
فلسطین کا مسئلہ اور مسلم اُمہ
جمعرات 20 مئی 2021

سرور حسین
(جاری ہے)
کچھ عرب ملکوں کی مثالیں دینے والے یہ دانشور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ عربوں نے تو کشمیر کے مسئلے پر بھی آپ کا کبھی کھل کر ساتھ نہیں دیا تو کیا آپ اس موقف سے بھی پیچھے ہٹ جائیں گے جس پر اب ہماری گرفت بھی بھارت کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے کافی کمزور پڑ چکی ہے۔
قرآ ن کہتا ہے کہ "یہود و نصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے"حضور کا فرمان ہے "مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے"۔ شام، لیبیا، یمن، عراق افغانستان کشمیر میں کون سا ظلم ہے جو نہیں ہوا اور بطور مسلمان ہمیں سوچنا ہو گا کہ قرآن کے حکم اور اپنے نبی کے فرمان کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ او آئی سی نے ایسی صورتحال میں آج تک نہ تو کوئی عملی قدم اٹھایا اور نہ ہی ان کی مذمتی قراردادوں کے نتیجے میں ہمارا کوئی مسئلہ حل ہوا ۔ایسے اجلاس عموما اپنے اپنے ملکوں میں امت مسلمہ کا درد رکھنے والوں کو خاموش کروانے، ممکنہ عوامی رد عمل سے بچنے اور اپنی طرف سے بھرپور جدوجہد کا تاثر دینے کیلئے بلائے جاتے ہیں ۔ اگر یہاں سنجیدگی کا کوئی ایک عنصر بھی موجود ہوتا تو وہ اسلامی ممالک جہاں اسرائیل کے سفیر موجود ہیں انہیں ملک بدر کیا جاتا ، تیل کی طاقت رکھنے والے ملک تیل کی فراہمی کا سلسلے کو منقطع کرتے اور دیگر اپنے اپنے ملکوں میں اسرائیلی مصنوعات اور تجارت کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیتے۔لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا کیونکہ پیسے کی ہوس نے عرصہ دراز سے مذہب اور معیشت کو الگ الگ پیمانوں میں رکھ کر تولنا شروع کر دیا ہے۔ بالکل اسی طرح اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی مسلمانوں کے حق میں کبھی کوئی موثر آواز آج تک نہیں اٹھی اور ایسے موقعوں پر سوائے فریقین سے جنگ بندی کی اپیلوں کے کوئی رد عمل سامنے نہیں آتا ۔یورپی یونین کو پاکستان میں دو قیدیوں کی صحت پر بہت تشویس ہے جس کا ذکر حالیہ پاکستان کے خلاف لائی جانے والی قرارداد میں دو ٹوک کیا گیا اور فلسطین میں مسلمان بچوں، عورتوں اور نہتے نوجوانوں کی جلی ، کٹی اور مسخ شدہ لاشیں ان کے نزدیک کسی ذکر اور افسوس کی متحمل نہیں ہیں ۔اس سے یہ حقیقت تو کھل کر سامنے آتی ہے کہ عالم کفر مسلمانوں کے خلاف اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لئے کتنے منظم ، یکسواور یکجا ہیں اور دوسری طرف ہم کتنے بکھرے ، سہمے ، ڈرے اور ریزہ ریزہ دکھائی دے رہے ہیں۔انسانی حقوق کی مغرب نواز تنظیمیں اور ذرا ذرا سی بات پر موم بتیاں لے کر نکلنے والی آنٹیاں جانے ایسی ریاستی دہشت گردی پر کون سا نشہ کر کے سو رہی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ اس وقت مسلم امہ اجتماعی حقیقی قیادت سے محروم ہے ۔ پورے خطۂ عرب نے کبھی بھی آگے بڑھ کر مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر نے کا بیڑا نہیں اٹھایا ۔سعودی عرب کو حرمین شریفین کے سبب مرکزی حیثیت کے تناظر میں عالمی طاقتیں صرف مسلم امہ کے اتحاد میں رکاوٹ بننے کے لئے ہی استعمال کرتی ہیں جس کی تازہ ترین مثال ترکی، پاکستان اور ملائشیا کے تعاون سے ہونے والی اسلامی کانفرنس تھی جس میں شرکت سے پاکستان کو روک کر اسے غیر موثر اور بے نتیجہ کر دیا گیا۔ باہمی اختلافات کے زہر نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کرنے کے بعد کاٹ کے رکھ دیا ہے ۔سلام ہے ارض فلسطین کے بیٹوں کو جو قبلۂ اول بیت المقدس اور اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہیں اوراپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے جا رہے ہیں ۔ کاش مسلم امہ کی قیادت ان کا اتنا سا تقاضا ہی پورا کر دیتی جس میں انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ مسلم حکمران ہماری مدد کو بیشک نہ آئیں لیکن اپنے پاس موجود زنگ آلوداسلحے کے ڈھیر میں سے ہی کچھ ہمیں دے دیں تا کہ ہم غلیلوں اور پتھروں اور اپنے جسموں کی ڈھال سے تھوڑا آگے بڑھ کر جدید اسلحے سے لیس سفاک فوج کا مقابلہ کر سکیں ۔ موجودہ مسلم قیادتوں کی اکثریت صیہونی قوتوں کی آلہ کار اور ان کے مفادات کی محافظ بن کر اپنے اقتدار کو بچانے میں مصروف کارہیں ۔لیکن یاد رکھیے کہ یہ باری آہستہ آہستہ سب کی آئے گی، عراق، شام، لیبیا،افغانستان اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہیں تنہا تنہا کر کے ذبح کیا گیا ۔امت مسلمہ کی بقا صرف خود کو کو نئے سرے سے بطور امت متحدکرنے اور ذاتی مفادات کی دلدل سے نکل کر امت کے اجتماعی مفاد کی طرف پیش قدمی کرنے میں مضمر ہے ۔ ورنہ کل ہر کسی کو اپنی اپنی باری پہ فلسطینیوں کی طرح یہ جنگ اکیلے ہی لڑنی ہو گی ۔ایک بہت اہم بات پہ ذرا دل کو تھام کے غور کیجئے کہ اسرائیل کی حکومت اور فوج معصوم بچوں، عورتوں اور نہتے نوجوانوں ، بلند و بالا عمارتوں اور مسلمانوں کی مذہبی عبادت گاہوں کو محض اپنے کٹر مذہبی عقائد ونظریات کی بنا پر تہ و تیغ کررہے ہیں جس کے پیچھے ان کی مذہبی روایات، اور پیش گوئیاں کار فرما ہیں اور وہ ان کو سچ ثابت کرنے کےلئے کسی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کر رہے جبکہ ہمارے ہاں پروان چڑھائی جانے والی لبرل سوچ اور پرورش پانے والا سیکولر مافیا یہاں مذہب کے حوالے سے ہونے والی ہربات کو انتہا پسندی اور اسلام کی ٹھیکیدار ی کا نام دیتا ہے ۔اور ہاں جاتے جاتے یاد آیا کے چونتیس اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک مشترکہ فوج کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کی سربراہی ہمارے سابق آرمی چیف کو سونپی گئی تھی ۔امت مسلمہ کو کم از کم اس کے اغراض و مقاصد سے ہی آگاہ کر دیا جائے تا کہ وہ مطمئن ہو سکیں کہ اس کے قیام کا وہ مقصد ہر گز نہیں تھاجو ہم سب سمجھ رہے ہیں۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سرور حسین کے کالمز
-
جرم ٹھہری ہے پردہ داری بھی
منگل 15 فروری 2022
-
تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ میں صدر مملکت کا خطاب
جمعہ 4 فروری 2022
-
لے کے جنت میں فرشتے تمہیں جائیں خالد
جمعرات 23 دسمبر 2021
-
ایف ۔سی کالج۔۔۔کچھ یادیں
پیر 20 دسمبر 2021
-
حسانؓ بن ثابت نعت سینٹر کا قیام اور افتتاحی تقریب
منگل 14 دسمبر 2021
-
"ایک پیج پر" اور اسد اللہ غالب
بدھ 8 دسمبر 2021
-
"خدا اور محبوب خدا "کی تقریب رونمائی
بدھ 1 دسمبر 2021
-
یقین،محبت، اطمینان اور پروفیسر احمد رفیق اختر
بدھ 24 نومبر 2021
سرور حسین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.