد ان مزدوروں نے  باھم مل کر نعرے لگائے اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر لڑنے کا عزم کیا ہے۔ وہ ایک آواز میں  گیت گا رہے تھے۔ وہ اس پرولتاری سوشلائیزیشن سے متعارف ہورہے ہیں، جس سے ایک مزدور' خود کو ایک فرد کی بجائے طبقہ سمجھنا شروع ہوجاتا ہے۔ مزدوروں کی بیشتر مانگیں انکے روزمرّہ کے معاملات سے شروع ہورہی ہیں، بڑی مانگیں بھی ہیں۔

ابھی بہت سے حملوں' بطور خاص سامراجی ہدایات پر مزدوروں پر حملوں اور انکے تدارک پر مبنی مطالبات کی ماھیت سے آگہی کا عمل بھی چلنا ہے۔ مزدور مقامی نعروں سے آگے بڑھ چکے ہیں، وہ اب عالمی سامراجی ادارے آئی ایم ایف کے ملکی معیشت پر حملوں  اور مزدور دشمن حملوں پر مبنی مطالبات کے سامنے سینہ تان چکے ہیں۔اگلے مراحل میں تحریک میں شامل قیادتوں کو بنظر غائیر اوجھل نظریاتی حملوں   کو سمجھنا پڑے گا۔

  اس سمجھنے کے عمل میں  اختلافات بھی جنم لے سکتے ہیں  اور اتفاق رائے کیلئے مباحثے بھی ہونگے۔اس دوران احتجاجی تحریک مختلف طریقوں سے جاری رہے گی۔ ریاست اتنی سادہ بھی نہ ہے اور ہی اتنی فیاض کہ وہ مزدوروں کے مطالبات کو مان لے۔ انکا نظام اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ سامراجی جھکڑبندیوں اور معاشی مشکلات کی اس کیفیت میں آ سانی سے ہتھیار ڈال دے۔

ان مطالبات اور مذاکرات کے ساتھ ساتھ جدوجھد کو وسیع پرتوں تک پھیلانے کی تیاری کو تیز کرنا ہوگا۔ ہر میدان میں لڑنا پڑے گا تو پھر وہ مراحل بالکل سامنے ہونگے کہ عام ہڑتال کا سوچا جائے۔ پھر اسکے بعد کیا ہوگا اور کیا کرنا ہے ! یہ اہم پہلو کسی "عام ہڑتال" کی کال کے شوق میں محو نہیں کئے جاسکتے، انکے لئے بھی تیار ہونے کی ضرورت ہے۔ ابھی سمجھنے والی یہی بات ہے کہ ایک لمبے عرصے کے بعد مزدوروں نے ایک عاجزانہ مگر پورے استقلال اور جرآت سے پیش رفت کا آغاز کیا ہے۔ یہ شروعات ہیں۔ جدوجھد شروع ہوئی ہے، بات ختم نہیں ہوئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :