'' قومی سرمایہ کا ضیاع اور ترقی کے دعوے''

ہفتہ 29 مئی 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

 وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی ٹریک اور ریلوے اسٹیشن کے معا?نہ کے لیے خصوصی ٹرین کے ذریعے اوکاڑہ پہنچے۔جہاں وزیر ریلوے نے اسٹیشن کی عمارت کے درست استعمال نہ ہونے پر ناگواری کا اظہار کیا۔انکا کہنا تھا کہ ماضی میں محکمہ ریلوے کو بے دردی سے لوٹا گیا ایسی عمارتیں بنائی گئیں جن کا ریلوے کی آمدن بڑھانے کے حوالے سے کوئی کردار نہیں۔

اعظم سواتی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے نئے ماڈل کے ریلوے اسٹیشن کی اربوں روپے سے بے مقصد عمارتیں تعمیر کروا کے صرف خزانے کو ضائع کیا ایسی عمارتیں تعمیر کی گئیں جن کا ریلوے نظام سے کوئی تعلق ہی نہ تھا عجلت میں ماضی کی حکومتوں میں نا مکمل منصوبوں کا افتتاح کیا گیا ان کا کہنا تھا کہ عمارتیں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

بہتر ہے ان عمارتوں کو کسی یونیورسٹی یا تعلیمی اداروں کے حوالے کر دیا جائے۔
قارئین! راقم الحروف نے 22جنوری 2018ء کے بعد جب اوکاڑہ نامکمل ریلوے اسٹیشن کا افتتاح خواجہ سعد رفیق نے کیا تھا تو اپنے کالم میں اس پر تفصیل سے لکھا تھا کہ کس طرح قومی سرمایہ ضائع کیا گیا۔ ''سٹیٹ آف دی آرٹ اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن'' پر 280ملین کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔

خواجہ سعد رفیق اپنے نام کی تختی لگا کر چلتے بنے۔پاکستان ریلوے کی بحالی، خوشحالی، سہولیات اور جدت کے حوالہ سے تمام دعوے خوش نما ضرور تھے۔ لیکن حقیقت سے انکا کوئی تعلق نہیں۔مسلم لیگ(ن) ترقی اور تعمیر کے نام پر صرف سیاست کرتی ہے۔ اپنی سیاست کا سکہ قائم رکھنے کے لیے کریڈٹ لینے اور اسکی بھرپور تشہیر بھی سراسر کاروباری انداز میں کرتی ہے۔

میرا موضوع بھی تعمیر اور ترقی سے زیادہ کریڈٹ لینے کا چکر اور اسکی تشہیر کو ہی زیرِ بحث لانا ہے۔میڑوبس ہو یا اورنج ٹرین ضرورت اور افادیت کبھی انکا مطمع نظر ہی نہیں رہا۔ قرضے لیں منصوبے شروع کریں تختی لگائیں اور بس سیاست شروع۔۔۔۔خسارہ مسلسل خسارہ، قومی خرانہ پر مستقل بوجھ مگر ایسے منصوبے مسلم لیگ (ن) کی سیاست کی بنیاد ہیں۔
قلم اور قرطاس سے تعلق جوڑے رکھنے کے لیے کسی بھی موضوع پر لکھنے سے پہلے تحقیق اور بنیادی معلومات کے حصول کوہمیشہ اہمیت دی۔

اپنی رائے ہمیشہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر قارئین کے سامنے پیش کی۔ریلوے کے حوالہ سے جو کچھ 2018میں لکھا آج وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن بچشم خود دیکھ کر بیان کر رہے ہیں۔ معاملہ تنقید یا حمایت کا نہیں قومی خزانے کے درست استعمال کا ہے، ترجیحات کا ہے۔ آج بھی اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کا 20فیصد حصہ ہی زیر استعمال ہے اس شاندار عمارت کا اوکاڑہ کی عوام یا ریلوے کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ہاں البتہ مسلم لیگ (ن) کے پاس دکھانیاور کہنے کو ضرور ایک منصوبہ آگیا۔ ایسا صرف ایک اسٹیشن کی تعمیر میں نہیں ہوا ایک اور منصوبہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اوکاڑہ میں مکمل ہوا ایک فلائی اوور جو دیپالپور چوک اوکاڑہ میں تعمیر ہوا۔ اس کی تعمیر سے ٹریفک کی روانی میں کچھ بہتری نہ آئی۔عام آدمی نے اسے غیر ضروری منصوبہ قرار دیا۔آج بھی اس فلائی اوور پر ٹریفک نظر نہیں آتی۔

میرے عزیز دوست مقامی ایم این اے نے اپنی خواہش پر یہ منصوبہ کثیر سرمایہ سے مکمل کیا جبکہ اطراف میں سڑک کی حالت تاحال ناقابل استعمال ہے۔
اوکاڑہ کی حد تک نہیں جہاں بھی ترقی کا دعوی سامنے آیا ایسے ہی منصوبے مکمل ہوئے یا شروع کیے گئے جو عوامی فلاح کے لیے نہیں صرف ذاتی تشہیر کے کام آئے۔ ریسکیو 1122بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے منصوبہ جات سے مسلم لیگ (ن) دور ہی رہی۔

اورنج ٹرین سے لاہور کی محدود آبادی بلاشبہ مستفید ہو سکتی ہے لیکن اس کو چلانے کا بوجھ پورے پنجاب پر آگیا۔ چمکتی دمکتی ٹرین سروں کے اوپر سے گزرتی نظر آتی ہے مگر اس کے اخراجات کو پورا کرنے کی ذمہ دار (ن لیگ) نہیں حکومت وقت ہے۔
ملک بھر میں ترقی کے نام پر بہت سارے ایسے منصوبے شروع ہوئے اور مکمل بھی ہوئے جو عوامی ضرورت نہیں تھے۔ دیہی علاقوں میں سکولز، کالجز تعمیر ہوئے عمارتیں کھڑی ہوگئیں مگر درس وتدریس شروع نہ ہوئی۔

عمارتیں برباد ہوگئیں لیکن قومی خزانہ کے ضیاع سے ذاتی تشیہر ضرور مکمن ہوئی۔ بانی منصوبہ کی تختی پر درج سیاسی شخصیت سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ایک اور چھوٹی سی مثال کہ اوکاڑہ کے مقامی ایم پی اے یاور زمان نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین اوکاڑہ اور دیگر کالجز کے لیے بس عنایت کی، نہ بس کا ڈرائیور نہ پٹرول کی مد میں کوئی فنڈ بس کالجز میں کھڑی ہی کباڑ بن گ? ہیں۔

ہسپتال میں بھی کروڑوں روپے مالیت کا موبائل یونٹ کھڑے کھڑے قومی خزانے کے ضیاع کا ماتم کرتا رہا مگر کیا کریں عام آدمی کی بنیادی ضرورت ایک طرف مگر سیاسی قیادت کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں۔ موجودہ سیاسی قیادت کو قومی خزانے کے ضیاع کا ادراک ہے تو آیندہ ایسے منصوبہ جات کو شروع کرنے سے اجتناب کیا جائے گا۔ ملکی وسائل اب کرپشن اور سیاست کی نظر نہیں ہو نگے۔

انہی سطور میں ہم وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ پی ٹی آئی کی مقامی سیاسی قیادت کی سنجیدگی کا تو یہ عالم ہے کہ ایک بھی رہنما وفاقی وزیر کی آمد پر موجود نہ تھا۔ یہ تو بھلا ہو مقامی میڈیا پرسنز کا جنھوں نے مسائل کی نشاندہی کی اور عرصہ 8 سال سے ریلوے کراسنگ پھاٹک پل نہر کو کھلوانے کے لیے مقامی حکومت سے فوری معاملات حل کرنے کا مطالبہ کیا۔

خدا کرے کہ وفاقی وزیر ریلوے کا یہ دورہ روایتی بیان بازی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ یہ دورہ ثمر آور ثابت ہو۔ جس طرح غیر ضروری منصوبہ جات قومی خزانے کا ضیاع ہے۔ روایتی دوروں، کی مَد میں (ٹی اے ڈی اے) کی رقم بھی قومی خزانے سے وصول کرنا بھی قومی خزانے پہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔تبدیلی سرکار کے پاس اب صرف 2 سال ہیں۔ الزامات اور دعوں کا وقت گزر گیا زمینی حقائق ہی عمران خان کے سیاسی مستقبل کافیصلہ کریں گے۔اس لیے حالات اور معاملات میں بہتری لانا وقت کا تقاضا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :