چاچا حنیف چائے والا

جمعہ 27 اگست 2021

Saif Awan

سیف اعوان

اگر کسی حکومتی وزیر،مشیر ،ترجمان یا عام شہری نے ملکی صورتحال یا عوام کو درپیش مسائل کے متعلق رائے عامہ لینی ہوتو اپنے محلے کے کسی جنرل سٹور یا چائے کی دکان پر ایک دو گھنٹے جاکر بیٹھ جائے ۔آپ کو پتہ چل جائے گا عوام حکومت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ۔لاہور شہر کے پرانے محلوں میں آج بھی چائے والی دکانوں پر آپ کو اکثربزرگ حضرات بیٹھے ملیں گے یا تو تاش کھیلنے یا سیاسی بحث کرتے سارا دن گزار دیں گے۔

گزشتہ روز مجھے میری ایک بہت پیاری بہن ثناء باجوہ نے کہا کہ بھائی آپ اکثر سیاسی تجزیے کرتے ہیں کبھی عوام کے رائے بھی معلوم کریں وہ حکومت کے متعلق کیا کہتی ہے۔لہذا میں ثناء کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان اورآپ سب کے ساتھ بھی شیئر کرتا ہوں کہ عوام موجودہ حکومت کے متعلق کیا سوچتی ہے۔

(جاری ہے)

میرے ایک کزن سفیان کا جنرل سٹور ہے میں رات کے وقت اکثر اس کے پاس جاکر بیٹھ جاتا ہوں۔

گزشتہ تین چار ماہ سے سفیان مسلسل پریشان ہے ۔وہ مجھے ہر دوسرے دن بتاتا ہے کہ بھائی آج گھی پانچ روپے پھرمہنگا ہوگیا چینی کی بوری پچاس روپے مہنگی ہو گئی ہے۔سرخ مرچ تیس روپے مہنگی ہوگئی ہے اور کبھی بیسن اور دالیں مہنگی ہونے کا شکوہ کرتا ہے ۔ظاہر سی بات ہے میں جب مارکیٹ مہنگی چیز لے کر آؤ گا تو سستی کیسے فروخت کروں گا۔عدالت نے کہا چینی ستر روپے کلو فروخت کی جائے لیکن مارکیٹ میں چینی پھر بھی ہمیں نوے سے 95روپے کلو ملتی رہی اور ہم مجبورا سو روپے کلو فروخت کرتے رہے۔

چینی اور گھی کا ریٹ ہر تین دن بعد اوپر نیچے ہوتا ہے ۔اگر میں گاہک کو کہوں کہ آج فلاں کمپنی کا گھی 280روپے کا ہے تو وہ آگے سے لڑائی کرتا ہے کہ میں کل 275کا لے کر گیا تو ایک دن میں پانچ روپے اچانک کیسے مہنگا ہوگیا۔میں تو اس کام سے تنگ آچکا ہوں۔مارکیٹ سے مہنگی چیز خرید کر لاؤ اور گاہکوں سے بھی الگ لڑائی و بحث کرو۔ایک دن میں حسب معمول سفیان کے سٹور پر بیٹھا تھا کہ ایک خاتون آئی اس کاخاوند کسی موذی مرض میں مبتلا ہے وہ سفیان کے سٹور سے ہی چیزیں خرید کر اپنے گھر میں ہی بچوں کو فروخت کرتی ہے ۔

اس خاتون نے مجھے بتایا کہ میں ہر ماہ اپنے شوہر کی دوائی پر کم از کم دس سے پندرہ ہزار روپے خرچ کرتی ہوں پہلے میرا گزارا ہوجاتا تھا لیکن اب ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے لوگ مجھ سے چیزیں خریدنے کی بجائے بڑی دکانوں پر چلے جاتے ہیں ۔اب تو ان کی دوائی دور کی بات گھر کا خرچ چلانا بھی میرے لیے مشکل ہو گیا۔
آئیں اب چلتے ہیں چائے والے کی دکان پر،میں جس دن کام سے جلدی فری ہو جاؤ تو لاہور موچی دروازے چاچے حنیف کی چائے کی دکان پر چلا جاتا ہوں ۔

میں ویسے چائے نہیں پیتا لسی اور دہی کھانے کا شوقین ہوں ۔چاچا حنیف ویسے میرے اب دادا کی عمر کے ہیں لیکن سب ان کو پیار سے چاچا حنیف کہتے ہیں تو میں بھی چاچا ہی کہہ لیتا ہوں۔ان کی دکان پر میں ایک یا آدھا گھنٹہ صرف دکان میں بیٹھے بزرگ حضرات کی باتیں سننے جاتا ہوں۔لاہور کا اندرون شہر اور سیاست پر گفتگو نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔لاہور آج سے نہیں گزشتہ کئی صدیوں سے برصغیر پاک و ہند کی سیاست اور طاقت کا مرکز رہا ہے۔

ماضی میں مغل،رنجیت سنگھ اور انگریزوں نے لاہور کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔لاہور ہر دور میں خظے کی سیاست میں اپنا اولین رول رکھتا رہا ہے۔لاہور کے بعد اگر پنجاب کے کسی شہر کو طاقت کا محور تصور کیا جاتا تھا تو وہ ملتان تھا۔اگر آپ کا کبھی ملتان جانا نے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ کو یقینا ملتان شہر بھی بالکل لاہور کے اندرون شہر جیسا دیکھنے کو لگے گا۔

ملتان میں بھی لاہور اندرون شہر کی طرح تاریخی دروازے اور اولیاء کرام کے مزارات ملیں گے۔بات دور نکلتی جارہی ہے ۔واپس چاچے حنیف کی چائے والی دکان پر چلتے ہیں ۔یہاں بیٹھے اکثر بزرگ حضرات زیادہ تر ریلوے اور دیگر سرکاری محکموں سے ریٹائرڈ ہیں ۔ان کا گزر بسر پنشن پر ہی ہوتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ جیسی مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے ان کا گزرا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔

یہاں بیٹھے زیادہ لوگوں کی رائے ایک ہی ہوتی ہے کہ عمران خان کو کرکٹ کے بعد سیاست میں لانے والوں نے تاریخی غلطی کی ہے ۔اور اوپر سے اس کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا ہے۔تین سالوں سے ایک ہی بات کررہا ہے کہ مجھے اندازا ہے ملک میں کتنی مہنگائی ہے اور میں مہنگائی کم کرنے کیلئے کوشش کررہا ہوں۔ملک چلانا اور مہنگائی کنٹرول کرنا عمران خان کے بس کی بات نہیں ہے۔

چینی والے،گھی والے،ملوں والے ،کپڑے والے ،گندم والے اور سرمایہ دار عمران خان کے یا وزیر ہیں یا اس کے فنانسر ہیں یا اس کے دوست ہیں تو یہ مہنگائی کیسے کنٹرول کرے گا۔اب عوام عمران خان کو کم اور اس کے لانے والوں کو زیادہ گالیاں نکال رہے ہیں ۔ہم نے تو اپنی عمر گزار لی ہے لیکن اپنی پوری زندگی میں پاکستان میں ہم نے اتنی مہنگائی اور غربت نہیں دیکھی جتنی اس کھلاڑی کے دور میں ہوئی ہے۔

یہ سب باتیں ایک جنرل سٹور والے اورچائے والے کی دکان پر آنے والے گاہکوں کی ہیں ۔اگر آپ باہر مارکیٹ میں نکلیں تو لوگوں کے عمران خان اور اس کو لانے والوں کے متعلق بھی تاثرات کچھ مختلف نہیں ہیں ۔اب بس لوگ دعائیں مانگ رہے ہیں کہ یااللہ یہ بس کسی طریقے سے باقی دو سال پورے کرکے ملک کی جان چھوڑ دے۔تین سال سے خان صاحب اگر اپنی حکومت کی سمت درست نہیں کرسکے تو آنے والے دو سالوں میں بھی نہیں کرسکیں گے۔

کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ فیصلہ سازی کا فقدان اور پکردھکڑ کا جاری سلسلہ ہے۔اگر آئندہ دو سالوں میں بھی یہی صورتحال رہی تو عمران خان کا دوباہر اقتدار میں آنا ناممکن ہوگا۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ عمران خان اپنے گزرے تین سالوں کا بغور جائزہ لیں اور جن فیصلوں کی وجہ سے ملک میں افراتفری اور مہنگائی بڑی ہے ان پر نظر ثانی کریں ۔ورنہ آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کو امیدوار بھی نہیں ملیں گے اور نہ عوام ان کو ووٹ دینگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :