اکیلے رہ جانے کا خوف

پیر 21 جون 2021

Saif Awan

سیف اعوان

مشہورامریکی مصنف اور سپیکر ٹونی رابن کا کہنا ہے کہ اگر آپ غریب ہیں اور آپ کے پاس کام کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں تو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ آپ کو جو مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہے ان کے حل کیلئے کوشش نہ کرنا ۔اگر آپ ہمت کریں اور خود کو ذہنی طور پر تیار کریں کہ مجھے ہر صورت اس مشکل سے نکلنا ہے تو آپ کامیاب ہونگے۔

اگر ایک انسان میں ٹیلنٹ بھی ہے کسی مشکل امتحان سے کامیابی سے نکلنے کا ہنر بھی ہے ناممکن کو ممکن کردیکھانے کی صلاحیت بھی ہے لیکن پھر بھی وہ کچھ کیوں نہیں کرتا۔آپ نے اکثر ایک فقرہ لازمی سنا ہوگا ”خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں “لیکن آج تک آپ کو کسی نے یہ مکمل فقرہ نہیں بتایا ہوگا ”کیونکہ خواب اکثر سچ ثابت ہو جاتے ہیں“۔

(جاری ہے)

اب آپ یہ سوچیں گے کہ اکثر لوگوں کے خواب پورے کیوں نہیں ہوتے اس کی سب سے بڑی وجہ وہ کوشش ہی نہیں کرتے۔

اکثر لوگ خواب تو دیکھتے ہیں لیکن ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے زیادہ تر نے آج تک کبھی اپنا گول تک سیٹ نہیں کیاکہ وہ زندگی میں کرنا کیا چاہتے ہیں یا وہ دوسروں کے ہارے ہی جینا چاہتے ہیں۔زیادہ لوگوں کی دوڑ صرف اپنی روٹی کی فکر میں ہی لگی ہوتی ہے۔اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے ہم نے کبھی پلان ہی نہیں بنایا ہوتا اگر بنا بھی لیں تو اس کو بار بار ناگریز وجوہات یا خوف کی بناء پر اس کو ملتوی کرتے رہتے ہیں۔

یہ ناگریز وجوہات اور انجانا سا ڈر ہوتا کیا ہے؟
انسان کے اندر ہی اس کا اپنا ہی خوف ہوتا ہے جو اس کو اس کے خوابوں کی تعبیر کیلئے مسلسل روکتا ہے۔جو اس کی کامیابی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔انسان کا سب سے بڑا ڈر اس کی اپنی ہی کامیابی ہوتا ہے۔اکثر لوگ اپنے اندر موجود ٹیلنٹ اور صلاحیتوں کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔مشہور امریکی سکالوجسٹ ابراہیم موسلونے ایک نظریہ پیش کیا جس کو ”جان کمپلیکس“کا نام دیا گیا۔

جان کمپلیکس اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کی اندرونی حالت ہوتی جو اپنی ہی کامیابی سے ڈر رہا ہوتا ہے۔یہی خوف اس کی کامیابی کی رہا میں رکاوٹ ہوتا ہے۔اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ کوئی انسان اپنی ہی کامیابی سے کیوں ڈرے گا۔اس کی ایک وجہ ”اس کے اکیلے رہ جانے کا خوف ہے“۔ہم اپنی کامیابی سے نہیں اکیلے رہ جانے سے ڈر رہے ہوتے ہیں۔کامیاب ہونے والے انسان کو ریس میں الگ ہوکر دوڑنا پڑتا ہے ۔

اپنے اندر موجود صلاحیتوں کا خود جائزہ لینا پڑتا ہے۔پھر وہ اپنی قابلیت کے بھروسے پر میدان میں اترتا ہے ۔پھر وہ سینکڑوں لوگوں کے سامنے اپنے ٹیلٹ کا مظاہرہ کرتا ہے۔یہ سب کام کرنے کیلئے اس کو ہمت چاہیے ہوتی ہے۔جو لوگ تنہا رہ جانے کے خوف سے اپنے ٹیلنٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے پھر وہ ہجوم میں ہی رہ کر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور مثال ہے ۔

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ٹویٹر۔فیس بک،انسٹاگرام،یوٹیوب سمیت کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم موجود ہیں۔یہاں بہت سارے لوگ ان پلیٹ فارم سے پیسے بھی کمارہے ہیں ۔اکثر لوگوں نے اپنے یوٹیوب چینل بھی بنارکھے ہیں جو ماہانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں ۔ان سب جیسی صلاحیتیں آپ میں بھی موجود ہیں لیکن وجہ وہی ہے جو اوپر بیان کی جاچکی ہے کہ وہ خواب دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

اگر آپ محنت کریں گے تو آپ کو ہجوم سے نکل کر تنہا چلنا پڑے گااور اکیلے محنت کرنا ہو گی۔ہم اکثر سوچتے ہیں کہ اگر میں یہ کام کروگا تو لوگ کیا کہیں گے۔ہم نے خود ہی اپنے ذہن میں دو تین لوگوں کا ڈر بیٹھالیا ہوتا ہے۔یہ لوگ میرے بارے میں باتیں کرینگے ۔مجھ پر کمنٹس کرینگے تو مجھے برا لگے گا۔بس اسی ڈر کی وجہ سے ہم اپنی کامیابی کے قریب ہوتے ہوئے بھی دور ہوتے جاتے ہیں۔

پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ ہم کسی ہجوم میں کھڑے ہوکر سٹیج پر موجود کسی کامیاب شخص کی کامیابی پر تالیاں بجارہے ہوتے ہیں ۔اصل میں ہم اپنے معاشرے کے خاموخواہ کے بنائے رسم و رواج کے پیچھے چل پڑے ہیں اور اپنی ہستی کو بھی ان کا تابع کرلیتے ہیں۔ آخر کار ہم کب تک سیف زون میں بیٹھے رہیں گے اور دوسرے کے اشاروں پر چلتے رہیں گے۔جب تک آپ اپنے اندر کا ڈر ختم نہیں کرینگے آپ ہمیشہ کسی دوسرے کی کامیابی پر تالیاں بجاتے رہے گے۔ایک دن آئے گا آپ کے آس پاس کے سب لوگ آگے بڑھ جائیں گے اور آپ اپنے سیف زون میں تنہا رہ جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :