''ہم ہی رہیں گے''

بدھ 16 دسمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

یہ بات اہم نہیں کہ پی ڈی ایم کا 13دسمبر کا لاہور جلسہ کامیاب رہا یا ناکام، غور طلب امر یہ ہے کہ اس احتجاجی تحریک کے نتائج کیا ہونگے۔۔؟وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے جلسہ سے قبل ایک بیان میں کہا تھا ''ہم رہیں گے،پی ڈی ایم والے روتے رہ جائیں گے''- وزیر قانون راجہ بشارت نے اس دعوی کی تصدیق بھی کی کہ (ن)لیگ میں ایسا دھڑا موجود ہے جو تصادم کی سیاست نہیں چاہتا۔

دو درجن سے زائد لیگی ارکان اسمبلی وزیراعلی پنجاب سے ملاقات کرچکے ہیں۔25ارکان اسمبلی براہ راست رابطہ میں ہیں۔مسلم لیگ(ن) نے تردید کرتے ہوئے ان خبروں کو من گھڑت قرار دیا۔
قارئین کرام! پاکستان کی سیاست کے بارے حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ کیا ہوگا اور کیا ہوسکتا ہے اس پر رائے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)


سیاسی بساط پر مہروں کی چال سے ایک بات تو عیاں ہے کہ سیاست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے۔

اپوزیشن کے بیانیے سے اختلاف اپنی جگہ حکومت وقت نے بھی بہت ہی غیر سنجیدہ اور غیر سیاسی رویہ اختیار کیے رکھا۔پی ٹی آئی کی سیاست الزامات سے شروع ہوئی اور الزامات پر ہی قائم ہے۔ حکومت وقت کو جس تدبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چائیے تبدیلی سرکار اس میں بری طرح ناکام ہے۔ عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملااور بہتری کی صورت بھی نظر نہیں آتی۔

اپوزیشن لیڈرشپ کرپٹ ہے اس کا فیصلہ عدالتیں کرتیں تو بہت بہتر تھا۔ حکومت اپنی توانائی عوام کی بہتری پر صرف کرتی تو مناسب ہوتا۔عمران خان وزیراعظم تو بن گئے مگر انکا رویہ سیاسی نہیں انتقامی محسوس ہوتا ہے۔الزامات کے شور میں آدھا وقت گزر گیا۔ نتائج تو کیا آتے بنیادی فیصلے ہی نہیں ہوسکے۔ بیوروکریسی میں تبدیلیاں یا وزراء کے محکمہ تبدیل کرنے کے سوا کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔

حکومت میں شامل وزرا کے انداز بیاں کو دیکھیں تو گمان ہوتا ہے یہ پاکستان کے لیے نہیں عمران خان کی خوشنودی کے لیے سیاسی اسٹیج پر موجود ہیں۔عمران خان کے جلسوں میں صدا کاری کرنے والے موجودہ سینیٹرفیصل جاوید ایک ٹاک شو میں بلاول بھٹو کے بارے اس اندازسے تکلم فرمارہے تھے کہ کیا نام ہے اس لڑکے کا جو جلسے سے خطاب کررہاتھا۔اس انداز تخاطب سے بلاول بھٹو کا سیاسی قد تو کم نہیں ہوسکتا البتہ پی ٹی آئی کی سوچ کے دریچوں کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ یہ تنگ نظر ہے۔

سیاست میں تنگ نظری نہیں وسیع القلبی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے قبل بھی ایک ٹاک شو میں موصوف اپنے خودساختہ حقائق بیان اور الزامات لگانے کے بعد شرکاء کی بات سننے کی بجائے ٹیلی وژن سکرین پر کتاب پڑھنے کا تاثر دیتے رہے۔جیسے صرف انکی بات ہی توجہ طلب ہے باقی سب کی رائے قابل غور ہی نہیں۔ یہ رویہ اور انداز تکلم پروگرام ہوسٹ کے لیے بھی تضحیک آمیز تھا۔

عمران خان کی ٹیم جب ایسے رویوں کے ساتھ سیاست کرے گی تو اپوزیشن سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ سینٹیر فیصل جاوید کو مفتاح اسماعیل کی طرف سے لائیو پروگرام میں غیر اخلاقی گفتگو ہی سننے کو ملے گی جب وہ الزامات پر الزامات لگا کر اداکاری کریں گے۔ سیاسی جلسوں کی زبان اور ہوتی ہے اور ٹاک شو میں بات کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ آج پاکستان میں پارلیمنٹ کی اہمیت کو ختم کیاجارہا ہے۔

سیاست میں ڈائیلاگ کو ناممکن بنانے کے لیے حکومت کمر بستہ ہے۔ دوراندیشی، معاملہ فہمی اور برداشت کا کلچر ختم کیا جارہا ہے۔ سیاست کو ایسے مقام پر لے جایا جارہا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوسکے۔
 سیاسی محاذآرائی کے دوران حکومت کی طرف سے دانشمندانہ حکمت عملی ضروری ہوتی ہے مگر وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے ابھی پی ڈی ایم سے مذاکرات کا وقت نہیں۔

اپوزیشن نے بھی اب مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔ مریم نواز نے لاہور میں تقریر کے آغاز پر پنجابی زبان میں کہا کہ '' اللہ قسمے لاہوریو، خوش کردتا اے''مسلم لیگ (ن) جلسے کو تاریخ ساز قرار دے رہی ہے۔ جلسہ کی کامیابی اور ناکامی کے دعوے دونوں طرف سے کیے جارہے ہیں۔ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر دیکھیں تو سسٹم کے لیے یہ طرز عمل مناسب نہیں۔ پاکستان میں اپوزیشن ہمیشہ سے غدار ہی رہی۔

یہ تاریخ کا سبق ہے غداری کے الزامات اور مقدمات کا نتیجہ سقوط پاکستان کی صورت میں نکلتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی خلافت قائم ہوتی ہے تو کبھی مشرف کا سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ سیاست دانوں اور عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔سیاسی اختلاف جمہوری اصول کے تابع رہے تو خیر ورنہ شر ہی غالب آتا ہے۔ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار آپ رہیں گے یا نہیں یہ اہم نہیں۔

بہتر تو یہ ہے حکومت بھی رہے اور اپوزیشن بھی اپنا کردار آئینی حدود میں رہ کر ادا کرتی رہے۔ عوام کے لیے بھی تو کوئی خوشخبری ہونی چاہئے۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے سسٹم کا نقصان نہ ہو۔ جلسہ کے بعد صرف وفاقی وزیر فواد چوہدری کی طرف سے حوصلہ افزا بات سامنے آئی کہ اب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا چاہئے۔ کرپشن پر قابو پانے کے لیے سسٹم کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔الزامات لگانے یا کرسی بچانے سے کچھ بہتر ہونے والا نہیں۔حکومت اپنی ذمہ داری کا احساس کرے سب سے پہلے عوام اور اسکے بعد نظام کو بچانے کا سوچیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :