اقتدار کی جنگ اور سیاست کی چالیں معاشرہ اور سوچ رویوں میں ایسی تپش گالی گلوچ کا سماں دیکھ کر ہر محب وطن سوچتا نظرآتا سوال کرتا ہے یہ کیا تماشہ ہے جبکہ کمر توڑ مہنگائی نے بائیس کروڑعوام کو پریشانیوں سے دو چار کر رکھا ہے اور چند خاندان اقتدار کے لئے سرگرم ہیں ایسا کیوں ہے عوام علاج معالج کی سہولتوں سے بھی محروم اپنے بچوں کو بھی تعلیم کے بجائے محنت مزدوری کرانے پر مجبور ان کیلئے دال روٹی سبزی بھی کھانا مشکل ہوتی جا رہی ہے اور تمام ٹیکسزکا بوجھ بھی ان کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے دن بدن ان کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اس کا ذمہ دار کون یہ لوگ تو ووٹ دے سکتے ہیں مگر بلدیات کا الیکشن بھی لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے پاکستان ایٹمی قوت اور اسلام کا قلعہ ہے اللہ تعالے نے اس کو قذرتی وسائل سے مالا مال دنیاکی بہترین افواج سے نواز رکھا ہے جس کو عوام کی بھر پور تعاون بھی حاصل ہے مگر جب بھی نئی حکومت آ تی ہے خزانہ خالی کا رونا رونے لگتی ہے اور کشکول لیکر در بدر جاتی ہے۔
(جاری ہے)
اس سے ملک وقوم کا امیج مجروح ہوتاہے وہاں بھکاری ہونے کے طعنے ملتے ہیں زندہ قومیں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتی سخت ترین حالات کا بھی مقابلہ کرتے ہوئے ملکی وسائل سے ہی اپنی معاشی حالت کو سنوارتی ہیں ہر گز خزانہ خالی کا رونا نہیں روتی سیانے کہتے ہیں جب کسی بھی وسیب میں کسی بھی شخض کی معاشی حالت کمزور ہو جائے وہ شخض اپنے وسیب اور برادری میں معاشی حالت کا رونا نہ روئے اور اپنے اندورنی حالات کو ہر گز دوسروں پر ظاہر نہ کرے اپنی سفید پوشی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی معاشی حالت سنوانے پر توجہ دے ورنہ معاشی کمزوری وسیب میں ظاہر ہونے پر اس کے شریک چڑھ ڈوریں گے اور معاشر ہ میں بھی امیج تباہ ہو گا یہ ہی صورت حال ملک وقوم کی ہے خزانہ خالی اور معاشی کمزوری کا رونا رونے سے ہمارا دشمن اس موقع سے فائدہ اُ ٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے ایسا موقعہ دشمن کو نہیں فراہم کرنا چاہیے اور معاشی حالت کو بہتربنانے کیلئے قوم کو اعتماد میں لیکر اتنی ب بڑی فرادی ملکی قوت اور ملکی وسائل کو بروئے کار لانے کیلئے منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور اس بات کا عہد کر لیں ہم کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے روکھی سوکھی کھا کر بھی دن رات قوم و ملک کی ترقی خوشحالی کیلئے کام اور کام کو ہی ترجیح دے کر حقیقی معنوں میں زندہ قوم عملی طور پر دنیاکے سامنے آئیں گے۔
آزادی سے لیکر ابتک حکومتوں کا یہ ہی رویہ رہا ہے جانے والی حکومت کے منصوبوں پر ربڑ پھیرو چاہے ان منصوبوں کے ختم ہونے سے عوام کا ہی استحصال ہی ہو ترقی یافتہ ممالک میں جانے والی حکومت کے منصوبوں کو ختم نہیں کرتے ان کو جاری رکھتے ہیں ان کی ترقی خوشحالی کا بھی یہ ہی راز ہے جبکہ پاکستان میں سیاست چمکانے کیلئے جانے والی حکومت کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ اس کے جاری منصوبوں کو بھی ملیامیٹ کر کے رکھ دیا جاتا ہے اس سے قومی خزانہ کی دولت کا بھی نا قابل تلافی نقصان ہوتا ہے مثال کے طور پر موٹر وے ایم ٹو کی افتتاحی تقریب میں یہ اعلان کیا گیا پنڈی بھٹیاں اور چکری کے مقامات پر قومی صنعتی زون قائم کئے جائیں گے مسلم لیگ ن کی حکومت نے پہلے مراحلہ میں فسٹ قومی فری صنعتی زون پنڈی بھٹیاں موٹروے ایم ٹو کے ساتھ کے قیام کا اعلان کیا اس کے ساتھ ہی فوری اس قومی اہمیت کے منصوبہ پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا پیپرورک کے بعد موٹر وے کے ساتھ دوہزارایکڑ صنعتی زون کیلئے اراضی مختص کی گئی جبکہ موٹر وے ایم تھری کے ساتھ ایک ہزار ایکڑ رقبہ پر بگ سٹی پنڈی بھٹیاں کے قیام کا بھی منصوبہ بنایا گیا بگ سٹی ہر لحاظ سے پاکستان کا جدید ترین شہر ہونا تھا انٹر نیشنل ائیر پورٹ سمیت تمام سہولتیں میسر ہونی تھیں جبکہ فسٹ قومی صنعتی زون کے قیام کیلئے اخبارات میں ملکی اور غیر ملکی صنعت کاروں کو دعوت دینے کیلئے قومی اخبارات میں تشہیر کی گئی یہ 500ایسے صنعتی یونٹ جن کی منصوعات کو در آمد کیا جانا تھا اور 20000افراد کو روزگارلنے اور لاکھ سے زائد خاندانوں نے مستفید ہونا تھا اس سے بیروزگاری کے خاتمہ میں مدد ملنی تھی ۔
مگر مسلم لیگ ن کی حکومت کا تختہ الٹنے کے ساتھ ہی قومی اہمیت والے منصوبہ کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا گیا بیس سال گزرنے کے باوجود بھی آ نے والی حکومتوں نے اس پر سوچ بچھار نہ کی جہاں اس پر قومی سرمایہ کا ضیاع ہوا وہا ں عوامی سوچ کو بھی ملیا میٹ کر کے رکھ دیا گیا کیا یہ عوام کی خدمت ہے ان علاقوں کو روزگار کی سہولتوں سے محروم کیا گیا جیسا کہ موٹر وے کے منصوبوں کو چھ لین سے چار لین کرنے اور پھر چھ لین کرنے پر مزید بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑے حکومتوں کا تو آنا جانا سیاست کا معمول ہے مگر ہر آنے والی حکومت قومی اہمیت کے منصوبوں پر کام جاری رکھنا چاہیے اور ایسی روایات کو ختم کر کے حقیقی معنوں میں عوام کا خادم بن کر اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر قوم وملک کیلئے کام کرنے کا عہد کرنا چاہیے اگر ملک کی افرادی قوت اور وسائل پر یقین کر لیں پاکستان چند سالوں ترقی کر کے غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے ہماری ناکارہ پالیسوں نے غیروں کے سامنے کشکول پھیلانے پر مجبور کر رکھا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔