متبادل آگیا

منگل 18 مئی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف کی ضمانت پر رہائی کے دن سے حکومتی،اپوزیشن اور دیگر حلقوں میں چہ مگویاں ہورہی ہیں اور شہبازشریف کی مصلحت پسندی پر کھل کر تنقید بھی کی جارہی ہے۔اس کے ساتھ مریم نواز اور شہبازشریف میں اختلافات کی بھی خبریں گردش کررہی ہیں اور شہبازشریف پر نئی ڈیل کے الزامات بھی لگ رہے ہیں۔لیکن ایک بات طے ہے کہ شہبازشریف اپنے بڑے بھائی نوازشریف کا کسی صورت ساتھ نہیں چھوڑنے والے۔

لاہور ہائیکورٹ نے جب شہبازشریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا تو عمران خان کے تو ہوش ہی اوڑ گئے ۔جو افواہیں گردش کررہی تھیں اب عمران خان کو بھی ان میں حقیقت نظر آنے لگی۔عمران خان نے عدالتی حکومت پر سسٹم اپ ڈیٹ کرنے کی بجائے شہبازشریف کو بیرون ملک جانے سے روک دیا۔

(جاری ہے)

چھٹی کے روز کا بہانہ کرکے شہبازشریف کا نام بلیک لسٹ سے نہیں نکالا گیا لیکن عید والے دن عمران خان نے شہبازشریف کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔

ہوسکتا ہے یہ کیس دوبارہ عدالت میں جائے تو عمران خان کی حکومت مکر جائے کہ ہم نے تو شہبازشریف کا نام ای سی ایل میں ڈالا ہی نہیں ہے۔اگر شہبازشریف نے طاقتوروں سے ڈیل کی ہے تو عمران خان کی حکومت نے شہبازشریف کا نام ای سی ایل میں ڈال کر طاقتور حلقوں اور لاہور ہائیکورٹ کی بھی توہین کی ہے۔اب معاملہ شہبازشریف کا نہیں طاقتور اور عدالت کی توہین کا ہے۔

عمران خان اس سے قبل بھی توہین عدالت کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب کی بلدیاتی اداروں کی فوری بحالی کا حکم دیا۔اس فیصلے کو ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن پنجاب میں ابھی تک بلدیاتی ادارے بحال نہیں ہو سکے۔بلدیاتی اداروں کی بحالی کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ کے ریماکس بھی بہت سخت رہے ہیں ۔ذرائع بتاتے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ بھی لکھیں گے۔

یہ اختلافی نوٹ پنجاب سمیت پوری ریاستی مشنری کو ہلاکر رکھ دے گا۔شہبازشریف نے عید پاکستان میں ہی گزار لی ہے۔جبکہ ان کی لندن میں اپنے میڈیکل چیک اپ کیلئے اپوائنٹ منٹ بھی تھی ۔شہبازشریف کی بیماری کی متعلق حکومت بخوبی آگاہ ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تین روز قبل کہا شہبازشریف کی بیماری انتہائی احساس ہے لیکن اتنی سنجیدہ نہیں ہے۔

یہ بیان میں میرے لیے انتہائی حیرت کا باعث تھا کہ بیماری کی نوعیت حساس بھی ہے اور سنجیدہ بھی نہیں ہے۔شاہ صاحب کا مطلب تو ایسا ہی جیسے پیچھلے دنوں عمران خان کے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آئی تو لوگ نے یقین نہیں کیا ۔سوشل میڈیا پر لوگوں نے کہا پاکستان میں بیماری کا یقین دلانے کیلئے مرنا پڑتا ہے۔پھر کچھ دیر حکومت نے خاتون اول بشریٰ بیگم کا بھی کورونا مثبت ہونے کی خبر جاری کردی تاکہ قوم کو یقین ہو سکے کہ واقع عمران خان کو بھی کورونا ہوا ہے۔


شہبازشریف کے طرز سیاست کو پارٹی میں اس وقت بہت پذیرائی مل رہی ہے۔کیونکہ مسلسل ٹھکراؤ کی سیاست سے پارٹی کے بڑے چہرے بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔اسٹبلشمنٹ کی عدم مداخلت پر سب ہی متفق ہیں لیکن اسبلشمنٹ پر ناموں کے ساتھ مسلسل تنقید سے پارٹی کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔مسلم لیگ(ن) کا مزاج اب تبدیل ہورہا ہے۔خصوصا میاں نوازشریف کے مزاج میں کافی تبدیلی آئی ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے اندرسے اب مسلسل ایک بات اٹھ رہی ہے کہ ہمیں اب نئے انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے ۔نوازشریف جمہوری حکومت کا تختہ الٹانے کے حق میں نہیں ہیں وہ بھی نئے اور شفاف انتخابات کے حامی ہیں۔جہاں تک بات عمران خان کی ہے ان کی حکومت مہنگائی کے بوجھ میں خود ہی دب چکی ہے۔مہنگائی نے عوام کی زندگیاں اجیرن بنادی ہے۔جس کا اندازہ نئے معاشی سرجن شوکت عزیز کو بھی بخوبی ہے۔

عمران خان شہبازشریف کی پھرتیوں سے آج کل بہت پریشان دیکھائی دے رہے ہیں۔عمران خان تک بھی اطلاعات پہنچ چکی ہیں کہ شہبازشریف ان کے متبادل کے طور پر سامنے آچکے ہیں۔شہبازشریف نے تو پہلے دن ہی اس حکومت کو معیشت پر ایک پیج پر آنے کی دعوت دی تھی لیکن عمران خان نے اس دعوت کو سنجیدہ نہیں لیا ۔شہبازشریف تمام سیاسی جماعتوں ،فوج ،کاروباری طبقے اور اس سے بڑھ کر عالمی سطح پر اپنی ایک اچھی شہرت رکھتے ہیں ۔

ہر طبقے میں ان کو آج بھی عزت کی نظر سے دیکھاجاتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا ڈلیور کرنے کا انداز ہے ۔شہبازشریف سے بہتر موجودہ حالات میں کوئی دوسرا چہرہ قابل قبول نہیں ہے۔شہبازشریف کے چین اور ترکی کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات ہیں ۔طاقتور وں نے اب فیصلہ کرلیا ہے اب اس نئے فارمولے پر کام شروع ہوچکا ہے۔لیکن دوسری جانب عمران خان نے بھی ہاتھ ہاؤں مارنے شروع کردیے ہیں ۔اب بہت دیر ہو چکی ہے۔کیونکہ ملکی معیشت مزید تجربات کی متحمل نہیں رہی ہے جو فیصلہ ہو چکا ہے اس پر ہر صورت عملدرآمد ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :