برطانوی صحافی لورین بوتھ اور ایوان ریڈلی کی باحجاب زندگی کی جانب سفر کی کہانی

پیر 6 ستمبر 2021

Sajida Farheen Farhee

ساجدہ فرحین فرحی

نہ جانے کس وقت میرا اللہ سے ربط قائم ہوا اور میں نے اسلام کوجاننے کی جدوجہد مزید تیز کردی۔میں نے نہ کبھی مسلمان ہونے کا سوچا تھا اور نہ ہی کبھی اسلامی کتب کا مطالعہ کیا تھا بس میں کچھ عرصے سے مسلمانوں اور ان کی معاشرت سے وابسطہ تھی اپنی صحافیانہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے پیش نظر فلسطین جانا ہوا انتخابات کی کوریج کے لیے ائیر پورٹ پر اسرائیلی حکام نے میرا سوٹ کیس اپنے قبضے میں لے لیا حتیٰ کہ میرا کوٹ بھی، میں شدد سردی میں فلسطین کے علاقے ویسٹ بنک(مغربی کنارے)داخل ہوئی برطانوی اخبار دی میل کے لیے 2005 کے صدراتی انتخابات کی کوریج کرناتھی ایسی حالت میں مجھے رام اللہ کے علاقے میں ایک بوڑھی خاتون ملی وہ میرا ہا تھ پکڑ کر اپنے گھر کے اندر لے آئی اور الماری سے ایک کوٹ اور حجاب نکال کر دیا اور میرے سر پر بوسہ دے کر مجھے رخصت کردیا نہ وہ مجھے جانتی تھی اور نہ ہی میری زبان مگر اسکا یہ حسن سلوک میرا اسلام کی جانب متوجہ ہونے کا پہلا موقع ثابت ہوا اور وہ فلسطینی خواتین اسلام سے میری انسیت کا سبب بنیں۔

(جاری ہے)

سر سے پاؤں تک برقعے میں ڈھکی مسلم عورت جو خوبصورتی دنیا کے نامحرموں سے چھپا کر رکھتی ہے جبکہ مغربی دنیا میں جو عورت اپنی جتنی نمائش کرتی ہے اتنے ہی معاشرتی فوائد سمیٹ سکتی ہے اور جب میں 2007 میں لبنان گئی تو وہاں کچھ دن یونیورسٹی کی طالبات کے ساتھ گزارے جو سب با حجاب تھیں سر کے بالوں سے لیکر پاؤں کے ناخن تک مکمل پردے میں وہ سب انتہائی خوبصورت تھیں اور ساتھ ساتھ خود مختار اور صاف گو بھی ۔

بہادر و نڈر لڑکیاں مجھے ویسی بالکل بھی نہ لگیں جیسا تصور مغربی اخبارات ایک مسلم عورت کا پیش کرتے ہیں۔جب میرا اس مسلم معاشرے میں میل جول بڑھا تو اسلام سے واقفیت بھی بڑھتی گئی قرآن سے آگاہی بھی حاصل کرنی شروع کی اور پھر مسلم امہ کی محبت و خلوص مجھے اتنا ملا کہ سمیٹنا مشکل ہوگیا اور ایک دن میں بھی اس دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی اور پھر میں نے لباس بھی ایک مسلم عورت والا منتخب کیا۔

میرے خیال میں جب ایک عورت حجاب کرتی ہے تو اُسے بالوں کی آرائش کے لئے زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا جب میں نے حجاب کرنا شروع کیااس وقت سردی کا موسم تھا مجھے زیادہ مشکل نہیں ہوئی ہاں مگر گرمیوں میں حجاب کرنا واقعی ہمت کا کام ہے اور میں برقعے کو ایک موزوں لباس سمجھتی ہوں۔جب میں نے حجاب کرنا شروع کیا تھااس دوران مجھے اپنے پیشے کے حوالے سے بھی تشویش لاحق ہوئی کہ حجاب پہن کر کیا میں اپنی موجود ہ پوزیشن برقرار رکھ پاؤں گی لیکن پھر میں سوچا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اسلام کے کچھ اصول تو اپنا لوں اور کچھ کو چھوڑ دوں لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسلام کو اپنے اندر پورا کا پورا سمو لینے کی کوشش کرونگی۔

یہ آپ بیتی اور قبول اسلام کی سرگزشت سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کی بیگم کی بہن یعنی سالی لورین بوتھ کی ایک بے باکانہ زندگی سے ایک باحجابانہ زندگی کی طرف سفر کی ہے جو برطانوی صحافی ہیں۔اس سے پہلے برطانوی صحافی ایون ریڈلی بھی اسلام قبول کرکے مغربی دنیا میں اسلام کی سفیربن چکی ہیں ایون ریڈلی نے مغرب میں اسلام اور حجاب کے متعلق پیدا کیے گئے غلط اور منفی پرو پگنڈا کا بھر پورجواب دیا۔


برطانوی صحافی ایون ریڈلی ستمبر 2000 میں افغانستان میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہو ئیں اس کوشش کے دوران اس وقت کی طالبان حکومت نے انہیں قید کرلیا مگر اس قید کے دوران طالبان کے حسن سلوک اور انکی شرافت نے ایون ریڈلی کے وہ خیالات تبدیل کر دیے جو اسلام مخالف قوتوں نے پھیلائے تھے۔اکتوبر میں رہائی کے بعد برطانوی صحافی ایون ریڈلی نے دنیا کو بتایا کہ میں نے اپنی گذشتہ ساری زندگی خود کو لندن میں اتنا محفوظ نہیں پایاجتنا طالبان کے ساتھ گذارے گئے قید کے دوران محسوس کیا۔

وہ طالبان دنیا جن کو وحشی درندے ظاہر کرتی تھی اُنھوں نے میرا قید کے دوران بہت عزت و احترام کیا ۔ ایون ریڈلی اپنی کتاب ''(In The Hand of The Taliban) میں لکھتی ہے کہ وہ نیلی آنکھوں والے مجھے اپنی بہن کہہ کر مخاطت کرتے میری جانب آنکھ اُٹھا کر دیکھتے بھی نہ تھے۔ایون ریڈلی نے واپس برطانیہ پہنچ کر سب سے پہلے قرآن کا مطالعہ شروع کیا جس کے بعد وہ بالآخر دائراہ اسلام میں داخل ہوگئیں اور باحجاب زندگی گذارنے لگیں۔

برطانوی صحافی ایون ریڈلی نے کہا اسلام وہ نہیں جو ٹونی بلےئر یا مغربی میڈیا بتا رہا ہے بلکہ اسلام وہ ہے جو قرآن میں لکھا ہے۔
برطانوی صحافی ایوان ریڈلی طالبان کی قید کے بعد قبول اسلام کی سرگزشت کچھ اسطرح بیان کرتی ہیں
“اگر کسی اور قوم کی قید میں ہوتی تو میرا حال گوانٹاناموبے او رابو غریب جیل کے قیدیوں جیسا ہوتا، مجھے اسلام کی دشمنی افغانستان لے گئی، مگر اسلام میری آخری تمنا بن گیا” ایوان ریڈلی وہ برطانوی صحافی خاتون ہیں جو 28 ستمبر2000ء کو خفیہ طور پر افغانستان میں داخل ہوتے ہوئے طالبان کی قید میں چلی گئی تھیں اور 10 دن تک طالبان کی قید میں رہیں۔

اسی قید نے انہیں کفر کی زندگی سے آزادی دلوائی۔۔
قید سے آزاد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور عیسائیت کو ترک کرکے اسلام قبول کر لیا۔ آج کل وہ اسلام اورامت مسلمہ کے مسائل کی انتہائی سرگرم ترجمان ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں جدھر بھی جاؤں اسلام کی روشنی پھیلا دوں اور اسلام کے لیے لوگوں نے جو تعصب کی آ گ پھیلا دی ہے اسے بجھادوں۔

ون ریڈلی لندن کے اخبار”سنڈے ٹائمز“ میں ایک صحافی کی حیثیت سے کام کرتی تھیں۔ جب امریکی وبرطانوی فوج کی طرف سے افغانستان پر حملہ ہونے والا تھا تو رپورٹنگ کے لیے انہوں نے اپنے اخبار کو افغانستان جانے کی پیش کش کی۔۔
پاکستان پہنچنے کے بعد انہوں نے افغانستان کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر کامیابی نہ ملی، لیکن انہوں نے افغانستان جانے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا، اس لیے ایک افغانی کی مدد سے جعلی شناختی کارڈ بنواکر وہ افغانستان میں داخل ہوگئیں۔

ان کا گائیڈ جب ان کو اپنے گاؤں لے کر گیا تو وہاں کے لوگوں نے بڑی محبت سے ون ریڈلی کا استقبال کیا۔ گاؤں والوں کو جب یہ پتا چلا کہ ریڈلی ایک مغربی عورت ہے تو وہ ڈر گئے، کیوں کہ وہاں بلا اجازت غیر ملکیوں سے رابطہ رکھنا جرم تھا لیکن اپنی روایتی میزبانی نے ان کو ریڈلی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان کی میزبانی سے فارغ ہو کر ریڈلی اپنے گائیڈ کے ساتھ وہاں سے آگے روانہ ہو گئیں۔

کچھ دور وہ دونوں پیدل چلے، اس کے بعد گائیڈ نے ون ریڈلی کو خچر پر سفرکرنے کو کہا۔ ریڈلی نے سوچا پہاڑی راستے پر چلنے سے بہتر ہے کہ وہ خچر پر بیٹھ جائیں۔ ان کے خچر پر بیٹھتےہی وہ بد کا اور اس نے دوڑ لگا دی اورکچھ دور جاکر رک گیا۔۔
ریڈلی نے دیکھا کہ وہاں مقامی لباس میں ملبوس ایک مسلح شخص کھڑا ہے، وہ ایک خوب صورت نوجوان تھا، جس کے چہرے پر داڑھی تھی ، وہ ریڈلی کے گلے میں جھولتے کیمرے کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ وہ ایک صحافی ہیں۔

اس شخص جس کا مجھے کچھ دیر بعد علم ہوا کہ وہ طالبان فوجی ہے نے کیمرہ ان سے لے لیا اور خچر سے اترنے کو کہا ، اسی اثنا میں وہاں پر اور بھی مسلح طالبان آگئے۔ ایوان ریڈلی کہتی ہیں کہ ” میں نے سوچا اس وقت میں دنیا کے سب سے ظالم اور شیطان طالبان کی قید میں ہوں ، اب پتہ نہیں وہ میرا کیا حشر کریں گے؟ “ مسلح لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے، لیکن نہ کسی نے انہیں ہاتھ لگایا اور نہ کسی نے ان سے کوئی بات کی ۔

پھر ان کو اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر وہ آگے بڑھے۔ ایک مقام پر رک کر کھڑے ہو گئے ، وہاں پر بہت سے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ ریڈلی نے سوچا شاید ان کو سنگسار کیا جائے گا۔ اتنے میں شور اٹھا، ایک آدمی ایک خاتون کے ساتھ ادھر ہی آرہا تھا۔ اس عورت نے آتے ہی ون ریڈلی کے جسم کو ٹٹولنا شروع کیا۔ پتہ چلا کہ یہ لوگ یہاں رک کر اسی عورت کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ آکر اس کی تلاشی لے سکے۔

۔
ریڈلی کہتی ہیں کہ اس وقت میں نے سوچا کہ میں دنیا کے مہذب ترین ملک کی شہری ہوں، لیکن وہاں کسی عورت کی جامہ تلاشی کے لیے اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا، یعنی عموماً مرد سیکورٹی اہلکار ہی خواتین کی جامہ تلاشی لیتے ہیں اور یہ دنیا کے سب سے جاہل اور ظالم فوجی اس بات کا خیال کر رہے ہیں کہ ایک عورت کی جامہ تلاشی مرد نہ لے، بلکہ ایک عورت ہی لے ۔

تلاشی کے دوران ون ریڈلی نے اپنے کپڑے اوپر اٹھا دیے تو وہاں موجود تمام لوگ اپنا چہرہ دوسری طرف کرکے کھڑے ہو گئے۔ گرفتاری کے بعد ون ریڈلی نے اس گروہ کے ایک فرد سے سٹیلائٹ فون کا مطالبہ کیا، تاکہ وہ اپنے گھر اور دفتر والوں کو اپنی گرفتاری کی اطلاع دے سکیں۔ ان کے انکار پر ریڈلی نے بھوک ہڑتال کر دی۔ ون ریڈلی کا خیالی تھا کہ دنیا کی سب سے ظالم فوج کو ان کی بھوک ہڑتال کی کیا پروا ہو گی؟ لیکن وہ لوگ اس کی بھوک ہڑتال سے پریشان ہو گئے اور طرح طرح سے ان کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کی کوشش کرنے لگے ، پھر ایک بزرگ آئے ، وہ ون ریڈلی کو انگریزی میں سمجھانے لگے اور ان کے کھانے سے مسلسل انکار پروہ رونے لگے۔

بھوک ہڑتال کے دوران ایک دن ان کی طبیعت خراب ہو گئی تو ان کے لیے فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ جس فوج کے بارے میں ون ریڈلی نے سن رکھا تھا کہ یہ دنیا کی سب سے ظالم اور شیطانی فوج ہے، ان کے اس رویے سے وہ بہت حیران تھیں۔۔
ایک دن ان کا ترجمان ان کے پا س آیا ،جو انگریزی جانتا تھا، اس نے ان سے کہا کہ ایک بہت بڑی شخصیت ان سے ملنے آرہی ہے ، ترجمان نے ان سے یہ بھی کہا کہ ان سے کوئی بدتمیزی نہ کرنا۔

اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد دروازہ پردستک ہوئی ۔ یہ بھی ایک عجیب بات تھی کہ وہ ایک قیدی تھیں، لیکن دروازہ کھولنے کا اختیار اور چابی انہیں کے پاس تھی ، ون ریڈلی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر وہ تھوڑی خوف زدہ ہو گئیں ، وہ ایک طویل القامت شخص تھا، اس کی لمبی داڑھی تھی اور اس نے لمبا چغہ پہن رکھا تھا، اس کے چہرے سے جیسے ایک نور نکل رہا تھا۔

وہ شخص اجازت لے کراندر داخل ہوا اور ریڈلی کا حال واحوال پوچھنے کے بعد اس نے اس سے اسلام کے بارے میں پوچھا۔ ریڈلی نے سوچا اگر اس کے سوال کا جواب نہ دوں گی تو رہائی مشکل ہو جائے گی، لہٰذا اس نے درمیانی بیان دیا کہ اسلام بہت اچھا مذہب ہے ، اسلام امن اورسلامتی کامذہب ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ تم اسلام کیوں قبول نہیں کر لیتیں ؟ ایوان ریڈلی نے سوچا کہ ابھی اسلام قبول کیا تو سمجھیں گے کہ دباؤ میں اسلام قبول کیا ہے، اس لیے اس نے چالاکی سے کہا کہ اگر مجھے رہا کر دو تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ اسلام اور قرآن کا مطالعہ کروں گی۔

جاتے وقت اس شخص نے کہا، تم ان شاء الله جلد گھر چلی جاؤ گی۔ اگلی صبح کچھ فوجی آئے اور اسے لے کر چلے ۔ ون ریڈلی نے سوچا شاید اسے رہاکیا جارہا ہے، مگر وہ اسے خواتین کے قید خانے میں لے گئے۔
جب وہ وہاں داخل ہوئیں تو اس نے دیکھا کہ وہاں کچھ یورپی خواتین دائرہ بنائے با آواز بلند بائبل کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ انہیں ان کی عبادت سے کوئی نہیں روک رہا تھا، کیوں کہ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو اپنی عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہے، البتہ وہ اپنے دین کی تبلیغ نہیں کرسکتے۔

ون ریڈلی نے سگریٹ پینا چاہا تو ان خواتین نے بتایاکہ نو اسموکنگ ایریا ہے، یہاں مرد اور عورت کوئی سگریٹ نہیں پیتے۔ ایک دن ون ریڈلی نے ایک افسر کے سامنے تھوک دیا، افسروں کو برا بھلا کہنا تو اس کا معمول تھا، ون ریڈلی کو لگا کہ تھوکنے کی وجہ سے اسے سزائے موت ضرور دے دی جائے گی۔ ایک شخص نے کہا کہ تم نے ہمارے لیڈر کے ساتھ بدتمیزی کی ہے، جس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی اور تمہاری سزا یہ ہے کہ آج سبھی قیدی اپنے اپنے گھر فون کریں گی، مگر تمہیں فون کرنے کی اجازت نہیں ملے گی ۔

دنیا میں مشہور ”ظالم“ حکومت نے یہ سزا اسے دی تھی۔ ون ریڈلی اپنی قید کے دوران ہوئے ایک دلچسپ واقعہ کو اس طرح سناتی ہیں کہ ” ہماری جیل میں مرد کم ہی آتے تھے، بس قید خانہ کے دروازہ پر مرد پہرے دار رہتے تھے۔ ایک بار میں نے اپنا زیر جامہ دھو کر سکھانے کے لیے قید خانے کے ایک حصے میں پھیلا دیا۔ کچھ دیر بعد ایک افسر میرے پاس آیا اور زیر جامہ وہاں سے ہٹانے کو کہا، میں نے ہٹانے سے صاف انکار کر دیا، اس پر انہوں نے ایک کپڑا اس کے اوپر ڈالوا دیا، لیکن مجھے انہیں پریشان کرنے میں مزا آتا تھا، میں نے وہ کپڑا اوپر سے ہٹا دیا اور کہا ، تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے، اگر ان کے اوپر کپڑاڈال دو گے تو یہ خشک کیسے ہو گا؟ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا ایک شخص میرے پاس آیا، تعارف کرایا گیا کہ یہ افغان نائب وزیرخارجہ ہیں۔

انہوں نے بھی مجھ سے میرے زیر جامہ وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہاں ہمارے پہرے دار ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے انہیں فاسد خیالات آسکتے ہیں ۔ اس وقت میں سوچتی رہی کہ یا خدا! یہ کیسے لوگ ہیں؟ چند گھنٹوں بعد امریکا وبرطانیہ بھرپور طاقت کے ساتھ ان کے ملک پر حملہ کرنے والے ہیں اور یہ صرف اس خوف سے مجھ سے میرے کپڑے ہٹانے کے لیے گفتگو کرنے آرہے ہیں کہ کہیں ان کے پہرے داروں کے دل میں فاسد خیالات نہ آجائیں۔

امریکی حملے کے دوسرے روز طالبان فوجی ریڈلی کے پاس آئے اورکہا کہ ہم تمہیں حفاظت کے ساتھ پاکستان پہنچا دیتے ہیں ۔
ریڈلی حیران تھیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں،موت ان کے سروں پر کھڑی ہے اور یہ اسے حفاظت سے یہاں سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں؟ اس کے بعد وہ بحفاظت اُسے سرحد تک لائے اور پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا۔ اگر کسی اور قوم کی قید میں ہوتی تو میرا حال گوانٹاناموبے اور ابو غریب جیل کے قیدیوں جیسا ہوتا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا حال دیکھ کر وہ الله کا شکر ادا کرتی ہیں کہ وہ امریکا کی قید میں نہیں تھیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ون ریڈلی نے ان کی بہن فوزیہ صدیقی کے ساتھ کئی بار پریس کانفرنس میں حصہ لیا۔
ریڈلی نے قید کے دوران طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ رہا ہونے کے بعد قرآن کریم کا مطالعہ کروں گی اس لیے آزادی نصیب ہونے کے بعد انہوں نے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا، ساتھ ہی اسلام میں انسانی حقوق اور عورت کے مقام کو بھی جاننا شروع کیا، طویل مطالعہ کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ اسلام وہ واحد دین ہے جس نے عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دیے ہیں۔

ون ریڈلی جون2002ء میں کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام کے دائرے میں شامل ہو گئیں۔
ایوان ریڈلی کہتی ہیں کہ مجھے اسلام دشمنی کے لیے افغانستان بھیجا گیا تھا، مجھے کیا پتہ تھا کہ اسلام میرے لیے آخری تمنا بن جائے گا اورمیری زندگی اسلام کے لیے وقف ہو جائے گی۔ الله تعالیٰ میرا حامی وناصر ہو اورمجھے راہ حق پر قائم رکھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :