''صادقین ایک زندہ آرٹسٹ''

جمعہ 14 فروری 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

سید صادقین احمد نقوی ایک بے پناہ اور بے شمار صلاحیتوں کی حامل شخصیت، شہرہ آفاق مصور، خطاط، نقاش اور شاعر تھے۔ دنیا انہیں صادقین کے نام سے جانتی ہے، فن کو جدا گانہ اسلوب دینے والے صادقین 30جون 1920ء کو بھارت کے علمی شہر امروہہ اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید سبطین احمد نقوی کا گھرانہ خطاطی کے حوالہ سے بہت پہلے سے مشہور تھا۔

صادقین دس فرور ی 1987ء کو کراچی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ آج 3دہائیوں سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے بلکہ اس پر یقین کیے بغیر رہا نہیں جا سکتا کہ صادقین زندہ ہے۔ صادقین کا نام زندہ ہے، صادقین کا فن زندہ ہے۔
صادقین کی 33ویں برسی کے موقع پر ای لائبریری اوکاڑہ میں ان کے فن کے اعتراف اور شخصیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنے کیلئے ایک تقریب منعقد ہوئی۔

(جاری ہے)

برادرم چودھری ذوہیب کی دعوت اور پریس کلب کے سینیر ممبر طارق نوید کے اصرار پر تقریب میں راقم الحروف بھی شریک تھے۔ صادقین کے فن کے بارے اور زندگی کے دیگر گوشوں میں انکی خدمات کے بارے سن کر دل و دماغ میں روشنی کا جو احساس ابھرا اور دل میں جو حوصلہ پیدا ہوا، یہی حوصلہ اور احساس اس کالم لکھنے کا سبب ہے۔
اس تقریب میں شرکت کے بعد صادقین کے زندہ کاموں کا ذکر کرنا خود پر قرض کے طور پر محسوس کر رہا تھا۔


قارئین کرام! صادقین ان چند پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جن کا نام اور کام صدیوں سے آگے ہے۔1940ء کی دہائی میں وہ ترقی پسند ادیبوں اور فن کاروں کی تحریک میں شامل ہو چکے تھے۔ ان کی شخصیت میں پوشیدہ صلاحیتوں کو سب سے پہلے پاکستان کے سابق وزیر اعظم حسین شہید سہر وردی نے شناخت کیا۔ آج صادقین پاکستان کے سب سے اہم خطاط اور مصور کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

1960ء کی دہائی میں ملک میں اسلامی خطاطی اوراس کے فن کو بیرون ملک متعارف کروایا۔ پاکستان کا یہ صوفیانہ فنکار اپنے وقت میں ایک لیجنڈ بن گیا،بھارت میں اردو زبان کی کتاب نے صادقین کو رباعی کی صنف کا دور جدید کا سب سے بڑا شاعر قرار دیا۔انکی رباعیات معاشرے کا آئنیہ ہے۔ان کی شاعری کی کتابیں رقعات صادقین، رباعیات صادقین قابل ذکر ہیں۔
صادقین ڈرائینگ روم کا آرٹسٹ نہیں تھا اس لئے انہوں نے چھوٹی پینٹنگ نہیں کی بلکہ پینٹنگ کیلئے بڑی عمارتوں کا انتخاب کیا ان کے دیوار گیری کے مصوری کے نمونوں کی تعداد کم و بیش 35ہے۔

ان میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان، فئیر ہال کراچی، لاہور میوزیم، پنجاب یونیورسٹی، منگلا ڈیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، انڈین انسٹیٹیوٹ آف جیالوجیکل سائنسز، اسلامک انسٹی ٹیوٹ دہلی اور ابوزیدی پاور ہاؤس قابل زکر ہیں۔صادقین نے قرآن کریم کی جس موثر و دلنشین انداز میں خطاطی کی وہ صرف انہی کا خاصہ ہے۔ انہیں فرانس، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کی جانب سے اعزازات سے نوازا گیا، مارچ 1970ء میں انہیں تمغہ امتیاز پاکستان اور 1985ء ستارہ امتیاز دیا گیا۔

صادقین کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد، فئیر ہال کراچی، نیشنل میوزیم کراچی، صادقین آرٹ گیلری کراچی اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں موجود ہیں۔
صادقین کی خطاطی اور مصوری اور منفرد اور اچھوتی تھی کہ ان کے دور ہی میں انکے کام کی نقل ہونے لگی اور بہت سی جعلی پینٹنگز صادقین کا نام لکھ کر فروخت ہوئیں اور خوب نام کمایا۔

صادقین نے شاہی خاندانوں اور صاحب ثروت افراد کی جانب سے بھاری مالی پیشکشوں کے باوجود اپنے فن پاروں کا بہت کم سودا کیا۔ صادقین پیسے کیلئے کام نہیں کرتے تھے، شاید یہی وجہ ہے صادقین مال و دولت، دھن کمانے کی بجائے فن کی دنیا میں ایسا نام کما گئے کہ آج صادقین سے بڑا نام نہیں۔ صادقین نے اگر اپنا کام فروخت کیا تو رقم افراد اور اداروں کو دیدی یہاں تک کے بوقت انتقال انکے پاس کوئی دنیاوی مال نہیں تھا۔

صادقین کی اصل دولت اس کا نام ہے اور اس کا فن پاکستان کیلئے ایک اعزاز ہے جو کسی اور شخصیت کے حصہ میں نہیں۔ ای لائبریری اوکاڑہ میں صادقین کیلئے اکٹھے ہونے والے چیدہ افراد میں ملک کے معروف مصور اصغر مغل، فن خطاطی کا منفرد نام مغلجی شامل تھے۔ دونوں آرٹسٹ میرے لئے اس لئے بھی قابل احترام اور قابل فخر ہیں کہ انکا تعلق میرے شہر اوکاڑہ سیہے۔
صادقین صرف آرٹ ہی سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک بڑا نام نہیں بلکہ ہر پاکستانی ان پر فخر کر سکتا ہے جو انکے کام اور نام سے آشنا ہے۔ڈاکٹر اکبر نقوی نے صادقین کے بارے لکھا ''اگر صادقین نے اپنی نقاشی کے سوا کچھ نہیں کیا ہوتا، تو پھر بھی وہ ملک میں جدید آرٹ کا اختراع کرنے والا سمجھا جاتا''۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :