عورت کو عزت دو

جمعرات 4 مارچ 2021

Saif Awan

سیف اعوان

عورت کا ہر دور میں اہم کردار رہا ہے ۔انسان کی ابتدائی تاریخ میں عورت کی اہمیت،عزت اور مرتبہ بہت اعلیٰ تھا۔عورت کو ہر قبیلے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ عورت کی وجہ سے ایک خاندان آگے بڑھتا تھااور مضبوط ہوتا تھا۔عورت کی اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاتا تھا۔انسانی تاریخ میں کئی ایسی تہذیبیں گزری ہیں جن میں کسی خاندان کی پہچان صرف عورت کی وجہ سے ہوتی تھی۔

خاندان کو متحد ،طاقتور اور لازوال بنانے میں بھی عورت کا اہم کردار رہا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی عورت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ارتقائے حیات کی کہانی میں مرد اور عورت دونوں کا ذکر ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے دونوں کا وجود ہی ناگزیر ہے۔ اس حقیقت سے مرد اور عورت دونوں آگاہ بھی ہیں لیکن اس آگاہی کے باوجود مرد کی طرف سے عورت کے وجود کو دبانے اوراْس کا استحصال کرنے کی ایک طویل داستان بھی انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔

(جاری ہے)

دنیا کی بڑی تہذیبوں کے مطالعے سے یہ بات معاشرتی حیثیت ہمیشہ سے ہی مرد کے مقابلے میں کم تر نہیں تھی۔ ابتدا میں چونکہ انسانی نسل کو آگے بڑھانے کی ضامن عورت تھی اس لیے مرد کے مقابلے میں اْسے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اْس وقت مافوق الفطرت قوتوں کا تصور بھی زنانا تھا۔ دیوتاوٴں کے مقابلے میں دیویاں زیادہ قابلِ احترام تھیں۔ وادی سندھ کی تہذیب میں بھی جو نسبتاً ہمارے قریب کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے عورت کی معاشرتی حیثیت مرد سے بالاتر ہے۔

سید سبطِ حسن لکھتے ہیں”وادی سندھ میں اموی نظام قائم تھا۔ یعنی حسب نسب اور وراثت کا سلسلہ ماں کی طرف سے چلتا تھا لہٰذا معاشرے میں عورت کا مرتبہ مرد سے اْونچا تھا۔ عورت کی مورتیوں کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں کے باشندوں کے نزدیک عورت کی ذات افزائشِ فصل و نسل کی محرک بھی تھی اور علامت بھی۔”
جب معاشرہ جاگیردارانہ سماج میں بدلا تو عورت کی جگہ مرد قبیلے یا خاندان کا سربراہ بن گیا اوریوں تصورِ ملکیت کے زیرِ اثر عورت بھی آزاد اور کھلی فضا سے پابندیوں اور قید خانوں میں دھکیلی جانے لگی۔

عورت کو مرد سے کمزور اور کم عقل سمجھا جانے لگا اور بالآخر یہ سلسلہ اسی کی غلامانہ حیثیت پر منتج ہوا۔لیکن وقت پھر تیزی سے بدلا اور عورت میں اپنے حقوق کاشعور پیدا ہونے لگااور ایک نئی عورت کا وجود ابھرنے لگا وہ تعلیم یافتہ بھی تھی ۔ اس نئی عورت نے اپنی مسلسل جدوجہد سے مملکتوں کی دستور ساز اسمبلیوں میں اپنی جگہ بنائی۔یہ سب عورت کی بڑھتی ہوئی بیداری سے ہی ممکن ہوا۔

لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رْخ یہ بھی ہے کہ تمام تر بیداری کے باوجود عورت کی معاشرتی حیثیت اورمقام ابھی تک جدید دنیا کی عورت کے مقام سے بہت کم ترہے۔ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ گذشتہ ایک سو دس سال سے اِس دن خواتین کے مسائل، مصائب اور ہر طرح کی مشکلات پر گفتگو ہوتی ہے ،ہمارے یہاں بیشتر فورمز پرعورتوں کے حقوق کے حوالے سے مرد دانشور بھی لیکچرز دیتے ہیں،یہ دن گزر جاتا ہے لیکن وہ سوچ جو ہمارے سماج کے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن چکی ہے تبدیل نہیں ہوتی کہ عورت دراصل مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔


تاریخ میں کچھ ایسی خواتین بھی پیدا ہوئی ہیں جہنوں نے اپنی پہچان خود بنائی اور اپنی طاقت کو منوایا بھی ۔ان میں سلطنت روم کے دور میں ”ملکہ مشرق“کہلوائی جانی والی ملکہ زنیوبیا کا نام بھی آتا ہے۔یہ خاتون شام کے علاقے پالمیریا اور دیگر مشرقی صوبوں کی ملکہ تھی اور نادر المثال خواتین میں سے ایک تھی۔اس خاتون نے شہنشاہ ایران کو دو مرتبہ شکست بھی دی۔

پھر تاریخ میں ایک بڑا نام حضرت خدیجہ سلام اللہ علہیہ کا ہے ۔حضرت خدیجہ کا تعلق ایک مال دار خاندان سے تھا۔ایک جنگ میں اپنے والد کی وفات کے بعد حضر ت خدیجہ نے اپنا تمام کاروبا خود سنبھال لیا۔تاریخ میں درج ہے کہ ان کے تجارتی اونٹوں کے قافلے اتنے بڑے ہوتے تھے ایک شہر سے دوسرے شہر تک لمبے قافلے ہوتے تھے۔حضرت خدیجہ مکہ سے جو کاروبار کرتی تھیں اس کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے بڑے شہروں میں ان کے تجارتی قافلے سفر کرتے تھے۔

یہ تجارتی قافلے طویل سفر طے کر کے جنوبی یمن اور شمالی شام جیسے شہروں تک جایا کرتے تھے۔پھر جب حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو حضرت خدیجہ پہلی خاتون تھیں جہنوں نے اسلام قبول کیا۔تاریخ میں درج ہے کہ ایک دن کفار کا ایک بڑا گروہ حضرت محمد ﷺ پر حملے کیلئے ان کے گھر کے سامنے آگیا۔تو حضرت خدیجہ اپنے غلام میسرہ کے ہمراہ گھر سے باہر نکلی اور کہا حملہ کرنے کیلئے وہ آگے جو میرا مقروض نہیں ۔

حضرت خدیجہ نے میسرہ سے کہا کہ مکہ کے ان تمام افراد کے فہرست نکالو جو میرے مقروض ہیں۔میسرہ فہرست سے نام پڑھتے گئے اور باری باری سب کفار گھروں کو چلے گئے کیونکہ وہ سب حضرت خدیجہ کے مقروض تھے۔
اپریل 1429کو ایک فرانسیسی لڑکی جون آف آرک نے فرانس کو انگریزوں سے نجاد دلائی۔فرانس کے شہر آرلیان کا انگریزوں نے ایک سوسال سے محاصرہ کیا ہوا تھا۔

جون آف آرک آرلیان ایک چھوٹے سے لشکر کے ہمراہ پہنچی ۔جون آف آرک ایک اٹھارہ سال کی لڑکی تھی اس نے پہلے دن ہی انگریز کمانڈر کو خط لکھا کہ وہ شہر کا محاصرہ چھوڑ دیں اور یہاں سے چلے جائیں لیکن انگریز کمانڈر نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ”جاؤ کھیتوں میں کام کرو جاکر جنگ کرنا تم جیسی کمسن لڑکی کے بس کی بات نہیں ہے“۔پھر اگلے دن جو ن آرک نے انگریزوں کے کیمپ پر حملہ تو انگریزوں کے چھکے چھوٹ گئے۔

اس حملے میں وہ انگریز کمانڈر بھی مارا گیا جس نے جون آر ک کا طنز اڑایا تھا۔جون آرک کے کامیاب حملے کے بعد انگریزوں نے شہر کا محاصرہ ختم کردیا اور واپس چلے گئے۔جون آر ک کی وفات کے بائیس سال بعد فرانس برطانیہ کے قبضے سے آزاد ہو گیا۔1920میں پوپ نے جون آر کو سینٹ کا درجہ دے دیا۔آج فرانس میں جگہ جگہ جون آر کے مجسمے نصب ہیں ۔فرانس کے شہر آرلیان میں 8مئی کواس کی فتح کا جشن منایا جاتا ہے۔


یہ صرف تین خواتین کی کہانی ہے ان کے علاوہ انسانی تاریخ میں کئی ایسی نامور خواتین پیدا ہوئی ہیں جہنوں نے اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کے بل بوتے پر اپنی طاقت کو منوایا۔کئی صدیوں بعد بھی ایسی بہادر اور جرات مند خواتین زندہ ہیں اور باقی خواتین کیلئے مثال ہیں۔عورت ایک ماں،بہن،بیٹی کے روپ میں ہمارے معاشرتے میں کئی کردار ادا کررہی ہے۔

عورت کے بطن سے جنم لینے والے بچے سربراہ مملیکت ،آرمی چیف،جج ،سیاستدان ،بیورکریٹس ،بزنس مین اور سپر سٹار بن رہے ہیں لیکن افسوس ہے کہ آج عورت کو کم تر اور کمزور ثابت کرنے اور دبا کر رکھنے کیلئے ہر ممکنہ ہر بے استعمال کیے جا رہے ہیں۔اب دنیا بدل چکی ہے ہمیں بھی خود کو بدلنا چاہیے ۔عورت مارچ کے شرکاء کے پوسٹر پر تنقید کرنے کی بجائے ان کے ایشوز پر غور کیا جائے وہ احتجاج کیوں کررہی ہیں ۔وہ صرف اپنا حق مانگ رہی ہیں جو ہر مذہب اور ریاست نے ان کو دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :