قسمت کی دیوی اور عمران خان

جمعہ 30 جولائی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

کہتے ہیں ہمیشہ زن،زر اور زمین کی لڑائی ہوتی ہے۔لیکن یہ تینوں چیزیں عمران خان پر مہربان ہیں۔ان تینوں چیزوں کے ساتھ ساتھ عمران خان پرعزت،شہرت اور دولت کی دیوی بھی مہربان ہے۔عمران خان نے کرکٹ میں قدم رکھا تو کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔عمران خان نے والدہ کے انتقال کے بعد کینسر کا ہسپتال بنانے کا اعلان کیا تو لاکھوں لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔

عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا لیکن پہلے پہل ان کوبڑی کامیابی نہ مل سکی لیکن انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔بلآخر سیاست کی دیوی ان پر 2018میں مہربان ہوئی اور وہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔کچھ لوگ کہتے ہیں بشریٰ بیگم عمران خان کیلئے لکی ثابت ہوئی ہیں۔عمران خان نے جمائما گولڈ اسمیتھ کے بعد اینکر ریحام خان سے شادی کی لیکن یہ شادی کچھ ٹکنیکل مسائل کی وجہ توڑ نہ چڑھ سکی اور اس رشتے کو بریک لگ گئی۔

(جاری ہے)

2018کے عام انتخابات سے قبل عائشہ گل لئی اور ریحام خان کو عمران خان کیخلاف استعمال کیا تاکہ ان کو اخلاقی طور پر بدنام کیا جاسکے ۔جیسے 1997میں جمائما گولڈ اسمیتھ کا کارڈ استعمال کیا گیا۔1997میں میاں نوازشریف نے عمران خان کو اپنی جماعت کی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑانے کی آفر کی جس کو عمران خان نے مسترد کردیا ۔پھر جب عمران خان نے اپنی ہی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کیخلاف بھرپور مہم چلائی گئی کہ عمران خان پاکستانی سیاست میں یہودیوں کا پیسہ استعمال کررہے ہیں ۔

عمران خان نے تمام الزامات کی پرواہ کیے بغیر اپنی سیاسی جدوجہدجاری رکھی۔پھر عمران خان کو پرویز مشرف نے بھی چار سیٹیں دینے کی آفر کی لیکن عمران خان نے ایک بارپھر انکار کردیا۔عمران خان نے کہا سیاست کرنی ہے تو اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے ہی کرنی ہے۔
عمران خان 2018میں پاکستان کے وزیر اعظم بنیں تو اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا کہ اداروں کی مداخلت سے عمران خان وزیراعظم بننے ہیں ۔

پھر ایسے ہی الزامات گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی لگے ۔لیکن ایک بات طے ہے کہ آج سیاست کی دیوی عمران خان پر خوب مہربان ہے۔ان کے کچھ مخالفین اس کامیابی کو تعویز گنڈوں اور جادو ٹونوں کے مرہون منت بھی قرار دیتے ہیں ۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ عمران خان آج پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اور کامیابیاں مسلسل ان کا مقدر بن رہی ہیں ۔

عمران خان کا اب اگلا مشن ہے کہ 2023میں دوبارہ انہی کی جماعت کی حکومت بنے۔اس کے لیے انہوں نے ہوم ورک بھی شروع کردیا ہے۔وفاق،پنجاب،کے پی کے ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے بعد عمران خان کا اگلا ٹارگٹ سندھ اور بلوچستان ہیں ۔بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تو باب کے ہیں لیکن وہاں بھی حکومت انہی کی ہے۔اگر 2023میں عمران خان سندھ بھی فتح کرلیتے ہیں تو ارباب غلام رحیم ممکنہ طور پر سندھ کے اگلے وزیراعظم بھی ہو سکتے ہیں ۔

ابھی کل ہی ان کو وزیراعظم نے سندھ افیئر کا معاون خصوصی بنایا ہے۔
جبکہ دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن)کو مسلسل ہر میدان میں شکست کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ۔تحریک انصاف ان کی شکست کی بڑی وجہ اداروں کیخلاف بیان بازی کو قرار دیتی ہے۔مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف تقریبا ایک سال سے لندن میں بیٹھے ہیں ۔لندن ان کیلئے دوسری جیل بن چکا ہے وہ آزادی کے ساتھ نہ کہی چہل قدمی کرسکتے نہ فیملی کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جا سکتے ہیں۔

نوازشریف جہاں بھی جاتے ہیں ان پر چور چور کے فقرے کسے جاتے ہیں۔اگر نوازشریف اپنی جماعت کو بچانا چاہتے ہیں تو ان کے پاس دو ہی راستے ہیں اورہاں اگر وہ تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں تو ۔ایک یا وہ سب کچھ لندن میں چھوڑ کر واپس پاکستان آجائیں ۔یہاں عدالتی کاروائی کا سامنا کریں ۔نوازشریف سو سے زائد پیشیا ں بھگتنے کا ریکارڈ پہلے ہی قائم کرچکے ہیں ۔

اگر وہ واپس آتے ہیں تو چلو آٹھ دس پیشیاں مزید بھگت لیں گے اور عوام کے نظروں میں ایک بار پھر ہیرو بن جائیں گے۔اگر وہ عدالتی کاروائی کا سامنا کرتے ہیں تو ان کو ریلیف بھی مل سکتا ہے ۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ نوازشریف اپنی جماعت مکمل طور پر شہبازشریف کے حوالے کردیں ۔شہبازشریف عمران خان کا بہترین متبادل ہیں ۔شہبازشریف اداروں کو بھی قابل قبول ہیں ۔پاکستان کی تاجر برادری کو بھی قابل قبول ہیں ۔اس سے بڑھ کر انٹر نیشنل اسٹبلشمنٹ بھی شہبازشریف کی کارکردگی کی معترف ہے۔کیونکہ شہبازشریف سب کو ساتھ لے کر چلنے کے سب سے بڑے حامی ہیں ۔اب یہ فیصلہ نوازشریف نے کرنا ہے کہ ان کو کونسا راستہ اختیار کرنا ہے۔کیونکہ ان کے پاس اب اپنی جماعت کو بچانے کیلئے یہی دو راستے بچے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :