نوابوں کا دیس

ہفتہ 13 مارچ 2021

Saif Awan

سیف اعوان

بہاولپور کا نور محل کئی دہائیوں بعد بھی اپنی شان و شوکت قائم رکھے ہوئے ہیں۔نور محل کی خوبصورتی کو قائم رکھنے میں پاک فوج کا اہم رول ہے۔نور محل کی قسمت اچھی ہے کہ یہ کنٹونمنٹ ایریا میں آگیا ورنہ اس کا حال بھی صادق پیلس جیسا ہی ہونا تھا۔صادق پیلس کی موجودہ صورتحال کے متعلق آنے والی سطور میں بتایا جائے گا۔بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ لیکچرارآفاق احمد چھ بج کے پنتالیس منٹس پر گیسٹ ہوسٹل پہنچ گئے ۔

ہم تمام صحافی سات بجے نور محل پہنچ گئے۔آفاق صاحب ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں انہوں نے ہمارے ہر جگہ پہنچنے سے پہلے متعلقہ انتظامیہ کو پیشگی آن بورڈ لیا ہوتا تھا ۔نور محل کے لان میں تقریبا پانچ سو کے قریب کرسیاں لگی تھی جن پر بیٹھ کے ہم جیسے پر تجسس مداحوں نے نور محل کے لائٹ شو کا نظارہ دیکھنا تھا۔

(جاری ہے)

آفاق صاحب نے پاک فوج کی متعلقہ انتظامیہ سے پہلے ہی رابطہ کرکے ہمارے لیے فرنٹ لائن پر کرسیاں بک کرارکھی تھی۔

نور محل کی بلڈنگ کے سامنے تمام کرسیاں لگائی گئی تھی اور نور محل کی بلڈنگ پر لائٹس کے ذریعے ریاست بہاولپور اور تقسیم پاکستان کی آکاسی کرنا تھی۔لائٹس شو میں ریاست بہاولپور کے تمام نوابوں کا شجرا نسب ،روایتی ثقافتی کلچر ،تقسیم پاکستان کے وقت مہاجرین کی پاکستان آمد اورریاست بہاولپور کا غیر مشروط طور پرالحاق پاکستان کی منظر کشی کی گئی تھی۔

یہ ایک دلفریب اور دلنشین نظارہ تھا۔لائٹس شور کے بعد ہم نور محل کے اندر داخل ہوئے تو وہ بھی کچھ اور ہی نظارہ تھا۔محل میں نواب صادق خان سمیت دیگر نوابوں کے زیر استعمال رہی اشیاء کو بڑی نفاست کے ساتھ سجاکر رکھا گیا یہ بھی باقاعدہ ایک نواب میوزیم تھا۔نور محل کے اندر داخل ہونے کے بعد میرے اور ثناء ارشد کے درمیان قیمتی نوادرات کے ساتھ تصویریں بنوانے کی ریس لگی تھی۔

ہمارے پورے ٹور کے پسندیدہ شخص قاسم بھائی تھے۔قاسم بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کے آفیشل فوٹوگرافر تھے۔دو دن کے ٹور کے دوران قاسم نے سب سے زیادہ میری اور ثناء ارشد کی تصویریں بنائی ۔ہم دونوں کے علاوہ سدرہ غیاث اور عدیل مصطفی بھی تصویریں بنوانے کے کافی شوقین تھے۔نور محل کی بالائی منزل دیکھنے کے بعد میں ،ثناء،سدرہ،عدیل اور قاسم کو مرجان محل کے زندان میں لے گئے۔

زندان نیچے بیس منٹ میں تھا لیکن وہاں لائٹس کا انتظام تھا۔ہم چاروں نے زندان میں بھی تصویرین بنوائی۔
نور محل سے ہم تقریبا نو بجے رات کو واپس ہاسٹل پہنچے جہاں ڈنر پہلے سے ہی تیار تھا۔ ہوسٹل پہنچتے ہی آفاق صاحب نے بتایا کہ صبح نے ہم نے صادق پیلس اور قلعہ درڑاور جانا ہے آپ لوگ صبح نو بجے تیار رہنا۔اگلی صبح ہم لوگ صادق پیلس دیکھنے کیلئے نکل پڑے ۔

صادق پیلس احمد پور شرقیہ کے قریب ہے۔بہاولپور شہر سے باہر نکلتے ہوئے مولانا مسعود اظہر کا مدرسہ آتا ہے ۔قاسم نے مجھے بتایا کہ یہ مولانا مسعود اظہر صاحب کا مدرسہ ہے جن سے بھارت کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔میں نے قاسم کو کہا مولانا مسعود اظہر سے زیادہ خطرہ بھارت کو حافظ سعید صاحب سے ہے تو سب نے زور سے قہقہ لگادیا۔صادق پیلس نور محل کی نسبت عام شہریوں کے لئے مکمل طور پر بند ہے۔

لیکن ہماری خوش قسمتی آفاق صاحب نے اس کا بھی انتظام پہلے سے کر رکھا تھا۔جیسے ہی ہم صادق پیلس کے گیٹ پر پہنچے وہاں ایک شخص پہلے سے ہمارا استقبال کرنے کیلئے موجود تھا۔ہم صادق پیلس کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو سامنے ایک سفید رنگ کی بڑی بلڈنگ نے ہمارا استقبال کیا ۔دور سے ہی بلڈنگ ایک سحر انگیز اور پر مسرت نظر آرہی تھی۔پیلس کے دروازے پر پہنچتے ہی ہمارا استقبال کرنے والے شخص نے پیلس کا دروازہ کھو لا تھا مجھے آفاق صاحب کی بات پر یقین ہوگیا ۔

انہوں نے راستے میں بتایا تھا کہ صادق پیلس کی حالت دیکھ کر آپ کو واقع ہی افسوس ہوگا۔صادق کی پیلس کے اندر داخل ہوتے ہیں سامنے دربار ہال ہے جہاں کسی وقت میں بیٹھ کر نواب صادق صاحب دربار لگایا کرتے تھے۔دربار آج بھی ویسے ہی لگاہوا ہے لیکن دربار کی حالت قابل رحم ہے۔صادق پیلس میں قیمتی لکڑی ،نایاب پتھر اور عندہ قالین آج محل میں موجود ہیں لیکن عدم توجہ کے باعث پیلس کی ہر چیز اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔

آفاق صاحب نے بتایا کہ اب یہ پیلس نواب خاندان سے محکمہ آثار قدیمہ نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔مجھے اس وقت محکمہ آثار قدیمہ پر شدید غصہ آیا کہ جس ریاست نے غیر مشروط طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اس کے معماروں کے پیلس کی ایسی حالت ناقابل یقین ہے۔محکمہ آچار قدیمہ کو اگر لاہور کے شاہی قلعہ سے فروصت ملے تو صادق پیلس پر بھی تھوڑی نظر کرم کردے۔

ہمارے وزیر اعظم سیاحت کو فروغ کا مشن شروع کیے ہوئے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ صادق پیلس کی قابل ترس حالت پر بھی تھوڑا رحم کھائیں اور اس کو اصل حالت میں بحال کریں۔صادق پیلس سے نکل کر ہم قلعہ درڑاور کیلئے روانہ ہوئے تو ہم بتایا گیا کہ نواب خاندان کے چشم و چراغ نواب شاہ زین نے ہمارے لئے چائے کا اہتما م کیا ہے کہ نواب صاحب خود تو موجود نہیں تھے لیکن ان کے ڈیرے پر پہنچنے کے بعد ان کے ملازمین نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں چائے پیش کی۔


قلعہ درڑاور دورسے ہی اپنی شان و شوکت اور اپنے بلند مرتبے کے مطابق تیز دھوپ میں چمکتا نظر آرہا تھا۔یہ قلعہ نوابوں نے سکھوں کو شکست دے کر فتح کیا تھا۔قلعے کی باہر سے حالت آج بھی قدر بہتر ہے لیکن اندر سے قلعہ مکمل طور پر کھنڈر میں تبدیل ہو گیا ہے ۔قلعہ کا اندرونی حصہ شاید ہی کہی سے اپنی اصل حالت میں موجود ہو جو شاید ہماری نظروں سے نہ گزراہو۔

قلعے کی اندرونی دیواروں کی حالت انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں ۔قلعہ اندر اسے معلوم ہوتا ہے جیسے بابل ،اشوری یا سمیراریوں کے محلات ہیں جو کئی صدیوں بعد بھی اپنے چند آثار باقی چھوڑے ہوئے ہے۔قلعے کا سب سے اوپر والا حصہ دیکھ کر کچھ خوشی سی محسوس ہوئی کیونکہ وہاں محکمہ آثار قدیمہ کے ملازمین رینوویشن کا کام کررہے تھے۔ آفاق بھائی نے بتایا کہ جس جگہ کام ہو رہا ہے ماضی میں جو بھی قلعہ فتح کرتا تھا تو اس جگہ اپنا جھنڈا لگاتا تھا تو ہی قلعہ فتح ہوتا تھا۔

پنجاب حکومت اگر صادق پیلس اور قلعہ درڑاور پر توجہ دیں تو اس سے سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا اور ملکی غیر ملکی سیاح بھی شوق سے دیکھنے آئیں گے۔قلعہ دیکھنے کے بعد ہم واپس لاہور کیلئے جب نکلے تو یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر شہزاد صاحب نے ہمیں تحائف دیے اور ہماری آمد کا شکریہ ادا کیا۔ہم سب دوستوں نے ان کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔

سب لوگ آفاق احمد،قاسم اور مرجان کی خلوص اور ان کی محبت سے بے حد خوش تھے۔ہم جب لاہور سے نکلے تو جاتے ہوئے سفر جان اے آر وائے ٹی وی کے رپورٹر حسن حفیظ تھے اور واپسی کے جان سفر عدیل مصطفی تھے۔ان دونوں کی وجہ سے ہمارا سفر بہت اچھا رہا ۔رب نواز نے واپسی پر ایک سب کو خوشخبری سنائی کہ عید الفطر کے بعد ہم گلگت جارہے ہیں سب لوگ خودکو ذہنی طور پر تیار رکھیں۔میں ذاتی طور پر صدر راشد منظور صاحب کا بھی شکر گزار ہوں جہنوں نے اس شاندار تفریحی دورے کا اہتمام کیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :