بارشیں کراچی کے شہریوں کی بے بسی اور مجبوریوں پر فریاد کن

منگل 8 ستمبر 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

کراچی غیر سرکاری طور پر ساڑھے تین کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ شہر سمندر کے کنارے صدیوں سے آباد ہے۔ اس عظیم شہر کے اصلی باسی لیاری کے باشندے ہیں۔ جنہوں نے صدیوں پہلے سمندر کے کنارے جھونپڑیاں ڈال کر " مائی کلاچی" کے نام سے ایک بستی کی بنیاد رکھی تھی، یہ لوگ سمندر سے کھیلتے تھے اور پھر یہی کھیل ان کا روزگار بن گیا۔ کلاچی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کراچی بن گیا۔

قیامِ پاکستان کے موقع پر کراچی کو دارلحکومت بنا دیا گیا، یوں ہندوستان سے مسلمان سرکاری افسران اور ملازمین ہزاروں کی تعداد میں نئے دارالخلافہ میں آباد ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کے عزیز رشتہ دار بھی اس شہر میں چلے آئے، یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

کم و بیش تمام تجزیہ کار اور دانشور منی پاکستان میں سیاسی بحران، سماجی انحطاط اور زوال پزیری کا حوالہ دیتے ہوئے 50ء اور 60ء کی دہائیوں کی نسبتاً بہتر سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورتحال کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔

ان کے نزدیک ماضی کا کراچی بندہ پرور تھا جب کہ آج کا منی پاکستان مسائل کا شکار اور بدامنی کا استعارہ ہے۔ آج اور اس وقت میں صرف اتنا فرق ہے کہ پچھلے حکمران اور نوکر شاہی کرپٹ نہیں تھی، انہیں قومی سلامتی، وطن سے محبت اور کراچی و ملک کے دیگر شہروں اور دیہات کی ترقی اور خوشحالی سے ایک خاص دلچسپی تھی۔ کراچی میں سیاسی روا داری کی دولت فراواں تھی اور یہ سارے اہلِ وطن کے روزگار کا مرکز بن گیا۔

یہاں صنعتی ترقی ہوئی، روزگار کے وسیع مواقع ملے، جبھی تو مچھیروں کی بستی مائی کلاچی دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ایک عالی شان میگا سٹی کا روپ دھارتا چلا گیا۔
آج سیاسی اور انتظامی نہ اہلی نے کراچی کے مسائل میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے اور کراچی خوف و دہشت، فقہی، لاسانی، رنگ و نسل کی نفرتوں کا شہر بن گیا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ماضی کی روشنیوں کا شہر تاریکیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری شہر کی بربادی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ یہاں پورے ملک سے لوگ روزگار کے لئے آ کر آباد ہوتے رہے۔ دنیا کے ہر بڑے صنعتی شہر میں پسماندہ علاقوں سے بے روزگاروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن اگر حکمران طبقے ملک و قوم کے بہی خواہ اور عوام کے ہمدرد ہوتے ہیں تو پسماندہ علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف نقل مکانی کے حساس کام کو پوری منصوبہ بندی اور مٴوثر حکمتِ عملی کے ساتھ انجام دیتے ہیں باہر سے آنے والوں کی تعداد پر نظر رکھتے ہیں۔

ان کے کردار، ان کے پیشوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے روزگار، ان کی رہائش، ان کی بنیادی ضروریات کا انتظام کرتے اورا س بات کا خاص طور پر خیال رکھتے کے حصولِ روزگار کے نام پر جرائم پیشہ افراد اور گروہ شہروں کا رخ نہ کریں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کسی حکمران نے ان احتیاطوں کا بھی خیال نہیں کیا ہمیشہ صرف اور صرف اپنے سیاسی مفادات کو پیشِ نظر رکھا۔

حکمرانوں نے کراچی سب کا ہے کا نعرہ لگایا گیا اور پہلے سے لسانی تضادات کا یہ شہر لسانی سیاست کا مرکز بن گیا۔ کراچی سب کا ہے کے نعرے نے جہاں پسماندہ علاقوں کے بیروزگار عوام کو حصولِ روزگار کے لئے کراچی آنے کی راہ دکھائی وہیں اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے صوبوں کے جرائم پیشہ افراد اور گروہ بھی یہاں کا رخ کرنے لگے ۔ جن کا مقصد حصولِ روزگار نہ تھا بلکہ کراچی پر قبضہ تھا۔


کراچی سب کا کے نام پر کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا، لینڈ و کچی آبادی مافیا، ڈرگ مافیا، پارکنگ مافیا، بھیک اور تجاوزات مافیا منظم و متحرک ہوتا گیا۔ ڈاکووٴں، بھتہ گیروں، اغواکاروں، ذخیرہ اندوزوں کا راج ہوتا گیا۔ حق حلال کے کاروبار کے مواقع رفتہ رفتہ کم ہوتے گئے۔ جدھر نظر دوڑائی جائے کراچی میں پرائیویٹ سیکورٹی کے پہرے ہیں۔ پولیس اہلکار شدید دباوٴ کا شکار ہیں، جس سے محکمہ پولیس کی کارکردگی ناقص ہے۔

جب ایک شہری ادارہ پانی کی کمی کا رونا رو کر پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم کر دیتا ہے تو ٹینکر مافیا کے پاس اتنی وافر مقدار میں پانی کہاں سے اور کس طرح آ جاتا ہے، وہ سڑکوں پر دندناتے پھرتے اور گلی گلی منہ مانگے داموں پانی فروخت کرتے ہیں۔ شہر سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہو گئی ہے اورشہر کو چنگ چی زدہ کر دیا ہے۔ لینڈ مافیا کے قبضے، گھپلے اور راتوں رات کچی آبادیاں متعلقہ محکموں اورا ربابِ اختیار کی نظروں سے کیوں اوجھل رہتی ہیں۔

منظم پیشہ ور سیاسی اور غیر سیاسی گروہ اور سماج دشمن عناصر کی کارستانیوں کے تدارک کے لئے حکومت یا سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس جامع حکمتِ عملی کا ایجنڈا کیوں نہیں ہے؟ کراچی کے شہری انویسٹمنٹ کمپنیوں کے ہاتھوں بھی لٹے اور رئیل اسٹیٹ اسکیموں اور پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کے فریب اور دھوکے سے کھلے عام لٹتے رہے ہیں۔ کراچی میں سرکاری زمینیں کوڑیوں کے مول بیچی جاتی رہی ہیں۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے شہر کے وسائل پر لینڈ اور کچی آبادی مافیا کا قبضہ رہا ہے۔ جس سے زمینوں پر تجاوزات بن گئی ہیں اور وہ ہیں بھی بغیر منصوبہ بندی کے۔ شہر کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ کے ساتھ ساتھ اندرونِ ملک سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے کراچی کی آبادی بہت تیزی سے بڑھتی گئی ہے۔ کئی صورتوں میں تو بااثر مافیا نے اپنے مفادات کے لئے خود سے لوگوں کو بٹھا لیا۔

اس طرح کراچی میں بے ہنگم آبادیاں وجود میں آ گئی۔ آبادی کے تیز رفتار اضافے سے شہر کا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا جب کہ بلدیہ کے وسائل میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہوا۔ کراچی کا شہری نظام ویسے کا ویسا ہی رہا لیکن آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، اس بڑھتی آبادی میں کسی قسم کی پلاننگ یا سسٹم کو فالو کرنے کی بجائے جہاں جس کو جگہ ملی وہاں گھر بنا لئے، یوں کراچی میں بے ترتیب قسم کی کچی آبادیاں وجود میں آ گئیں۔

لوگوں نے اپنی مرضی سے خود کی چھوٹی چھوٹی گلیاں بنا لیں، اسی طرح خود سے بغیر منصوبہ بندی کے چھوٹے سیوریج کے پائپ ڈال لئے جو آبادی بڑھنے کے بعد اتنا بوجھ اٹھانے کے لائق نہیں تھے۔ اس طرح کراچی کا پرانا انفرااسٹرکچر تباہ و برباد ہوتا گیا۔ نالوں پر تعمیرات کھڑی ہیں کچرے کے ڈھیر بارش کے سیلابی پانی میں دوبارہ شامل ہو گئے۔ کراچی کا بڑا حصہ بارش کے پانی میں ڈوب گیا، کراچی ان دنوں آفت زدہ شہر کھلانے کا مستحق ہے۔

انتظامیہ کے کثیر جہتی انتظامات اور نالوں کی صفائی کے جتنے دعوے تھے وہ مسلا دھار بارشوں میں بہہ گئے۔ بارشیں کراچی کی تباہی، بربادی اور شہریوں کی بے بسی اور مجبوریوں پر فریاد کناں ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی حل نکالا جائے، کراچی شہر کے نصف کے قریب مسائل خالصتاً انتظامی نوعیت کے نظر آتے ہیں جنہیں اہل و دیانتدار قیادت، گڈ گورنس اور قانون کے مٴوثر نفاذ سے حل کیا جا سکتا ہے جن کے لئے کوئی اضافی بجٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ باقی مسائل ہنگامی نوعیت کے اقدامات اور اضافی بجٹ کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :