ترسیلاتِ زر میں اضافہ توازنِ ادائیگی میں بہتری کا ضامن

جمعہ 13 ستمبر 2019

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

پاکستان کی معیشت میں ترسیلاتِ زر کا کردار ہمیشہ سے بہت اہم رہا ہے۔ ہر سال کثیر تعداد میں پاکستانی بیرونی ملکوں سے رقوم بھیجتے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی قانونی ذرائع سے ہر سال جو پیسے بھیجتے ہیں اس پیسے سے کاروبار اور معاشی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔ عالمی بینک کی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں بیرونِ ملک سے اپنے ملک پیسے بھیجنے والے پہلے دس ممالک میں پاکستان کا ساتواں نمبر ہے۔

ہمارے ملک کی معیشت کو بہت حد تک سہارا ان ہی رقوم سے ملتا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق ہم وطنوں کی ترسیلاتِ زر جو 2008ء 6.45 بلین ڈالر تھیں دس برسوں میں بڑھ کر یعنی 2018ء میں 19.6 بلین ڈالر ہو گئیں۔ جب کہ اسی دورانیے میں برآمدات میں اضافہ 19 ارب ڈالر سے صرف 23 ارب ڈالر ہو سکا۔

(جاری ہے)

انسانی وسائل ایسا عنصر رہا جس نے اقتصادی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

یعنی پاکستان میں ترسیلاتِ زر کی صورت حال برآمدات کی غیر یقینی صورت حال اور عالمی مالیاتی بحران کے باوجود بڑھتی رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق بیرونِ ملک پاکستانیوں نے گزشتہ مالی سال 2018-19ء میں 21.8 ارب ڈالر کی ریکارڈ رقوم ترسیل کیں جو گزشتہ مالی سال 2017-18ء کے 19.9 ارب ڈالر کے مقابلے میں 9.7 فیصد زیادہ تھیں۔ اسی طرح جولائی 18 سے اپریل 19 کے دس ماہ کے عرصہ میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر 17.8 بلین ڈالر تھیں جو کہ گزشتہ اسی عرصہ کے 16.5 ارب ڈالر سے 8.45فیصد زیادہ ہیں۔


حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک نے ایسے افراد کو اپنے ملک امپورٹ کر کے کوئی احسان نہیں کیا چونکہ ایک تو ان کے ہاں نوجوانوں کی قلت ہے دوسرا لیبر بھی بہت مہنگی ہے جس سے ان کی کاسٹ آف پروڈکشن میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ ان ترقی پزیر ممالک سے انہیں ایسے سستے ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز مل جاتے ہیں جن کی محنت اور اہلیت کے سبب نہ صرف پیداواری اخراجات میں کمی آئی ہے بلکہ پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

مزید یہ کہ ان کو نئے عملے کی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے بکھیڑے میں پڑنا نہیں پڑتا اور اس مد میں اخراجات سے بھی وہ بچ جاتے ہیں۔ مزدوروں کی قلت سے دوچار ممالک اقتصادی گردش کے اتار چڑھاوٴ کے شکار تو ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کی معیشت ترقی کرتی رہتی ہے، وہ جمود کا شکار نہیں ہوتی۔ پاکستان کو قدرت نے بے بہا وسائل اور بہت زیادہ افرادی قوت سے نوازا ہے مگر یہاں مسئلہ مالی وسائل کی قلت کا ہے، بے روزگاری کی سطح بلند ہے، اسی لئے کہ اضافی افرادی قوت کے لئے روزگار ہی دستیاب نہیں ہے۔

ہماری لیبر ان ملکوں کے کام آجاتی ہے اور ہمیں اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لئے فارن کرنسی میسر ہو جاتی ہے، اس سے ہمیں توازنِ ادائیگی میں تو بہت مدد ملتی ہے، لیکن ترسیلاتِ زر کے حوالے سے ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات افراطِ زر میں اضافہ کا موجب ہوتی ہیں کیونکہ ان سے ملک میں موجود اشیاء میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ موجود اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس سے غریبوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جیسے ہمارے ہاں زیادہ تر باہر سے آنے والی ترسیلات سے پراپرٹیز خریدی جاتی ہیں جس سے یہاں پلاٹس کے ریٹ بہت بڑھ گئے ہیں۔ قانونی طریقوں سے ترسیلاتِ زر کے فروغ کے لئے صارفین سے تعلقات مستحکم کرنے اور عوام الناس کو ترسیلاتِ زر کے لئے زیادہ سے زیادہ فوائد پہنچانے کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، منسٹری آف اوورسیز پاکستانیز اور وزارتِ خزانہ نے ایک مشترکہ ادارہ پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو بنایا ہے ۔

اس سے بیرونِ ملک تارکین اپنے گھر اپنی ترسیلات بلا معاوضہ بھجوا سکتے ہیں۔ اس کا ایک یہ بھی مقصد ہے کہ ہنڈی کے ذریعے رقوم بھجوانے کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ حوالہ، ہنڈی غیر قانونی ہے۔ یہ ادارہ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ملک میں ترسیلاتِ زر کے لئے عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے لئے دن رات کام کر رہا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے وطنِ عزیز میں مقیم اپنے اہلِ خانہ کو رقوم بھیجنے میں سہولتوں کی فراہمی سمیت پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری کی با مقصد ترغیب دینے سے اچھے نتائج کی توقع ایک منطقی بات ہے، خصوصاً ان حالات میں جب قومی معیشت تاریخ کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔

برآمدات کم اور درآمدات میں کئی گنا اضافہ ہونے سے ادائیگیوں کا توازن بری طرح متاثر ہوا ہے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ رہی سہی کسر ڈالر کی قیمت میں اضافے نے پوری کر دی ہے۔ ان حالات میں سمندر پار سے ترسیلاتِ زر کی صورت میں ہونے والا اضافہ روشنی کی ایک کرن ہے۔ حالیہ دنوں میں گردشی قرضوں میں 6 ارب ڈالر کی کمی بھی معیشت کی بہتری میں معاون ثابت ہو گی۔

یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ ضروی ہے کہ پاکستان سے کرنسی کی سمگلنگ روکنے کے خاطر خواہ اقدامات کئے جائیں۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ روزانہ غیر قانونی طریقے سے لاکھوں ڈالر مالیت کی غیر ملکی کرنسی اسمگل ہوتی ہے جس کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ قانون نافظ کرنے والے متعلقہ اداروں خصوصاً سرحدوں پر تعینات ایجنسیوں کو مزید اقدامات کرنے چاہئے۔

دوسرا یہ کہ ملکی معیشت اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی اور نہ ہی مضبوط ہو سکتی ہے جب تک ملک میں پیداواری شعبہ مضبوط نہ کیا جائے اور ملک کی برآمدات نہ بڑھائی جائیں اور درآمدات کو کم کیا جائے۔ ملک کی برآمدات بڑھانے میں سب سے اہم شعبہ پیداوار کا ہے اور ہمیں اپنے روایتی اور غیر روایتی دونوں شعبوں کو فوکس کر کے اس کی پیداوار بڑھانے میں اپنا کرادر ادا کرنا ہو گا۔ ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ پاکستان کے تجارتی خسارے کے لئے ناگزیر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :