بیوروکریٹ بیوی اور بیوروکریٹ شوہر

منگل 24 اگست 2021

Saif Awan

سیف اعوان

چند دن قبل میں نے آپ لوگوں سے ایک مختصر سی خبر شیئر کی تھی کہ پنجاب کے ایک بیوروکریٹ کا اپنی بیوروکریٹ بیوی پر بہمانہ تشدد اور اس کو بیٹی کے سامنے گلہ دبا کر قتل کرنے کی کوشش کی۔بہت سارے لوگوں نے بار بار ایک ہی مطالبہ کیا کہ اس کیس کی تفصیل بتائیں اور ان کے نام بھی شیئر کریں۔آج آپ سے اس کیس کی مکمل تفصیل شیئر کردیتا ہوں۔

14اگست کی رات کو لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں لوگ معمول کے مطابق آزادی کا جشن منارہے تھے لیکن گڑھی شاہو میں کسی گلی کی نکڑ پر ایک گھر میں پنجاب کا ایک بیوروکریٹ اپنی بیوروکریٹ بیوی پر تشدد کررتا رہا اور اس کو جان سے مارنے کی کوشش بھی کرتا رہا ۔لوگ آزادی کا جشن منارہے تھے اس بیچاری کی چیخوں پر کسی ہمسائے نے بھی توجہ نہ دی۔

(جاری ہے)

شوہر اس وقت فیصل آبادمیں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر تعینات ہیں اور ان کا نام خرم پرویز ہے جبکہ بیوی آج کل گلگت میں تعینات ہیں ان کا نام ایمن طاہر ہے۔

اب آگے تمام سٹوری ایمن طاہر کی زبانی سنیں۔ خرم پرویز ولد میاں امجد پرویز سے میری شادی 2015میں ہوئی۔ہم دونوں میاں بیوی سول سروس میں ہیں اور ہماری ایک ساڑھے چار سال کی بیٹی آئینور ہے۔میں آج کل لاہور میں ہوں اور میرے خاوند فیصل آباد میں تعینات ہیں۔میرے خاوند نے پہلے دن سے ہی میرے ساتھ گالم گلوچ اور پرتشدد رویہ اپنایا اور اس کے والدین شدید لالچ کا مظاہرہ کرتے تھے۔

خرم پرویز کے والدین بار بار مجھ سے تقاضہ کرتے تھے کہ اپنے والد کو کہو کہ داماد کو اسلام آباد میں پلاٹ یا گھر لے کر دیں۔آج سے 20دن قبل میرا خاوند مجھے بتائے بغیر جرمنی چلاگیا۔جس پر میں نے بطور بیوی شدید احتجاج کیا۔چنانچہ مورخہ 14اور 15اگست کی درمیانی رات کو جب وہ بیرون ملک سے لاہور واپس آیا اور اپنے ڈرائیور عنصرکو اپنی فیصل آباد کی سرکاری گاڑی سمیت میرے گھر بھجوایا جس کے ساتھ میں اپنی کمسن بٹی کے ہمراہ اسے رسیو کرنے ایئر پورٹ گئی۔

خرم صاحب تقریبا رات 3بجے ایئرپورٹ سے باہر نکلے ۔میں وہاں سے اس کے ساتھ فیصل آباد جانا چاہتی تھی کیونکہ آگے محرم کی چھٹیاں آرہی تھیں لیکن جیسے ہی خرم صاحب نے گاڑی کی ڈگی میں میرے سامان کا بیگ دیکھا تو سخت برا منایا کہ خرم پرویز نے کہا تم میری اجازت کے بغیر میرے ساتھ فیصل آباد کیسے جاسکتی ہو۔مجھ سے گاڑی میں ڈرائیور کے سامنے جھگڑاشروع کردیا،تھپڑ مارا اور گالیاں دیں۔

گڑھی شاہو میرے گھر آکر مجھ پر باقاعدہ تشدد شروع کردیا ۔کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھے پاؤں سے کک مار کر بستر پر گرایا اور میرے دونوں ہاتھوں کو اس انتہا تک مروڑا کہ جب درد ناقابل برداشت ہوگیا تو میں نے منتیں کی اور معافیاں مانگ کر جان چھڑائی۔میں باتھ روم میں گئی اور خرم کے ڈرائیو عنصر کو ایس ایم ایس کیا کہ صاحب کو یہاں سے کسی بہانے سے لے جاؤ میرے جان کو خطرہ لگ رہا ہے ۔

میں باتھ روم سے نکلی تو ڈرائیور گھر کے ڈرائنگ روم میں موجود تھا۔میں نے اسے پھر درخواست کی آپ کے صاحب مجھ سے کچھ بھی کرسکتے ہیں انہیں یہاں سے لے جاؤ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔میں نے پولیس ایمرجنسی کو فون کرنا چاہا تو خرم نے میرا موبائل چھین لیا اور مجھے بستر پر لٹاکر جان سے مارنے کی نیت سے دونوں ہاتھوں سے گلا دبانا شروع کردیا لیکن اس سے پہلے کہ میری جان نکل جاتی میری گھریلو ملازمہ کرن جو یہ سارا کچھ دیکھ رہی تھی نے زبردستی زور لگا کر مجھے خرم کے ہاتھوں مرنے سے بچایا۔

مجھے میرے بیٹی آئینو اور ملازمہ کرن فہد کو خرم اور اس کے ڈرائیو عنصر نے صبح تقریبا ساڑھے گیارہ بجے تک یرغمال بنائے رکھا۔پورا وقت ہم نے جب بھی گھر سے نکلنے کی کوشش خرم اور عنصر ہمارے سامنے اڑ کر کھڑے ہوجاتے۔چونکہ اردگرد کے زیادہ تر رہائشی یوم آزادی کی چھٹیوں پر گئے تھے دوسرے اس سے پہلے بھی ہمارے گھر خرم کے پر تشدد رویے کی وجہ سے شور شربا اٹھتا رہا تھا اس لیے کوئی ہمسایہ بھی مدد کو نہ آیا۔

اسی دوران خرم دھمکیاں دے کر مجھ سے میری گاڑی کے کاغذوں پر دستخط کروانے کی کوشش کرتا رہا۔میرے والدین نے مجھے جہیز میں نئی ہونڈا وی ٹی آئی دی تھی لیکن خرم فارچونر یا پراڈو کا تقاضہ کررہے تھے۔چنانچہ ان کے اسرار پر میں نے اس کو فروخت کردیا اور چونکہ گلگت بلتستان میں مجھے تعیناتی کے دوران تنخواہ ڈبل سے بھی زیادہ ملتی تھی لہذا اپنے خاوند کے خواب کے تکمیل کیلئے تقریبا 55لاکھ کی ایک پرانی پراڈو نمبر ZH-708ماڈل 2008خریدی جو میری ملکیتی ہے اور جس کی رجسٹریشن کاپی بھی میرے پاس ہے۔

جبکہ میرے سسر امجد پرویز یہ گاڑی اپنے نام کروانا چاہتے ہیں۔اس گاڑی کی خریداری میں میرے والدین نے بھی میری مدد کی ۔آخر کار جب خرم اور ڈرائیور عنصر مجھ سے دستخط کرانے میں ناکام ہو گئے تو میرا موبائل اور گاڑی کے چابی لے کر میری گاڑی چوری کرکے فرار ہو گئے۔انہوں نے جاتے وقت میرے فلیٹ کو باہر سے کنڈی لگادی۔جو ان کے جانے کے تقریبا ایک گھنٹے بعد میرے والد کے ایک پرانے دوست انکل الطاف اپنے بیٹے جہانزیب کے ساتھ کھانا دینے آئے تو انہوں کنڈی کھول کر ہمیں حبس بے جا سے نجات دلائی۔

جبکہ میرا فون جاتے ہوئے گھر کے کوریڈور میں پھینک گئے۔
ایمن طاہر نے اس سارے وقوع کے بعد اگلے یعنی 15اگست کی صبح کو تھانہ گڑھی شاہو لاہور میں اپنے شوہر خرم پرویز اور اس کے ڈرائیور عنصر کیخلاف تشدد اور گاڑی چوری کا مقدمہ درج کرایا ۔تاحال پولیس نے ابھی مقدمے میں نامزد ملزمان کیخلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک پڑھا لکھا سرکاری افسر اپنی بیوی پر اسطرح بہیمانہ تشدد کرے تو چوک چراہوں میں کھڑے خواتین کو چھیڑنے والے آوارہ گردوں میں کیا فرق رہے گا۔

پنجاب کے چیف سیکرٹری تو مرد ہیں لیکن ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب ارم بخاری ایک خاتون ہیں ان کو چاہیے کہ اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھیں ۔ایمن طاہر کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کریں ۔اگر ایمن طاہر کے الزامات درست ہیں تو خرم پرویز کیخلاف بلا کسی رعایت کے کاروائی عمل میں لائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :