''ہرضلع کا الگ ترقیاتی پیکج''

منگل 23 مارچ 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وزیراعلی سردار عثمان بزدار نے صوبائی وزراء اور مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے ملاقات میں ہر ضلع میں عوامی ضروریات اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے الگ ترقیاتی پیکج دینے کی اہمیت کو تسلیم کیا۔انہوں نے کہا کہ مخصوص شہروں پر فوکس کرنا ترقی نہیں بلکہ یہ پسماندہ علاقوں کی حق تلفی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ترقی کے سفر کو دور دراز علاقوں تک لے کر گئی۔

سابق حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ عوام کی ترجیحات کو نظر انداز کرتے ہوئے نمائشی منصوبے شروع کیے۔شوبازی والے منصوبے سفید ہاتھی بن کر خزانہ پر بوجھ بنے۔عوام کے خون پسینے کی کمائی کو بے دریغ ذاتی پسند اور ناپسند پر ضائع کیا گیا۔
قارئین کرام! وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے خیالات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

وطن عزیز میں ترقی اور ترقیاتی منصوبہ جات کو سیاسی اور ذاتی فائدے کو پیش نظر رکھ کر شروع کرنے کی روایت عام ہے۔حکمران عوامی مسائل کے حل کی بجائے ووٹ بنک کو مدنظر رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے ترقی اور خوشحالی کے تمام دعوے کاغذوں اور بیانات کی حد تک رہے۔ترقی کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچتے۔بنیادی مسائل تا حال جوں کے توں ہیں۔
بنیادی شہری مسائل کے حل کی ذمہ داری بلدیات پر عائد ہوتی ہے اور بلدیاتی ادروں کے زریعے ہی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

ستم ظریفی پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو فعال کرنا سیاسی قیادت کی ترجیح ہی نہیں رہی۔بلدیات کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ فیصلے اسلام آباد یا لاہور میں ہوتے رہے۔اس طرز سیاست سے علاقہ کی نمائندگی اور ترجمانی کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔سیاسی جماعتوں کی قیادت اتنی طاقتور اور بااثر ہے کہ عوامی نمائندے کمپرومائز کرنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف وزیر آباد اور اوکاڑہ کا بجٹ لاہور پر لگائیں یا کیپٹن (ر) صفدر کے حلقہ ایبٹ آباد پر فنڈز لگیں، عوامی نمائندے اعتراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔صوبہ پنجاب میں شہباز شریف کی صورت میں ون مین شو کی بدترین مثال قائم ہوئی۔ معاملہ یہاں ہی نہیں رکا، اس غیر جمہوری روایت کوقائم کرنے پر انہیں بہترین انتظامی سربراہ کے طور پر پیش کیا گیا۔

میڈیا کو اس انداز سے کنٹرول کیا گیا کہ پسماندہ علاقوں کا نوحہ لکھنے اور پڑھنے والوں کی آواز کو سیاسی مخالفت قرار دے کر نظرانداز کیا گیا۔ پنجاب کے بڑے شہروں لاہور،فیصل آباد،گوجرانوالااور ملتان میں ترقی کی رفتار میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔فیصل آباد اور گوجرانوالا کو نظر انداز کیا گیا۔ لاہور پر فنڈز کے استعمال کو ہی پنجاب کی ترقی قرار دیاگیا۔

اس صورت حال میں اگر مخالفین شہباز شریف کو وزیراعلی لاہور قرار دیتے تو کچھ غلط نہ تھا۔ لاہور کا موزانہ دیگر شہروں سے کریں، ٹیکس کولیکشن، آبادی اور مسائل تو اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی۔ایک طرف لاہور اور دوسری طرف لاہور سے 120کلومیڑ دور آباد شہر اوکاڑہ کی حالت ترقی کے دعووں کے پیچھے چھپے غیر منصفانہ فیصلوں کو بے نقاب کرتا دکھائی دیتا ہے۔

نصف شہر سیوریج کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔طبی سہولیات کا فقدان آج بھی مریض لاہور ریفر کیے جاتے ہیں۔کوئی ایک سڑک بھی ایسی نہیں جو بہتر حالت میں ہو۔ مین جی ٹی روڈ ناقابل استعمال ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری بذریعہ سڑک اوکاڑہ تشریف لائے۔راقم الحروف سے ملاقات میں کھلے بندوں تسلیم کرتے ہیں کہ اوکاڑہ واقعی نظر انداز علاقہ ہے۔

وہ شایدنہیں جانتیکہ اس کی سیاسی وجہ دراصل یہ ہے کہ سابق وزیراعلی پنجاب میاں منظور وٹو کا تعلق اوکاڑہ ضلع سے ہے۔شریف خاندان کو منظور وٹو سے ذاتی رنجش ہے۔ نواز لیگ کی حکومت نے اسکی سزا ہمیشہ اوکاڑہ کودی۔ اوکاڑہ سے آگے چلیں جنوبی پنجاب کی حالت بھی ابتر ہے۔لاہور کی ترقی کو لیکر سیاست کرنا نواز لیگ کا وطیرہ ہے۔ جنوبی پنجاب سے بااثر شخصیات کی حمایت سے الیکشن میں ووٹ مل جاتا ہے۔

ایسے میں عوامی مسائل کے حل کے لیے فنڈز کا اجراء کیوں ہوتا۔۔۔؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تبدیلی کا نعرہ لیکر برسراقتدار آئی۔تمام صوبوں سے عمران خان کو ووٹ پڑے۔اس اعتماد کا تقاضہ ہے کہ اقتدار نہیں عوام کی سیاست کی جائے۔ حصول ووٹ کو مدنظر رکھ کر فنڈز کے اجراء کی بجائے مسائل اور انکے حل کو اولین ترجیح قرار دیا جائے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد وسائل کا مرکز سے صوبوں تک اور صوبوں سے اضلاع کی سطح پر تقسیم ہونا ضروری ہے۔

لاہور کی چند سڑکوں،انڈرپاس اور میڑوبس، اورنج ٹرین کو ترقی قرار دیکرصوبائی حکومت کو مقروض کردینا حقیقی ترقی نہیں۔
ترقی کا یہ وژن سیاسی کامیابی کی ضمانت تو ہوسکتا ہے لیکن مسائل کا حل نہیں۔حکومت کو بلدیات کے نظام کو بہتر اور فعال کرنا ہوگا اگر وہ عوامی مسائل کے حل میں سنجیدہ ہے۔
شہباز شریف کی ترقی کو اگرآسان انداز میں بیان کیا جائے تو کچھ ایسی کہانی ہے کہ ایک باپ نیاپنے بڑے بیٹے کو پختہ مکان تعمیر کرکے دیا جس میں تمام سہولیات میسرہیں۔

یہاں تک کہ اے سی بھی نصب ہو۔دوسرے بیٹے کے لیے کچا مکان اور گرمی سے بچنے کے لیے پنکھا موجود ہو۔ چھوٹے بیٹے سے یہ کہا جائے کہ تمھارا جب دل کرے پختہ گھر میں کچھ دیر کے لیے آسکتے ہو اور ائرکنڈیشن کی ٹھنڈی ہوا سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہو اور اسی پر خوش رہو۔مگرائرکنڈیشن کے خرچہ میں دونوں بھائی حصہ ڈالیں۔
اگر لاہور کی ترقی ضروری ہے توراوی ریور پروجیکٹ ضرور بنے مگر اسکے ساتھ ڈیرہ غازی خان میں بھی کام ہو۔

ملکہ کہسار مری پر خرچ کریں لیکن فورٹ منرو میں بھی سیاحتی سہولیات بہتر کی جائیں۔لاہور میں انڈر پاس بلاشبہ بنیں لیکن اوکاڑہ میں آج بھی ٹریفک ریلوے پھاٹک پر رکی ہو تو یہ ترقی نہیں۔لاہورسے خانیوال موٹر وے ضروربنے لیکن اوکاڑہ اور نواحی علاقہ جات کی 3200000 کی آبادی کے لیے موٹر وے لنک روڈ کی تعمیرکا منصوبہ بھی زیر غور نہ ہو تویہ ترقی نہیں سیاست ہے جبکہ سیاست تو عوام کے مشکلات کے حل کا نام ہے۔

پاکستان میں سیاست تو چلتی رہتی ہے مگر ترقی کی رفتار بڑھتی نظر نہیں آتی۔
موجودہ حکومت سیاسی وابستگی اور مفادات سے بالاتر ہوکر بلا تفریق ترقی کو پسماندہ علاقوں تک لیکر جائے۔ عوامی مسائل میں کمی لانے کے لیے اضلاع کی سطح پر فیصلہ سازی کے ساتھ عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے خیالات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ضرورت اس امر کی ہے معاملہ بیانات سے آگے عملی طور پر بھی نظر آئے۔اضلاع کی خودمختاری ہی پاکستان کی ترقی کی ضمانت ہوسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :