لبنان کاسیاسی بحران اور اسکے اثرات

جمعہ 25 اکتوبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

عوام کی مجموعی اورمعاشرتی خوشحالی کسی بھی ملک کے سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ سیاسی استحکام لازم ہے اس کے بغیر اقتصادی بہبود اور معاشرتی ترقی ممکن نہیں۔ معیشت اور سیاست دونوں کا انحصار حکمرانوں کی پالیسیوں پر ہوتا ہے۔ بہتر طرز حکمرانی ہو گی تو اس کے ثمرات معاشی طور پر عام آدمی تک پہنچے گے۔ معیشت اور سیاست ایک ساتھ چلتے ہیں۔

جب معیشت زوال پذیر ہو تو سیاسی بحران فطری بات ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں سپین، ہانگ کانگ، عراق، لبنان میں عوامی مظاہرے نظر آئے۔ ان تمام مظاہروں کے پیچھیمختلف عوامل کارفرما ہیں لیکن ایک چیز مشترک ہے وہ ہے جمہوری حکومت کا مطالبہ اور بہتر معاشی حالات۔
قارئین کرام! مشرق وسطی میں بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع چھوٹے سے ملک لبنان میں حالیہ سالوں کے سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔

(جاری ہے)

ان مظاہروں میں لاکھوں شہری سڑکوں پر موجود ہیں۔ احتجاج شروع ہونے کی وجہ Whatsappاور دیگر میسجنگ سروس پر ٹیکسز عائد کرنے کا حکومتی منصوبہ تھا۔ حکومت نے فوراً ہی یہ ٹیکس منسوخ کر دیا۔ مگر یہ مظاہرے وسیع تر اصطلاحات کے مطالبوں میں تبدیل ہو گئے۔ سڑکوں پر احتجاج کرنے والے مظاہرین نے یہ مطالبہ کیاکہ جب تک موجودہ سیاسی طبقہ اقتدار سے الگ نہیں ہوتا وہ گھروں کو نہیں جائینگے اور احتجاج جاری رہے گا۔

ایشیاء کے آخری سرے اور یورپ کے قریب واقع لبنان ایک ایسا ملک ہے جس میں مختلف النسل اور مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں۔ 1975 ئمیں لبنان میں مسیحوں اور مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی ہوئی جو 15 سال تک جاری رہی جس میں تقریباً 2 لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اس کے بعد سے لبنان میں ایسا سیاسی نظام موجود ہے جب ملک کے مرکزی مذہبی گروہوں کے درمیان طاقت کا توازن قائم رکھے ہوئے ہے۔

حالیہ مظاہروں کے ایک خصوصیت یہ بھی ہے مظاہرین ملک کی فرقہ وارانہ تقسیم کو ایک طرف رکھتے ہوئے حکومت کے خلاف متحد ہیں۔
لبنان کی معیشت بے تحاشہ قرضوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ اخراجات میں کٹوتی کے اقدامات نے عوام کو مشتعل کر دیا۔ بجلی کی بندش انفراسٹرکچر کی ابتر صورتحال کی وجہ سے عوام پہلے ہی پریشان تھے۔ حکومت نے Whatsappکال پر ٹیکس کا اعلان کیا تو عوامی احتجاج پھوٹ پڑا۔

سڑکوں پر احتجاج کرنے والے مظاہرین نے اعلان کیا اب اصطلاحات قبول نہیں، حکومت مستعفی ہو۔ تجارتی یونینز کی طرف سے بھی ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ سعد الحریری کی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ عام آدمی کا کہنا ہے عوامی ٹیکسوں سے جمع ہونے والی رقم حکمران طبقہ نے اپنی دولت میں اضافہ کیا۔ مسلسل اقرباء پروری کا سلسلہ جاری رکھا۔

حالات کی سنگینی کوبھانپتے ہوئے لبنان کی اتحادی حکومت نے اقتصادی اصلاحاتی پیکج کے نفاذ کی حامی بھر لی۔ حکومت نے معاشی اصلاحات پر کام کرنا شروع کیا مگر اب لبنان کی عوام حکومت پر مزید اعتماد کرنے پر تیار نہیں۔ حکومت 11 ارب ڈالر کا اقتصادی پیکج حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لبنان میں معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے وزراء کی تنخواہوں میں 50 فیصد کمی کرنے کا فیصلہ کیا۔

عدلیہ اور سرکاری افسران کی تنخواہیں برقرار رہیں گی جبکہ افواج کی پنشن کی کٹوتیاں ختم کر دی جائیں گی۔ وزیر اعظم سعد الحریری نے اپنا اقتصادی منصوبہ پیش کر دیا مگر عوام کا احتجاج جاری ہے۔
اقتصادی بحران سے لبنان اس وقت سیاسی بحران میں بھی مبتلا ہو گیا جب کرسچن لبنانی فورسز نامی سیاسی پارٹی نے مخلوط حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔

اب اگر سعد الحریری کی حکومت ختم ہوتی ہے یا شیعہ عسکری اور سیاسی تحریک حزب اللہ کی حمایت سے نئی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو بین الاقوامی ادارے اور دیگر ممالک لبنان کی مالی امداد بند کر دیں گے۔ اس طرح اقتصادی بحران لبنان کیلئے نئی سیاسی مشکل بن چکا ہے۔ سعد الحریری منصب وزارت سے دستبردار بھی ہو سکتے ہیں مگر آئندہ حکومت سازی آسان کام نہیں۔

سعد الحریری پر مختلف الزامات کے ساتھ ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے 6 سال قبل جنوبی افریقہ کی ماڈل گرل کو 15 ملین ڈالرز سے زیادہ کی رقم کے تحفے دیئے۔ لبنان میں Whatsappکال ٹیکس سے شروع ہونے والے مظاہرے وسیع پیمانے پر معاشی مسائل، عدم مساوات اور بدعنوانی کے الزامات کے ساتھ اب سیاسی بحران میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ لبنان میں عام آدمی کہتا ہے کہ یہاں بہت سی چیزیں ہوئیں،ملک معاشی بحران کا شکا ر ہے، ملک کے سربراہان اقتدار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امیر سے امیر تر ہوتے گئے ایسی بدعنوان حکومت ماضی میں نہیں دیکھی گئی۔

آج لبنانی عوام کو درپیش صورتحال سے بچنے کیلئے حکومت پر موضوع فیصلے کر سکنے کے معاملے میں اعتماد نہیں رہا۔ ملک میں نئی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
کسی بھی خطہ میں سیاسی تبدیلی عام روایت ہے۔ اگر جمہوری معاشرہ ہو تو یہ تبدیلی نظام کیلئے کوئی خطرہ نہیں لیکن لبنان جیسے ملک میں جہاں مختلف النسل و مذاہب آبادی ہو اقتصادی اور سیاسی بحران پورے خطے کیلئے تشویش ناک ہے۔

حزب اللہ کئی حوالوں سے دیگر ممالک کیلئے قابل قبول نہیں۔لبنان اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ سے نازک چلے آ رہے ہیں۔ حزب اللہ اسرائیل کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے جبکہ ایران اور حزب اللہ ایک صفحہ پر ہیں۔ امریکہ کی اسرائیل کی معاونت، سعودی عرب سے تعلقات، سعودی عرب کی ایران سے مخاصمت یہ تمام عوامل خطے کیلئے اطمینان بخش نہیں۔عالمی حالات کسی بھی صورت میں لبنان میں تشدد یا پرتشدد تبدیلی اقتدار کیلئے موزوں نہیں۔

جبکہ اندرون ملک معاشی حالات سے تنگ لبنانی عوام سعد الحریری کو کسی صورت میں قبول کرنے کو تیارنہیں۔ لبنان کی صورتحال ان تمام حکمرانوں کیلئے سبق ہے جو اقتدار کو لوٹ مار کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اور اپنی عوام کا نہیں سوچتے۔ خراب معاشی حالات میں اقتدار توجاتا ہی ہیسیاسی نظام کے ساتھ ملکی سلامتی اور بین الاقوامی امن بھی خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔

عالمی طاقتیں اپنے مفادات کیلئے غیر مقبول حکومتوں کو ایک حد اور ایک وقت تک ہی استعمال کر سکتی ہیں اس کے بعد عوام کا اٹھ کھڑا ہونا فطری ہے۔دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہور سے پیار کرنے والے ان عالمی طاقتوں اور علاقائی حاکموں کو کبھی بہتر نہیں سمجھ سکتیں۔ ماضی میں سرمایہ دار اور کمیونسٹ بلاک دنیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھے ہوئے تھے۔

آج صرف طاقتور ممالک اور انکے مفادات ہیں جن کے محافظ ترقی پذیر ممالک کے کرپٹ حکمران ہیں۔ دوسری طرف بہتر معاشی حالات کی خواہش لئے عوام کسی عالمی سیاسی، اخلاقی، حمایت کے محروم جذبات سے لبریز سڑکوں پر احتجاج میں مشغول ہیں۔ انجام، اختتام اور کچھ بھی واضح نہیں۔ طلوع سحر کب ہوتی ہے۔۔؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لبنان ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔احتجاج کے عوامل واضح، مطالبات سامنے ہیں۔ مگر حالات کہاں خراب ہوتے ہیں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ایک عیاں ہے چھوٹے سے ملک لبنان کی اندورنی صورتحال خطہ کے لیے تشویش ناک ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :