راستے کا حق

منگل 26 اکتوبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

اسلام نے حقوق اور واجبات کی فہرست میں راستے کے حق کو بڑی اہمیت دی ہے۔ راستے سے کسی بھی تکلیف دہ چیز کو ہٹانے کا حکم دیا اور اس کو بڑی نیکی قرار دیا ہے۔دورِ جدید میں راستہ کا شعور عام ہوا۔ آج اس کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔ آمد و رفت میں سہولت کے لئے عام راستہ سے معاملہ اب ہائی ویز اور موٹر ویز تک پہنچ چکا ہے۔ ٹریفک کی روانی کو جاری کرنے کیلئیٹریفک سگنلز کی جگہ فلائی اوورز اور انڈر پاس کی تعمیر نا گزیر ہے۔

بڑے شہروں میں اب ریلوے پھاٹک کا تصور نہیں۔شاہراہیں تو سگنلز فری ہیں۔ٹرین کی آمد پر سڑک پر ٹریفک کا رکنا اور انتظار یہ نظارہ اب چھوٹے شہروں میں نظر آتا ہے۔
قارئین کرام! پاکستان میں بڑے شہروں میں بہتر روڈ کنڈیشن اور سہولیات کی فراہمی کو ماڈل بنا کر پیش کرنے کی روش عام ہے۔

(جاری ہے)

ایک طرف میڑو بس اور اورنج ٹرین کا آغاز، انڈر پاس، فلائی اوورز ترقی کی علامات ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اس بنیاد پر ووٹ بھی لیتی ہے اور ایک بڑی آبادی اس سے مرعوب بھی ہے دوسری طرف پنجاب کے دیگر شہروں میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ریلوے پھاٹک تو موجود ہیں مگر ریلوے پھاٹک کے بند ہونے پر عام شہری کس اذیت کا شکار ہوتا ہے شاید مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اس کا ادراک نہیں۔ راقم الحروف اوکاڑہ شہر کا رہائشی ہے جس کے درمیان سے ریلوے لائن گزرتی ہے اور یہ شہر دو حصوں میں تقسیم ہے۔

ریلوے پھاٹک کی بندش کے بعد سڑک پر جس عذاب کو جھیلنا پڑتا ہے اسکو ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ وہ پاکستانی تو اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے جو لاہور یا اسلام آباد کی کشادہ سڑکوں پر گھومتے ہیں۔
اوکاڑہ کے باسیوں کی مشکلات کے حل کے لئے بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں پیپلز انڈر پاس تعمیر ہوا جسکے ساتھ ہی پھاٹک فعال ہے۔ جنوبی اوکاڑہ کے رہائشیوں کی اکثریت اس ریلوے پھاٹک اور انڈر پاس کو استعمال کرتی ہے۔

جنوبی سائیٹ پر ایک تنگ سڑک انڈر پاس سے لاری اڈا کی طرف مڑتی ٹریفک کی وجہ سے انڈر پاس میں ٹریفک کا رکنا معمول ہے۔ اس اذیت کے وقت شہباز شریف کے ترقی کے دعووں سے دل جلتا ہے کہ ہمیں کس گناہ کی سزا دی جارہی ہے۔ معاملہ یہاں تک ہوتا تو برداشت کر لیتے ستم ظریفی ضلع کچہری جانے والی سڑک علامہ اقبال روڈ پر قائم ریلوے پھاٹک عدم ادائیگی کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) کے دورِ اقتدار میں بند ہوا۔

جو اتنے سال مستقل بند رہا۔ عام آدمی کی پریشانی کا قیادت کو احساس تک نہ ہوا۔ خواجہ سعد رفیق سابق وفاقی وزیر ریلوے اپنی ہی جماعت کے ایم این اے ریاض الحق جج کے اس مطالبہ کو ماننے پر تیار نہ ہوئے کہ بند پھاٹک کھول دیا جائے۔مسلم لیگ (ن) کا اقتدار ختم ہوا۔ اس زیادتی کے باوجود اوکاڑہ کی عوام نے مسلم لیگ (ن) کو ہی ووٹ دیا۔ پی ٹی آئی کی برسر اقتدار حکومت کو تین سال کے بعد اوکاڑہ کی عوام پر ترس آیا اور یہ بند پھاٹک کھول دیا گیا۔

اس نیکی کے کام میں پی ٹی آئی کے مقامی رہنما اشرف خان سوہنا نے کلیدی کردار ادا کیا۔انہوں نے ثابت کر دیا کہ عوامی خدمت کے لیے عہدہ ضروری نہیں اسکے لیے احساس کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے ملک محمد عامر ڈوگر وزیرِ مملکتِ سیاسی امور کی وساطت سے اعظم سواتی وفاقی وزیر ریلوے اور وزیر اعظم تک اوکاڑہ کی عوام کی اس مشکل سے آگاہ کیا۔ 12ربیع اول کے مبارک دن سالوں سے بند ریلوے پھاٹک ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا۔


اوکاڑہ شہر سے باہر دیگر شہروں کے مکینوں کے لئییہ ایک عام بات ہوگی لیکن اوکاڑہ کی عوام کے لیے یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے جو طویل عرصہ بعد دوبارہ میّسر آئی۔ اس کام میں ایک سبق اور ہے درد دل رکھنے والوں کے للئیسیاسی شعور رکھنے والوں کے لئے جو شخصیت پرستی سے انکار کی جرأت رکھتے ہیں وہ یہ ہے ہم واقعی اپنے سیاسی، سماجی و معاشی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بالآخر مڈل کلاس سے ہی باشعور قیادت کو سامنے لانا ہوگا۔


کیونکہ بھوک کا صحیح اندازہ بھوکے کو ہی ہوتا ہے نہ کہ طرح طرح کی نعمتوں اور آسائشوں سے مالا مال شخص کو۔ سیاسی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جتن میں مصروف مقامی نمائندے جب اپنے علاقہ کے عوام کے سکون کا خیال نہیں کرتے تو عام آدمی بھی الیکشن میں ایسی قیادت کا لحاظ نہ کرے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔نمائشی ترقی کے دعوے داروں اور میڈیا کی منظورِ نظر قیادت کو اشرف خان سوہنا نے آئنیہ دکھا دیا۔

ہمیں بھی آئنیہ دیکھنا چاہیے۔ ہمیں کون نظر انداز کرتا ہے اور ہم کِسے نظر انداز کرتے ہیں۔ سلام اشرف خان سوہنا۔۔۔ناقدین اسے اشرف خان سوہنا کی سیاست کہیں یا ریلوے کی پالیسی آڑے آنا، معاملہ ریلوے ملازمین کی ادائیگیوں کا ہو مگر سزا عوام کو کیوں دی جائے۔ اربابِ اختیار تمام ریلوے پھاٹک بند کر دے لیکن اسکا متبادل بھی بنانا حکومت کا فرض ہے۔

صرف راستہ کی بندش اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ سکندر چوک انڈر پاس کا وجود بھی اپنے ڈیزایئن کے حوالہ سے ایک عذاب سے کم نہیں۔ آزادی چوک فلائی اوور بنانے والے انجینئر صرف لاہور جیسے شہر کے لئے سوچ رکھتے ہیں دیگر شہروں کے مسائل کے لئے ریلوے پالیسی اور واجبات لیکن یہ جواز ہرگز قابل قبول نہیں۔ عوام کیلئے سہولت کا اہتمام سیاست نہیں نیکی ہے۔

راستہ کھولنا عبادت ہے۔
راستہ سے تکلیف دہ و ناپسندیدہ چیزوں کا ہٹانا کوئی عام سا عمل نہیں بلکہ اتنا بڑا عملِ خیر ہے جو انسان کی مغفرت کے لئیبھی کافی ہے، یہ صدقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔

ہمارے ہاں سڑک پر تجاوزات قائم کرنے والے اور انکے سرپرست اسلام کے دئیے گئے راستے کے حق کو سلب کرنے کا باعث ہیں۔ اس دنیا کے لالچ نے انہیں سوچنے اور سمجھنے سے بھی عاری کر دیا ہے۔ سیاست میں مکّاری اور شعبدہ بازی جاری ہے۔ ہم مسلمان ہیں ہمیں سوچنا چاہئیے کہ جانے انجانے میں ہم دوسروں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا باعث بنے رہیں یا آسانیاں تقسیم کرنے والے بنیں جو کہ ہماری دنیا میں نیک نامی اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :