ایم بی ایس کا کرپشن کیخلاف جہاد۔ قسط نمبر1

اتوار 25 جولائی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

مسلم دنیا کے نوجوان اورطاقتور حکمران تصور کیے جانے والے سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان جن کو دنیا ”ایم بی ایس“کے نام سے جانتی ہے۔ایم بی ایس نے اپنے خاندان کو کیسے مضبوط کیا اور کس طرح سعودی بادشاہت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے یہ بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ایم بی ایس بچپن میں زیادہ ”ایج آف دی ایمپائر“نامی ویڈیو گیم کھیلتے رہے ہیں ۔

وہ گھنٹوں ویڈیو گیم کھیلتے اور پیزے اور برگر کے آڈرز دیتے ۔اس گیم میں ایک فوج تیار کرنا ہوتی ہے اور اپنی ریاست کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا ہوتا ہے تاکہ کوئی قریبی ریاست اس پر حملہ نہ کرسکے۔ایم بی ایس کی پسندیدہ شخصیت سکندر اعظم تھے ۔جبکہ وہ اٹلی کے فلاسفر میکاولی کے بھی بڑے مداح تھے۔میکا ولی نے اپنے فلسفے میں اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے اور زیادہ دیر تک اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے فلسفے کی تشریح کی ہے۔

(جاری ہے)

ایم بی ایس سٹیو جابز اور بل گیٹس سے بھی متاثر تھے اور اکثر وہ ان لوگوں جیسا بھی بننے کی باتیں بھی کرتے تھے۔جبکہ وہ اپنے خاندان کے امیر ترین اور بااثر شخصیت ولید بن طلال سے بھی بہت متاثر تھے۔ولید بن طلال بلین ڈالر ز کے مالک تھے۔وہ جب بھی کوئی دنیا کی مہنگی ترین چیز خریدتے ہمیشہ درجن بھر کے قریب ہی وہ چیزیں خریدتے تھے تاکہ ان کودنیا بھر میں موجود اپنی رہائشگاہوں کیلئے استعمال کیا جاسکے۔

وہ مہنگی ترین گاڑیاں ،ہوائی جہاز اور شیپ یارڈ بھی رکھنے کے شوقین تھے۔ولید بن طلال ٹویٹر کے بھی شیئر ہولڈر ہیں ۔ان کے ٹویٹر میں بھی سب سے زیادہ شیئرز ہیں۔اسی لیے محمد بن سلمان ولید بن طلال سے زیادہ مشہور،دولت مند اور زیادہ طاقتور بنناچاہتے تھے۔محمد بن سلمان شاہ عبداللہ کے دور بادشاہت میں اپنے والد شاہ سلمان کے کبھی فیورٹ بیٹے نہیں تھے۔

مگر جب کراؤن پرنس کے بڑے بیٹے خالد بن سلمان کا ہاٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا ان کے بھائی سمیت کئی قریبی عزیز بھی ایک ایک کرکے وفات پاگئے تو ان حالات میں محمد بن سلمان نے ہی اپنے والد شاہ سلمان کو سہارا دیا ۔پھر جب محمد بن سلمان کے دوسرے بھائی بیرون ملک پڑھائی اور سیر و تفریح کیلئے چلے گئے پھر بھی ایم بی ایس اپنے والد کے پاس رہے۔اب ایم بی ایس نوٹ کررہے تھے کہ ان کے خاندان کے مالی حالات دن بدن کمزور ہوتے جارہے ہیں تو انہوں نے اپنے خاندان کو مالی لحاظ سے مضبوط کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارناشروع کردیے جس سے ان کے مالی حالات مزید بہتر ہونے لگے اور وہ اپنے والد کے مزید قریب ہو گئے۔

کراؤن پرنس شاہ سلمان ہر ہفتے تین اہم ملاقاتیں کرتے تھے ان ملاقاتوں میں محمد بن سلمان بھی موجود ہوتے اور میٹنگز کے نوٹس لیتے۔پہلی ملاقات دانشوروں سے ہوتی دوسری اور تیسری ملاقاتیں عام سعودی شہریوں اور دیگر ممالک سے آئے کام کرنے والے شہریوں سے ہوتیں۔ انہی حالات میں محمد بن سلمان 29سال کے ہوچکے تھے۔یہ سال محمد بن سلمان کیلئے بڑا ہم ثابت ہونے والا تھا۔

شاہ عبداللہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے ان کا کینسر آخری سٹیج پر تھا لہذا وہ کسی بھی وقت زندگی کی بازی ہا ر سکتے تھے۔15جنوری 2015کو شاہ عبداللہ سعودی دارالحکومت کے باہر بنائے ایک خفیہ ہسپتال میں زیر علاج تھے جہاں ہو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔شاہ عبداللہ کے بیٹوں اور ان کے چیف روئل کورٹ خالد اترویجری نے ان کی بیماری کو بہت خفیہ رکھا لیکن اس وقت تک محمد بن سلمان جاسوسی کے ذریعے اپنا ایک خفیہ نیٹ ورک بناچکے تھے۔

اسی دوران ایم بی ایس کو اطلاع ملی کہ شاہ عبداللہ موت کے دروازے پر ہیں اور ان کے والد شاہ سلمان عنقریب بادشاہ بن سکتے ہیں۔اب محمد بن سلمان نے پھرتی دیکھائی کیونکہ وہ خالد اترویجری اور شاہ عبداللہ کے بیٹوں کو نئی پاور گیم کھیلنے نہیں دینا چاہتے تھے۔لہذا وہ اپنے والد اور گارڈز کے ساتھ فوری آٹھ دس گاڑیوں میں نکلے اور فوری اس خفیہ ہسپتال میں پہنچ گئے۔

یہاں پہنچتے ان کو خالد اترویجری نے روکنے کی کوشش کی تو ایم بی ایس نے زور سے ایک تھپڑ ان کے چہرے پر رسید کیا خالد دور جاگرے۔ایم بی ایس جسمانی لحاظ سے ایک مضبوط اورطاقتور نوجوان تھے جن کا تھپڑ خالد اترویجری برداشت نہ کرسکے۔خالد اترویجری سعودیہ کے طاقتور شخص تھے لیکن اب وہ 29سالہ شہزادے کے سامنے لاچار تھے۔محمد بن سلمان جب بعد میں سعودی ولی عہد بننے تو انہوں نے سعودی شہزادوں سمیت خالد اترویجری کو بھی کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا ۔

ان میں سعودیہ کے امیر ترین شہزادے ولید بن طلال بھی شامل تھے ۔پھر 2018میں ان کو ایک معاہدے کے تحت چھوڑ دیا گیا۔ولید بن طلال ،خالد اترویجری سمیت 14قریب افراد سے بلین ڈالرز کے وصولی کی گئی۔محمد بن سلمان نے کرپشن کیخلاف مہم چلائی تو انہوں نے اربوں ڈالرز کی رقم بھی وصول کی اس حوالے سے میں ذاتی طور پر ان کا مداح ہوں اوروہ رقم انہوں نے شاہی خزانے میں جمع کرائی لیکن ایک مہم پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی چلائی جو آج تک درجنوں حزب اختلاف کے رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے باوجود ایک پائی بھی کسی سے وصول نہیں کر سکے۔جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :