پرتشدد رویے

منگل 15 جون 2021

Saif Awan

سیف اعوان

15دسمبر 2014کوتحریک انصاف،عوامی تحریک،مسلم لیگ(ق) ،عوامی تحریک سمیت اس وقت حکومت مخالف جماعتوں کا مال روڈ لاہور پر پنجاب اسمبلی کے سامنے جلسہ ہو رہا تھا۔اسی جلسے میں جیو ٹی وی کی اینکر ثناء مرزا اپنی ڈی این جی وین پر کھڑے ہوکر لائیو بیپر دے رہی تھیں ۔تو اچانک پی ٹی آئی کے ورکرز نے ان پر نازیبہ جملے کسنے شروع کردیے۔پہلے دو منٹس تک خاتون اینکرجلسے کا احوال رپورٹ کرتی رہی پھر اچانک کہی سے ان پر پانی کی بوتلیں پھینکی گئی تو وہ برداشت نہ کرسکی۔

خاتون ان مسلسل بدتمیزی سے اتنی ہراساں ہوئی کہ لائیو کالز کے دوران وہ رو پڑی۔پھر اسی طرح قصور میں پی ٹی آئی کے 22جنوری 2017کو جلسے میں بھی تحریک انصاف کے ورکرز نے اپنی ہی جماعت کی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی۔

(جاری ہے)

29اپریل 2018کو مال روڈ پر پی ٹی آئی کے جلسے میں خواتین ورکرز کو باقاعدہ خار دار تاروں پر گرادیا گیااور ان کے ساتھ نازیبہ حرکات کی گئیں۔

پھر 3مئی 2016کو لاہور ہی میں ایک اور جلسے میں پی ٹی آئی کی موجودہ ایم پی اے عظمیٰ کاردار نے تھانہ سول لائن میں اپنی جماعت کے شرپسند عناصر کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست جمع کرائی کہ انہوں نے ہمیں ہراساں کیا اور فحش کلامی کی۔پھر 24اپریل 2016کو اسلام آبادمیں پی ٹی آئی کے جلسے میں ایک خاتون ورکرز باقاعدہ رو پڑی۔اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران سیاسی خواتین اور صحافی خواتین کے ساتھ بھی بدتمیزی کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے۔

تحریک انصاف کے جلسوں میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے ایسے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے جو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
تحریک انصاف جیسے ہی اقتدار میں آئی تو ان کے ارکان اسمبلی بھی اپنے ورکرز سے پیچھے نہ رہے۔تحریک انصاف کے ورکرز اپنی جماعت کی یا خواتین صحافیوں سے بدتمیزی کرتے تھے لیکن اس جماعت کے ارکان اسمبلی اور پیراشوٹر ز مشیروں کے ہاتھوں اور زبان سے سیاسی جماعتوں کے خواتین و حضرات بھی محفوظ نہیں رہے۔

شہریار آفریدی ہو،فواد چوہدری ہو،شہبااز گل ہو،شہزاد اکبر ہو ،فردوس عاشق،فیاض چوہان یا پی ٹی آئی کے دیگر ارکان ہو ان سب نے اس میں برابر حصہ ڈالا۔اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پی ٹی آئی کے ورکرز نے مسلم لیگ ن کے سینیٹر مصدق ملک ،شاہد خاقان عباسی اور مریم اورنگزیب کے ساتھ جو سلوک روا رکھا کیا وہ قابل تعریف ہے؟چار دن قبل فردوس عاشق نے پیپلزپارٹی کے ایم این اے قادر مندو خیل کو لائیو پروگرام کے دوران باقاعدہ تھپڑ جڑ دیااور دھمکیاں بھی دیں پھر وفاقی حکومت کے بجٹ کی اجلاس میں پی ٹی آئی کی خواتین نے مسلم لیگ(ن) کی خواتین ایم این اے کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی انتہائی افسوسناک ہے۔

یہاں سب سے قابل افسوس بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے آج تک اپنے کسی بھی رکن کو نہ ڈانٹ پلائی گئی اور نہ ان کی سرزنش کی گئی کہ آپ ایسے پرتشدد رویے نہ اختیار کریں۔تبدیلی اور نئے پاکستان کے نام پر قوم کو تو پہلے ہی جھانسہ دیا جا چکا ہے ۔اب اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو حکومتی پالیسیوں کیخلاف بولنے اور احتجاج کرنے پرتشدداور ہراساں کیا جا رہا ہے ۔

اپوزیشن ارکان کی زبان بندی کیلئے گرفتاریوں سے شوق پورا نہیں ہوا تو اب حکومتی لوگوں نے باقاعدہ خود پرتشدد کاروائیاں شروع کردی ہیں ۔کیا یہ ہم نوجوان نسل کی تربیت کررہے ہیں کیا یہ عادات اور حرکتیں نئی نسل کیلئے مثالی ہونگی؟ہرگز نہیں ایسے پرتشدد رویے معاشرے میں نفرتیں اور دوریاں ہی پیدا کرتے ہیں ۔سب کو اپنے اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا۔

خصوصا وزیراعظم عمران خان جب اپنے پارٹی ترجمانوں اور پارٹی کی پارلیمانی یا کور کمیٹی کی میٹنگز بلاتے ہیں ان میں اپنے ارکان کو اسطرح کے پرتشدد رویے سے باز رہنے کا درس دیں۔حکومت پہلے ہی ڈلیور نہیں کر پارہی اگر اس طرح کے رویے جاری رہے تھے کل جب پی ٹی آئی کے لوگ اپوزیشن میں آئے گئے تو ان کے لیے گھروں سے نکلنا بھی مشکل ہو گا۔لہذا تحریک انصاف کی لیڈر شپ اس پر سنجیدگی سے غور کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :