شاہینوں کا شہر(سرگودھا)

ہفتہ 4 جولائی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

یوں تو میرا تعلق سرگودھا شہر کی تحصیل کوٹمومن کے ایک چھوٹے سے قصبے کوڑے کوٹ سے ہے لیکن میرا اور میرے قصبے کا اس عظیم شہر(سرگودھا) کا حصہ ہونا ہمارے لئے بہت فخر کی بات ہے شہر سرگودھا جس کی قدر و منزلت سے کون واقفیت نہیں رکھتا لیکن اپنے شہر کا تعارف میں اپنے لفظوں میں ضرور بتانا چاہوں گا تاریخ میں آتا ہے کہ سرگودھا شہر انگریز راج میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتا تھا جس کے وسط میں ایک تالاب ہوا کرتا تھا بعض روایتوں کے مطابق تالاب نہیں بلکہ کنواں بتایا جاتا ہے جس کے گرد وہاں سے گزرتے لوگ چند پل کے لئے آرام کیا کرتے تھے اور خود کو پانی سے سیراب کیا کرتے تھے اس تالاب/کنویں کا مالک ایک سادھو تھا جسکا نام گودھا تھا چونکہ تالاب کو فارسی زبان میں سر کہتے ہیں اس لئے دونوں کو ملا کر اس قصبہ کا نام سرگودھا رکھ دیا گیا بعدازاں اس تالاب کی جگہ ایک گول مسجد بنا دی گئی جسے گول مسجد کا نام دے دیا گیا آجکل اس مسجد کے نیچے ایک مارکیٹ واقع ہے اور اس جگہ کو گول چوک/گول مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے سرگودھا پاکستان کے منصوبہ کے تحت بنائے گئے تین بڑے شہروں فیصل آباد،اسلام آباد میں سے ایک ہے سرگودھا کا شمار پاکستان کے گیارہ بڑے شہروں میں ہوتا ہے شروع میں سرگودھا شاہ پور کی تحصیل ہوا کرتا تھا جبکہ آج شاہپور سرگودھا کی تحصیل گردانا جاتا ہے انگریز راج میں سرگودھا کی جغرافیائی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہاں ایک فوجی اڈا قائم کیا گیا جو کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی پاک فضائیہ کے لئے مزید اہمیت اختیار کر گیا سرگودھا شہر کو چار چاند لگانے کا سہرا سرگودھا کے پاک فضائیہ کے شاہینوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنے جذبوں اپے بلند حوصلوں سے چند پلوں میں دشمن کا سر قلم کر کے نہ صرف اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کیا بلکہ اپنے شہر(سرگودھا) کے نام کا ڈنکا نہ صرف اپنے  ملک میں بلکہ پوری دنیا میں بجایا جو کہ رہتی دنیا تک بجتا رہے گا 1965 کی پاک بھارت جنگ میں سرگودھا شہر کے پاک فضائیہ شاہین ایم۔

(جاری ہے)

ایم۔عالم نے دو سے تین سیکنڈوں میں دشمنوں نے کئی لڑاکو طیارے مار گرا کا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا جو کہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا پاک فضائیہ کے ان نوجوانوں کی خدمات کے پیش نظر پاکستان کے تین بڑے شہروں لاہور سیالکوٹ اور سرگودھا کو ہلال استقلال سے نوازا گیا جو کہ سرگودھا شہر کے لئے بہت ہی فخر کی بات ہے اور رہے گی سرگودھا شہر میں واقع پاک فضائیہ کی ائیر بیس پاکستان میں واقع تمام تر بیسز میں سے سب سے سیف(محفوظ) بیس تسلیم کی جاتی ہے کیونکہ اس بیس اور ہمارے دشمن ملک انڈیا کے مابین کرانا پہاڑیوں کا ایک وسیع و وعریض سلسلہ واقع ہے جو سرگودھا سے چودہ کلومیٹر کے فاصلے سے شروع ہو کے فیصل آباد ڈویژن کے ایک شہر چنیوٹ تک پھیلا ہوا ہے اگر بالفرض دشمن ملک انڈیا ہماری سرگودھا بیس پر اپنے مزائل کا حملہ نچلی سطح پر نشانہ لگا کر کرتا ہے تو وہ مزائل ان پہاڑیوں کو لگ کر رستے میں ایک نیست و نابود ہو جائے گا اور اگر بالفرض اپنے مزائل کو اوپری سطح پر نشانہ لگا کر فائر کرے گا تو وہ بنا ائیر بیس کو نقصان پہنچائے آگے کو نکل جائے گا
جہاں ایک طرف سرگودھا شہر کی پاک فضائیہ اپنی مثال آپ ہے وہیں دوسری طرف سرگودھا شہر کی مٹی کے پیدا کردہ ادیب بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں جن میں سر فہرست ہمارے مایہ ناز شاعر وصی شاہ ندیم قاسمی شامل ہیں جنہوں نے اپنی خدادا صلاحیتوں سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں اپنے ہنر کا لوہا منوایا جنکی صلاحیتوں اور جنکے ہنر کے آگے پوری دنیا نے سر تسلیم خم کیا
سرگودھا سے چودہ کلومیٹر دور پھیلی کرانہ پہاڑیوں کے بارے میں ہندؤوں کی کتابوں میں کچھ یوں لکھا گیا ہے کہ جب راون نے سیتا کو اغواء کیا تب ہنومان جی نے سیتا کو بچانے کے لئے راون کا پیچھا کیا اور یہاں پانی میں خود کے لئے خشکی بنانے کے لئے راہ بنانے کے لئے دور دراز سے پہاڑیاں اٹھا اٹھا کر لاتے رہے جن کے آپس میں جڑنے سے یہ پہاڑیوں کا سلسلہ بنا لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناطے ان تمام تر افواہوں پر یقین کر کے ہم اپنا ایمان خراب نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا ایمان ہے اس دنیا و جہاں میں ایک چیٹی سے لے کر پہاڑ تک انسان سے لے حیوان تک اول سے لے کر آخر تک سب کی سب مخلوق اللہ تعالی کی کن کی پیدوار ہے اللہ کی مخلوق ہے ایسے میں ایسی شرک آمیز باتوں پر یقین رکھنا بالکل ایمان کے منافی بات ہو گی
سرگودھا شہر کی شہرت کی ایک اور سب سے اہم وجہ اس شہر کی پیداوار اسکا پھل (سنگترہ) یعنی کنو مالٹا ہے جو نہ صرف پورے پاکستان میں بہت شوق سے کھایا اور اگایا جاتا ہے بلکہ سرگودھا شہر کے نواحی گاؤں مٹیلہ کا کنو بیرون ملک میں بھی شوق سے پسند کیا جاتا ہے اور کھایا جاتا ہے پاکستان کے نواحی شہر جہاں کی زمین کنو اگانے کے لئے مناسب نہیں وہاں کے لوگ سرگودھا شہر میں بسنے والے اپنے سنگی ساتھیوں کے پاس کنو کے موسم میں کنو کھانے بہت شوق سے آتے ہیں اور یہاں کی گرینری اور قدرتی مناظر سے خود کو مسرت بخشتے ہیں صرف کنو ہی نہیں سرگودھا شہر میں مکئی گندم جو جوار باجرہ تربوز امرود اور کئی قسم کے پھل فروٹ اور سبزیاں بھی کاشت کی جاتی ہیں جنکے تیار ہونے کے بعد انھیں مختلف چیزوں پر لاد کر منڈیوں اور بازاروں میں لے جا کر بیچا جاتا ہے اور منافع کمایا جاتا ہے
جہاں ایک طرف سرگودھا میں لانچ ہوئی میکڈونلڈ کی شاخ نے سرگودھا میں بوچھال برپا کیا ہے وہیں دوسری طرف ہمارے شہر سرگودھا میں واقع خیام چوک سینما کے سموسے بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں اس لئے اگر آپ کبھی ہمارے شہر سرگودھا تشریف لائیں تو خیام چوک سینما کے سموسے ضرور کھائیں
سرگودھا شہر میں واقع ڈیجیٹل اور ہائی لیٹیسٹ ٹیکنالوجی مشینری سے لیس کئی سو ہسپتال ہمارے شہر کی ساکھ کو بہت ہی مضبوطی سے جوڑے ہوئے ہیں کیونکہ بیماری انسان کو بتلا کر نہیں آتی اس لئے ہمیں سب سے پہلے بیماری سے نپٹنے کے لئے اسکا حل ضرور نکال لینا چاہیے تا کہ بروقت کام آ سکے اور بیشک ہسپتال ہر شہر ہر قصبہ ہر ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہیں ہمارے شہر کے سب سے بڑے ہسپتالوں میں پ۔

ی ایف ہاسپٹل سی۔ایم۔ایچ ہاسپٹل مبارک ہاسپٹل رحمن ہاسپٹل اور فیضی ہاسپٹل جیسے کئی مشہور و معروف ہاسپٹل شامل ہیں
سرگودھا شہر میں واقع ہائی سٹینڈرڈ اسکول و کالجز اور ہوٹلز کے دن بدن بڑھتے کمپییٹیشن نے سرگودھا شہر کو بہت مصروف کر دیا ہے سرگودھا شہر کے ٹاپ ترین اسکولز میں بیکن ہاؤس سر فہرست شامل ہے اور اگر کالجز کی بات کی جائے تو پنجاب گروپ آف کالجز،دی سپیریئر کالج اور دی ریڈر لالج سر فہرست ہیں سرگودھا شہر میں واقع یونیورسٹی آف سرگودھا کا شمار پنجاب کی ان ٹاپ ترین یونیورسٹیز میں ہوتا ہے جنہوں نے بہت ہی کم وقت میں اپنی ایک الگ پہچان اپنی ایک الگ ساکھ قائم کی
سرگودھا شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں تخت ہزارہ جو کہ ہمارے گاؤں کے نزدیک واقع ہے بہت مشہور ہے کیونکہ ہمارے ہاں کی مشہور داستان ہیر رانجھا کے رانجھے کا تعلق اس تخت ہزارہ سے تھا۔

۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :