حرم کی رونقیں کب بحال ہوں گی؟

ہفتہ 10 جولائی 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

چند روز پہلے ایک دس سیکنڈ کا مختصر سا کلپ بہت زیادہ شئیر کیا گیا جس میں ایک ہی دن جرمنی میں ہونےوالے ایک فٹ بال میچ میں تماشائیوں سے کھچا کھچ بھراہوا سٹیڈیم اور ساتھ ہی حرم کعبہ کے خالی صحن میں گنتی کے چند افراد طواف کرتے دکھائے گئے۔کہتے ہیں کہ ایک شخص کی میلے کے دوران چادر رش کی وجہ سے گم ہو گئی تو واپس آنے پر لوگوں نےاس سے  پوچھا کہ میلہ کیسا تھا تو اس نے جواب دیا کہ میلہ تو سجایا ہی میری چادر چرانے کے لئے تھا۔

جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ کرونا  کی آڑ میں بچھائے جانے والے جال کے پیچھے  دراصل مسلمانوں کے مراکز میں ہونے والی اجتماعیت کے شکوہ، حرم میں اہل ایمان کا جم غفیر اور حج کے  فقید المثال اجتماع کو روکنے کی سازش ہی کام کر رہی تھی ۔

(جاری ہے)

گزشتہ دو سال میں کرونا کےسبب جہاں دنیا بھر میں بہت تبدیلیاں رونما ہوئیں وہاں اہل اسلام کے مراکز حرمین شریفین اور پورے سعودی عرب میں مساجد کا عملاً بند ہو جانا ایک ناقابل یقین واقعہ ہے۔

اس عرصے میں میں ایسی  حیرت انگیز چیزیں سامنے آئیں جن کا بطور مسلمان ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ کرونا کا آغاز ہوتے ہی حرم میں داخلے پہ ایسی سخت پابندی عائد کر دی گئی کہ اپنے اپنے ملکوں سے احرام باندھ کر آئے ہوئے زائرین کو بھی طواف اور عمرے کی اجاز ت نہیں دی گئی اور وہ لوگ کعبۃ اللہ کی دیواروں کے باہر ہی کئی روز اجازت ملنے کے انتظار میں بیٹھے رہے اور بلآخر انہیں اسی حال میں احرام کھول کر  نم آنکھوں اور بوجھل قدموں سے واپس لوٹنا پڑا۔

بطور مسلمان اس اذیت اور کرب کا عملی طور پر اندازہ  کرنا ایک بھیانک خواب محسوس ہوتا ہے۔اس سے قبل سعودی عرب میں مقیم خارجیوں کی زندگی ایک تسلسل سے عذاب بنائی جا رہی تھی ۔ان پر اتنے بھاری ٹیکسز عائد کر دئیے گئے تھے کہ ان کے لئے اب وہاں قیام تقریبا ناممکن ہوتا جا رہا تھا ۔اپنی جمع پونجی سے کسی طرح وہ بھاری بھرکم سالانہ ٹیکس جمع کرواتے رہے مگر جب زائرین کو آنے سے روک دیا گیا تو  وہ دونوں طرف سے شکنجے میں کس گئے۔

ایک طرف ٹیکسوں کی سر پہ لٹکتی تلوار اور دوسری طرف ذرائع آمدن کی بندش ،جس کے نتیجے میں  مجبور ہو کر بیشتر اپنے اپنے وطنوں کو لوٹنا شروع ہو گئے ۔اس دوران  عمرہ بے نام کھولا تو گیا  لیکن اس کے اخراجات اس قدر رکھے گئے  جو عام آدمی کی پہنچ سے  بہت دور تھے ۔ قرنطینیہ کے بعد عمرہ کی محدود وقت کے لئے اجازت اور جلد ازجلد  حرم سے نکل جانےکا فرمان جاری ہونے لگا ۔

نمازوں کے لئے ایک ڈیجیٹل ایپ متعارف کروا دی گئی جس پر رجسٹرڈ ہونا  لازم اور موبائل پر اس کی منظوری کا پیغام موصول ہونےپر ہی آپ حرم میں داخل  ہو کر صرف نماز پڑھ سکتے ہیں، طواف یا تلاوت قرآن نہیں ۔نماز کےلئے بنائے گئے دائروں سے باہر نکل کر کوئی غلطی سے بھی بیٹھ گیا  یا ماسک ناک سے ذرا نیچے ہوا تو اس کوبھاری جرمانے کا چالان ہاتھ میں تھما دیا گیا  ۔

بیت اللہ میں جوق در جوق حاضری دینے والوں کو ڈیجیٹلی ایک نظام کے تابع ہونے پر مجبور کر دیا گیا ۔لاکھوں کروڑوں ریال کے شاپنگ مال ویران اور ان کے کرایہ ادا کرنےو الے انہیں بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔اس دوران ٓب زم زم کا پلانٹ بھی بند کر دیا گیا ،حرم کے اندر موجود کولر اٹھوا دئیے گئے اور نلکوں میں صرف ہوا اباقی رہ گئی اوراندر کام کرنے والوں کو بھی زم زم میسر نہیں رہا۔

اب زمزم کی بوتلیں اٹھائے  ڈیجیٹل روبورٹ متعارف کروا دئیے گئے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اب وہاں وہ پہلے والی تل نہ دھرنے کی کیفیت  نہیں بننے دی جائے گی ورنہ وہاں تو  ہجوم میں چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا ہے یہ بیچارے  روبوٹ کہاں گھومیں گے۔پہلے ہر زائر کم و بیش بیس لیٹر کی زم زم کی بوتل خود بھر کے  لےآتا تھا ، پھر اسے دس لیٹر کر دیا گیا، پھر پانچ اور اس کے بعد خود لانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی اور ایک بوتل قیمتاً ائرپورٹ پر دی جانے لگی ۔

حرم میں سے قرآن پاک اٹھوا دئیے گئے  اور عمرہ کرنے والوں کے علاوہ طواف کرنے  کی  سہولت بھی ختم کر دی گئی ۔حجر اسود ، غلاف کعبہ اور باب ملتزم تک رسائی جانے اب کب ممکن ہو سکے گی ۔ یعنی اب نہ بارگاہ الہٰی میں خلقت کا وہ ٹھاٹھیں مارتا ہجوم دکھائی دے گا، نہ حجر اسود کو چومنے  کے لئے ہونے والی تگ ودو باقی رہے گی، نہ دیوار کعبہ سے لپٹ کر گریہ وزاری کرنے کی سہولت میسر ہو گی، نہ غلاف کعبہ کو آنکھوں سے لگانے کا اعزاز حاصل ہو گا، نہ زم زم کو پیٹ بھر کر پینے کا کیف رہے گا ۔

غرض کہ  اب آپ کو ہر وقت گھڑی کی سوئی پر نظر رکھنی ہے اورکیفیت و یکسوئی کی بجائے اپنے وقت سے پہلے پہلے حاضری اور دیگر امور کو سرانجام دینے کی فکر لاحق ہو گی۔مدینہ منورہ کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں رہی۔ وہاں نماز کی اجازت  توکسی طور دے دی گئی لیکن ریاض الجنہ اور روضہء رسول کی حاضری کو بھی ڈیجیٹل ایپ کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا۔

اگر غور کریں تو مسلمانوں کا اپنے روحانی  مراکز سے رابطہ عملاً ختم کر دیا گیا ہے اس میں ہونے والی نقل و حرکت اب کنٹرولڈ فارم میں مہیا کی جار ہی ہے ۔ گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  ایک مکمل پلان تیار تھا جس پر عملدآمد کے لئے کسی ایسے ہی وقت کی تلاش تھی۔اس ساری صورتحال میں عالم اسلام کے کسی حکمران کی طرف سے انفرادی یا اجتماعی طور پر کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی اور نہ ہی عام مسلمانوں نےا س پہ ابھی تک کوئی موثر صدائے احتجاج بلند کی ہے جو ایک الگ المیہ ہے۔

اب جبکہ حالات کافی بہتر ہو چکے ہیں  لیکن اس کے باوجود  اس سال بھی حج کے لئے  باہر سے زائرین کو اجاز ت نہیں دی گئی  جسے سعودی عرب کا اندرونی معاملہ کہہ کر یکسر نظر اندا ز نہیں کیا جا نا چاہئے ۔اس سارے منظر نامے میں  وہاں سینما گھروں کو بہر حال کھول دیا گیا ہے جہاں سے عرب  فلم بینوں کے رش کے سبب ریکارڈ آمدن ہوئی ہے جس نے دنیا بھر کی سینما انڈسٹری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔

ایک اور خبر بھی عالمی میڈیا پر گردش کر رہی ہے کہ سعودی حکومت کی پوری توجہ دراصل  اسرائیل کی سرحد سے متصل پچیس ہزار مربع میل پر قائم کئے جانے والے شہر پر مرکوز ہے جسے دنیا کا جدید ترین شہر قرار دیا جا رہا ہے۔اس پر کام بہت تیزی سے جاری و ساری ہے ۔ سعودی حکمران یہودیوں کی آباد کاری  کے انتظامات کریں ، دنیا کے جدید ترین شہر بنائیں، اپنے بادشاہت  کو طول دینے  کے لئے ہر حربہ استعمال کریں لیکن امت مسلمہ  کو اپنی محبتوں کے روحانی مراکز سے دور نہ  کریں ،انہیں یہاں آ کر اپنے خالق و مالک کے حضور  آنسؤوں میں لپٹی فریادیں پیش کرنے میں رکاوٹیں پیدا نہ کریں ، انہیں اپنی شفاعت کے لئے  رحمت عالم ؐ کی بارگاہ میں گناہوں کی گٹھڑی اٹھا کے لانے میں مشکلات کھڑی نہ کریں بلکہ ان کی امیدوں اور  آرزؤں کی آخری  منزل تک رسائی میں آسانیاں پیدا کریں۔

بس ہمیں اور کچھ نہیں چاہئے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :