
سہ فریقی اتحاد
پیر 29 جولائی 2019

سلمان احمد قریشی
(جاری ہے)
دونوں سربراہان مملکت اس بات پر متفق ہیں کہ مسلم دنیا کو غیروں کی غلامی سے نجات دلانا نہ گزیر ہو چکا ہے۔ تمام مسلم ممالک کو ترقی یافتہ ہونا چاہئے اس لئے تینوں مسلم ممالک مل کر کام کریں تا کہ دفاع سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھایا جا سکے۔ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ترکی اسلامی دنیا کا نجات دہندہ تھا آج اسلامی دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو اسلامی دنیا کے تحفظ کیلئے کھڑا ہو سکے۔جمعہ کے روز ترک صدر رجب طیب اردوان نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو ٹیلی فون کیا جس میں مجوزہ سہ فریقی اتحاد اور آئندہ کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات پر بھی گفتگو کی۔ ترک صدرنے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کی مذمت اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا۔افغانستان کے امن اور مصالحت کیلئے پاکستان کے کردار پر ترک صدر کی حمایت کو سراہا۔ وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں مجوزہ اتحاد کا خیر مقدم کیا۔انہوں نے لکھا پاکستان اور ترقی پہلے ہی امہ کے اتحاد کیلئے کام کر رہے ہیں او آئی سی مکہ کانفرنس کے موقع پر تینوں ممالک کے وزارتی اجلاس میں شرکت اتحاد کا پیش خیمہ ہے۔
ترکی عالم اسلام کا ایک مضبوط ملک ہے اور ترکی کا کردار امت مسلمہ کیلئے امید کی کرن ہے۔ علاقائی اتحاداور اقتصادی تعاون کے بغیر ترقی کا تصور اب ممکن نہیں، امت مسلمہ دنیا کی کل آبادی کا 24.8%ہے اور اسلام بطور تعداد دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔1.92بلین افراد پر مشتمل آبادی اسلامی ممالک کا حصہ ہے۔ دنیا میں 56مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔
مسلم آبادی کے لحاظ سے انڈو نیشیا دنیا کا سب سے بڑا ملک جبکہ پاکستان دوسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان میں کل مسلم آبادی کے 11%لوگ آباد ہیں۔غیر عرب ممالک میں ترکی سب سے بڑے مسلم اکثریت والے ممالک میں شامل ہے۔پاکستان کی آبادی 204,818,034ہے۔ ترکی کی آبادی 83,026,334 جبکہ ملائشیا 31982197 ہے۔ اتنی بڑی آبادی کا اتحاد خطے کے دیگر ممالک کیلئے بھی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ثابت ہو گا۔ OICمسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم ہے مگر یہ اقتصادی بلاک بن کر سامنے نہیں آسکا۔ رکن ممالک کے اپنے علاقائی اختلافات بھی ہیں اور تنظیم بین الاقوامی مسائل کے حل میں موثر کردار بھی ادا نہیں کر سکی۔1962ء میں پاکستان ایران اور ترکی پر مشتمل اتحاد RCD قائم ہوا جو 1979ء میں غیر موثر ہو گیا۔1985ء میں ECO(اقتصادی تعاون تنظیم)ایران پاکستان اور ترکی نے ملکر قائم کی۔یہ RCDکی طرز کا اتحاد تھا، 1992ء میں افغانستان سمیت وسطی ایشیا کے 7ممالک آذربائیجان، قازکستان، کرغستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان
بھی تنظیم کے رکن بنے۔ امت مسلمہ کے اتحاد اور اقتصادی تعاون کی تنظیموں کی تشکیل کی کوششیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں،لیکن ابھی تک مسلم مما لک پر مشتمل موثر اتحاد سامنے نہیں آیا۔مذکورہ بالا اتحاد کا قیام امت مسلمہ کیلئے اتحاد یکجہتی کا پہلا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ترکی کی سرحدیں 8ممالک سے ملتی ہیں جن میں شمال مغرب میں بلغاریہ، مغرب میں یورپ، شمال مشرق میں جارجیا، مشرق میں آرمینا، ایران اور آذربائیجان، جنوب میں عراق اور شام واقع ہیں۔شمال میں بحیرہ اسود،مغرب میں بحیرہ ایجین اور بحیرہ مرمرہ، جنوب میں بحیرہ روم، ترکی یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔پاکستان کا محل وقوع بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی سرحدیں بھارت، چین، افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں جبکہ بحیرہ عرب کا سمندری راستہ سے عرب ممالک سے منسلک ہے۔ ملائشیادنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے، ملائشیا کے ہمسایہ ممالک میں تھائی لینڈ، سنگا پور، انڈونیشیا، برونائی شامل ہیں۔
جغرافیائی لحاظ سییہ اتحاد اسلامی ممالک کی زنجیر،مشرق سے مغرب تک بازو اور فوجی اعتبار سے بیس کیمپ ہو سکتا ہے۔
سب سے بڑھ کر تینوں ممالک میں تاریخ، ثقافت اور تہذیب صدیوں کی محبت کی امین ہے۔دنیا میں امن، استحکام اور سازگار ماحول پیدا کرنے میں تینوں ممالک مثبت اور قابل تقلید کردار ادا کر سکتے ہیں۔اگر یہ تینوں ممالک مذاکرات، اعلانات سے آگے عملی اقدامات اٹھانے تک پہنچ جائیں تو یہ امت مسلمہ کی ترقی کا نقطہ آغاز ثابت ہو گا۔پاکستان،ترکی اور ملائیشیا کا سہ فریقی اتحاد ترقی کا ضامن ہو گا۔ تینوں ممالک میں کسی بھی بین الاقوامی مسئلے پر اختلافات نہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے سربراہان مملکت دانشمندی سے معاملات کو آگے بڑھائیں اور اتحاد کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جائیں۔56اسلامی ممالک کو یکجا کرنا ایک مشکل کام ہے جبکہ تین ممالک جو لیڈنگ رول ادا کرسکتے ہوں کا اتحاد کا راستہ آسان ہے، امید کی جا سکتی ہے ترک صدر رجب طیب اردوان، ملائیشین وزیر اعظم
مہا تیر محمد اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان دردمندی اور فکر ی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے اتحاد کو حتمی شکل دیں گے اور عالم اسلام پر چھائی مایوسی کو کم کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہ پہلا موقعہ ہے پاکستان بطور اسلامی ملک کلیدی رول اداکرے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلمان احمد قریشی کے کالمز
-
گفتن نشتن برخاستن
ہفتہ 12 فروری 2022
-
نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا عزم
جمعرات 27 جنوری 2022
-
کسان مارچ حکومت کیخلاف تحریک کا نقطہ آغاز
پیر 24 جنوری 2022
-
سیاحت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت
بدھ 12 جنوری 2022
-
''پیغمبراسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں''
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
ڈیل،نو ڈیل صرف ڈھیل
بدھ 29 دسمبر 2021
-
''کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ملکی سیاست''
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
غیر مساوی ترقی اور سقوطِ ڈھاکہ
اتوار 19 دسمبر 2021
سلمان احمد قریشی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.