پولیس کو حاصل لامحدود اختیارات اور بے چارے عوام

بدھ 19 اگست 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

محکمہ پولیس کے شہداء کی قربانیوں کے اعتراف کے طور پر منائے جانے والے دن لاہور کے ایک تھانے کے ایس ایچ او نے اپنے نجی عقوبت خانے میں ایک نوجوان کو تشدد کر کے مردانہ صفات سے محروم کر دیا۔ لاہور شہر جہاں صوبے کا گورنر، وزیرِ اعلیٰ، چیف سیکریٹری، انسپیکٹر جنرل پولیس اور وزیرِ داخلہ رہتے ہوں وہاں جب پولیس کے اہلکاروں کا یہ حال ہے تو دوسرے علاقوں میں کیا ہو رہا ہو گااس کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے۔

اپنی طاقت اور اختیارات کا عوام پر بے جا استعمال پولیس کی عادت بن گئی ہے۔ پولیس کی زیادتیوں، بربریت اور عوام پر مظالم کے خلاف ہمیشہ سول سوسائٹی کی جانب سے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ دیگر سرکاری محکموں کی نسبت محکمہ پولیس بہت زیادہ غیر مقبول ہے۔

(جاری ہے)

امن و امان کو برقرار رکھنا، قانون پر عملدرآمد اور عوام میں فرض شناسی پیدا ہو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ کام ریاست محکمہ پولیس کے ذریعے سر انجام دیتی ہے۔

لیکن بد قسمتی سے حکومتیں اور پولیس سربراہان تو بدلتے رہے لیکن تھانہ کلچر نہ بدل سکا۔ اس کے ذمہ دار حکمران، سیاست دان اور سفارشی طور پر تعینات پولیس افسران بھی ہیں جو میرٹ کے برعکس اپنی تعیناتی حکمران طبقہ اور سیاستدانوں کی سفارش پر کرواتے ہیں۔ پھر اپنے انہی مربیوں کے احکامات کی تعمیل اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں۔ آج جو ہماری پولیس کا حال ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پولیس کے طور طریقوں کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے بلکہ دیکھا یہ گیا ہے سیاسی لوگ پولیس کو اپنے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

آج جو اپوزیشن میں بیٹھ کر پولیس کی کارکردگی کو ملامت کا نشانہ بناتے ہیں کل برسرِ اقتدار آنے کے بعد اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران جماعت اور حذبِ اختلاف دونوں مل کر سنجیدگی کے ساتھ محکمہ پولیس میں بہتری کی طرف توجہ دیں، پولیس کے عملے کے مسائل سلجھائیں اور اس پر پڑنے والے مختلف دباوٴ کم کریں۔ تبھی یہ محکمہ عوام کی خاطر خواہ خدمت اور ان کے جان و مال کی حفاظت کا کام انجام دے سکے گا۔


ہمارے ہاں پولیس مجرموں کی سرکوبی یا شر پسند عناصر کی کاروائیوں کی روک تھام کے بجائے عام شہریوں کو پریشان کرنے پر زیادہ یقین رکھتی ہے، آج چور، اچکے، بدمعاش اور سماج دشمن عناصر پولیس سے نہیں گھبراتے، شریف لوگ اور پر امن شہری اس سے زیادہ خوف کھاتے ہیں کیونکہ آئے دن وہی پولیس کے ظلم و زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ اس کے برعکس مجرمانہ وارداتیں نہ ہوں یا ہوں تو ان میں ملوث افراد کو فوراً پکڑ لیا جائے، عوام کی جان و مال محفوظ رہیں، جرائم پیشہ کا ناطقہ بند کر دیا جائے اس پر پولیس کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے تبھی تو ملک میں جرائم کا گراف دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔

آئے دن قتل غارت جیسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، راہ چلتے لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے، عوام کی عزت و آبرو سے کھیلا جاتا ہے اور پولیس سوتی رہتی ہے یا پھر اس طرح کی وارداتوں پر قابو پانے کی بجائے ان کو چھپانے کی کوشش ہوتی ہے یا پھر واردات کی سنگین نوعیت کو کم کرنے کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت کرنے اپنے علاقہ کے تھانے میں جاتا ہے تو اول اسے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

تھانے کا محرر جس کا کام ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرے وہ ایس ایچ او کے حکم کا منتظر ہوتا ہے اور اسٹیشن انچارج کی صوابدید پر ہے کہ وہ جس شکایت کو چاہے درج کرائے یا شکایت کنندہ کو بھگا دے حالانکہ ضابطہ کے مطابق ہر شکایت کا اندراج ضروری ہے جب شکایت درج نہیں ہو گی تو اس کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں رہے گا اور پولیس اس وقت جوابدہ ہو گی جب کہ شکایت درج کی گئی ہو مگرہمارے ملک کے پولیس اسٹیشنوں میں کوشش کی جاتی ہے کہ کم سے کم شکایات درج ہوں تا کہ پولیس جوابدہی سے محفوظ رہے اور اعداد و شمار بھی کم سے کم کر کے دکھائے جا سکیں۔


ایف آئی آر یعنی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ شہریوں کے بنیادی اور آئینی حقوق کے حصول، دفاع، تحفظ اور ملک کی جرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کیا جانے والا وہ خاص پاور ہے جو شہریوں کا حق بھی ہے اور بوقتِ ضرورت اس کا استعمال ضروری بھی ہے لیکن چونکہ عام طور پر ہمارا ذہن پولیس سے پیشگی مرعوب اور قانونی کاروائیوں سے خائف ہوتا ہے اس لئے ہم اپنے ان حقوق کا کم ہی استعمال کر پاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات تو ہم اپنے ان حقوق کا استعمال نہ کر کے خود اپنے اوپر اور دوسرے شہریوں پر ظلم بھی کر رہے ہوتے ہیں۔

قانونی نقطہ نظر سے کسی چیز کی گمشدگی، چوری چکاری، ڈاکہ زنی، لوٹ کھسوٹ، حادثے اور دیگر جرائم وغیرہ کی رپورٹ درج کروائی جانی چاہئے تا کہ جہاں شہریوں کو ان کو شہری حقوق ملیں، وہیں ملک میں انارکی نہ پھیلنے پائے بلکہ قانون کی بالا دستی قائم رہے۔ ایف آئی آر کا درج ہونا اس لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ ملک میں جرائم کی شرح کا پتہ رہے اسی سے معلوم ہو گا کہ ملک میں کتنے جرائم ہو رہے ہیں اور ان میں کمی لانے کے لئے کیا اقدامات کئے جانے چاہئیں۔

ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ جہاں عوام قانونی کاروائیوں سے بچنا چاہتے ہیں وہیں حکومت بھی ایسی کاروائیوں پر خوش نہیں ہوتی کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ شرح جرائم کم سے کم ریکارڈ میں آئیں تا کہ اس کی شبیہ متاثر نہ ہو۔ اس حوالے سے آن لائن ایف آئی آر ان تمام مسائل میں کمی لا سکتی ہے۔ آن لائن ایف آئی آر کے ذریعے کوئی بھی گھر بیٹھے ہی سفارش، رشوت اور کسی کی منت سماجت کئے بغیر موبائل اور انٹر نیٹ کی مدد سے بڑی آسانی کے ساتھ کسی بھی حادثے کی ایف آئی آر درج کروا سکتا ہے۔

اس طرح حکامِ ِ بالاکے لئے معاملات پر نظر رکھنے میں آسانی ہونے کے ساتھ ساتھ عوام بھی دھکے کھانے سے بچ جائیں گے۔ آن لائن ایف آئی آرنسبتاً آسان،نتائج کی حامل ، اس سے وقت بچتا بھی ہے اور انرجی بھی۔ یہ طریقہ ملک میں جرائم کی شرح میں کمی کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک میں امن و امان کے لئے پولیس کی قربانیاں بہت زیادہ ہیں۔

لیکن پولیس بد عنوانیوں، عوام پر زیادتیوں اور فرائض سے تغافل جیسی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ ہمارے ہاں پولیس اصلاحات کا مطالبہ بہت پرانا ہے، پولیس کو جو لا محدود اختیارات حاصل ہیں انہیں کم کرنے یا احتیاط سے استعمال کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے خیبر پی کے میں کام ہوا ہے اور وہاں کی پولیس میں بہت بہتری آئی ہے لیکن پنجاب اور دوسرے صوبوں میں ابھی وہی صورتحال ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :