مذاکرات کا اگلا دور اور نئے چیلنجز

پیر 24 اگست 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

رواں سال فروی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے مطابق امن عمل کے دوسرے مرحلے کے شروع ہونے سے پہلے افغان حکومت طالبان کے 5000 قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔ قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل ہونے پر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مزاکرات کے اگلے دور کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد وجوہات کی بناء پر یہ عمل سست روی سے آگے بڑھا۔

اب افغان لویہ جرگہ کے 400قیدیوں کو رہا کئے جانے کے ا علان کے بعد طالبان نے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے ایک ہفتے کے اندر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ ادھر امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ چند روز میں قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونے کے بعد مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

اب لگتا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لئے سب سے اہم اور پیچیدہ مرحلے کا عنقریب آغاز ہونے والا ہے۔

طالبان نے تحریک کے بانی ملا عمر کے بیٹے کو فوجی ونگ کا انچارج بنا دیا ہے اور ان کی مذاکراتی ٹیم میں متعدد طاقتور شخصیات کو شامل کیا ہے۔ ایک نئے متحدہ ملٹری ونگ کے سربراہ کی حیثیت سے 30 سالہ ملا محمد یقوب اپنے والد ملا محمد عمر کی طرح زبردست سمجھوتہ نہ کرنے والی ساکھ کو میدانِ جنگ کا حصہ بناتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی افغان سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے لئے خوش خبری ثابت ہو سکتی ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ فروری میں امریکہ سے ہونے والے معاہدے کے دوسرے اور سب سے اہم مرحلے کو طالبان کس حد تک سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

اس مضبوط طالبان وفد کی نشاندہی اس علامت کے طور پر کی جا سکتی ہے کہ یہ گروپ سنجیدہ مذاکرات میں شریک ہونے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ تاہم یہ مزاکرات کہاں یا کس ملک میں ہوں گے یہ اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا ہے۔ خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان پہلی ملاقات دوحہ میں ہو گی۔ تاہم مزاکرات کا دوسرا مرحلہ کس ملک میں ہو گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے علاوہ جرمنی، ناروے اور کئی دیگر ممالک پہلے ہی دن سے اس کوشش میں ہیں کہ بین الافغان مذاکرات ان کی سر زمین پر منعقد ہوں۔ ان میں سے کئی ممالک افغانستان کے ہمسایہ ہونے کے ناطے اور کئی افغانستان کی تعمیرِ نوع میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے ان مذاکرات کی میزبانی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن طالبان اور افغان حکومت دونوں کے مطابق ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ یہ مذاکرات کہاں ہوں گے۔

جہاں تک قطر کا تعلق ہے جس نے لگ بھگ دو سال امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی اور 2013ء سے طالبان مذاکراتی ٹیم کی میزبانی کر رہا ہے کی سب سے زیادہ خواہش ہے کہ افغان امن عمل کے پہلے مرحلے کی طرح دوسرے مرحلے کے مذاکرات بھی دوحہ ہی میں ہوں۔ طالبان کی بھی یہی خواہش ہے لیکن افغان حکومت قطر میں مذاکرات کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔

اس کی ایک وجہ ماضی میں طالبان اور افغان وفود کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں قطر حکومت پر طالبان کی حمایت کا الزام بھی ہو سکتا ہے۔
افغانستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق افغان امن عمل کا یہ دوسرا مرحلہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہو گا کیونکہ اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو افغانستان میں امن قائم ہو گا خدانخواستہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں دنیا امن کے حوالے سے بہت بڑے خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔

اس لئے اب تمام فریقین کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، اب کسی بھی ہٹ دھرمی کی گنجائش نہیں ہے اور ایک دوسرے کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے مذاکرات کو آگے بڑھانا ہو گا۔ مذکرات کو کامیاب بنانے کے لئے فریقین کو لچک دکھانی ہو گی اور مل کر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے عندیہ اور مذاکرات پر آمادگی کے باوجود افغان حکومت، طالبان اور دیگر فریقین کے مابین بہت سے اختلافات ہیں۔

جن میں سب سے بڑا اختلاف افغان حکومت اپنے آپ کو آئینی اور جمہوری حکومت تصور کرتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ طالبان کو اسی دھارے میں شامل ہونا چاہئے جب کہ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کی امارتِ اسلامی ہی حکومت کی اصل حقدار ہے اور موجودہ سیاسی نظام میں شامل لوگوں کو ان کی امارت میں شامل ہونا چاہئے۔ طالبان نے افغان حکومت اور امریکہ پر دباوٴ قائم رکھنے کے لئے گزشتہ روز کہا ہے کہ متوقع بین الافغان مذاکرات کے دوران جامع جنگ بندی پر بات چیت ہو گی تاہم افغان حکام سے مذاکرات کے آغاز پر تشدد میں کمی نہیں ہو سکتی۔

بیلجیم کے انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان افغانستان کے آئین، سیاسی نظام، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق یا تو ابہام کا شکار ہیں یا وہ غیر واضح ہیں۔ وہ آئین کو غیر اسلامی اور امریکی قبضے کی علامت قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت جو کہ چائنہ کو آنکھیں دکھانے کی وجہ سے امریکہ کا منظورِ نظر ہے اور اسے افغانستان کے موجودہ سیٹ اپ میں کچھ نہیں ملنے والا ہے اس لئے امریکہ جہاں ابھی بھی بہت بڑی لابی ان مذکرات کے حق میں نہیں ہے جو چاہتی ہے کہ طالبان کی شرائط پر مزکرات نہیں کرنے چاہئیں، وہ کسی وقت بھی غیر متوقع صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔


عام تاثر کے برعکس افغانستان ایک کثیر القومی ملک ہے۔ افغانستان پر حاوی کالے دھن پر مبنی مافیا سرمایہ داری اور سامراجی مداخلتیں افغانستان میں عوام کو طبقات کی بجائے قومیتوں میں بانٹ کر اپنے مذموم مفادات حاصل کر رہی ہیں۔ عومی تاثر کے برعکس تمام عسکریت پسند طالبان نہیں ہیں اور نہ ہی طالبان بذاتِ خود کوئی ایک اکائی ہیں۔ اس میں بے شمار چھوٹے بڑے گروہ اور جنگجو سردار ہیں جو اپنے اپنے مفادات کے لئے اکٹھے ہیں۔

ان میں بعض گروپ سعودی عرب، قطر، ایران، بھارت، چین اور امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی افغان حکومت کے پے رول پر بھی ہیں۔ ان حالات میں چین کو مذاکرت میں کردار ادا کرنے کا کہا جائے تو یہ بات بہت خوش آئند ہو سکتی ہے کیونکہ ایک تو چین اسی خطے کا ایک ملک ہے اور وہ اپنے وسائل اور ٹیکنالوجی کے ذریعے جنگ زدہ افغانستان کی تعمیرِ نو میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے دوسرا طالبان بھی اس سے کوئی زیادہ مخاصمت نہیں رکھتے ہیں۔

وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایران کی طرز پر چین افغانستان سے معاہدے کر کے وہاں کے حالات کو بہتر کر سکتا ہے۔ پاکستان کے لئے اس میں بڑا فائدہ ہے کہ اس طرح افغانستان میں بھارت کا اثر رسوخ بالکل ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے اندر طالبان اور افغان حکومت میں مفاہمت، علاقائی سطح پر پاکستان، چین اور ایران کی جانب سے افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کی ضمانت پر مبنی ہونا چاہئے، اگر اس میں روس کو بھی شامل کر لیا جائے تو صورتحال مزید بہتر ہو سکتی ہے۔ اس طرح خدشات اور وسوسے دور ہوں گے۔ افغانستان میں قیامِ امن کی راہ ہموار ہو گی اور غیر ملکی فوجوں کو وہاں سے باہر نکلنے کا راستہ ملے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :