ایک اور عمارت زمیں بوس ‘ذمہ داران کے منہ پرایک اور طمانچہ

پیر 8 جون 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

اور ایک بار پھر ٹی وی کی اسکرین پر وہی دلخراش مناظر دیکھ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کھڈا مارکیٹ لیاری کی چھ منزلہ عمارت کو زمین بوس ہوئے‘ امدادی ٹیموں کو جائے حادثہ پر پھنسے ہوئے زخمیوں اور لاشوں کو تلاش کرتے ہوئے اور ایک بار پھر میرا دل چاہ رہا ہے ان لوگوں کے دامن پکڑکر سوال دراز کرنے کا کہ اب کتنے حادثے اور ہونے ہیں؟
گزشتہ دنوں کراچی میں ہلکا سا ایک طوفان آیا ‘ چند سیکنڈ کے طوفان نے شہر کا حشرنشر کردیا اور کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

ایسے میں مجھے ان عمارتوں کا خیال بھی آیا جو مخدوش قرار دی جاچکی ہیں لیکن ان میں لوگ ابھی بھی آباد ہیں اور ہمیں یہ بتارہے ہیں کہ مستقبل میں ان آنکھوں کو مزید ایسے کئی حادثے دیکھنے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا لاوارث ملک ہے جس کو لوٹنے گھسوٹنے والے تو بے شمار ہیں لیکن اس کے درد کا درماں کرنے کی ذمہ داری لینے والا کوئی نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اس روشنیوں کے شہر کی325عمارتوں کو کئی سال قبل مخدوش قرار دیا جاچکا ہے ۔

لیاری ٹاؤن جہاں یہ عمارت زمیں بوس ہوئی ہے میں ابھی مزید39عمارتیں ایسی جو ناقابل استعمال اور مخدوش کے زمرے میں آتی ہیں۔ذمہ دار ادارے کی ٹیکنیکل کمیٹی بارہا خبردار کرچکی ہے کہ ایسی عمارتوں کے تعمیراتی ڈھانچے انتہائی مخدوش ہیں جس کے باعث یہ عمارتیں ناقابل رہائش و استعمال ہیں اور کسی بھی وقت حادثاتی طور پر زمین بوس ہوکر قیمتی انسانی جانوں اور املاک کے نقصانات کا سبب بن سکتی ہیں۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے ایسی عمارتوں کے مکینوں وقابضین کو بارہاانتباہی نوٹس جاری کئے گئے ہیں تاہم مکینوں کی جانب سے انخلاء کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ۔
برسبیل تذکرہ کہتی چکوں کہ ادارے کی سرکاری ویب سائٹ پر مخدوش اور خطرناک عمارتوں کے اعدادو شمار288درج ہیں جو یکم جون2015کو آخری بار اپ ڈیٹ کئے گئے تھے۔
ماضی میں کئی بار ایسی عمارتوں کے انہدام اور ان کے مکینوں کیلئے متبادل رہائش کی فراہمی کی تجاویز پیش کی گئیں ‘کئی اجلاس ہوئے ‘ فوری کارروائی کی بات بھی کی گئی لیکن اتنا سب بھی سابق ڈپٹی کمشنر محمد حسین سید کے دور تک ہی ہوا ۔

ان کے بعد اس باب میں راوی خاموشی ہی خاموشی لکھتا ہے ۔
یہ بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ بارہا نوٹسوں کے اجراء کے باوجود لوگ ا ن گھروں کو خالی کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ ان کا موقف بہت جائز ہے کہ وہ گھر خالی کرنے کے بعد جائیں گے کہاں؟ ایسے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان عمارتوں میں رہنا موت سے کھیلنے کے مترادف ہے لیکن ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے۔

حکومت کی جانب سے عمارتوں کو خالی کرانے کے نوٹس دیئے جاتے ہیں لیکن ان غریبوں کیلئے متبادل رہائش کی کوئی نوید نہیں سنائی جاتی۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مخدوش رہائشی عمارتوں کو فوری طور پر خالی کراتے ہوئے کوئی ایسی اسکیم بنائی جائے جس سے یہ اہم مسئلہ حل ہوسکے۔ان عمارتوں کے رہائشیوں کو متبادل رہائش‘ کوئی سستی رہائشی اسکیم‘ مالکان کو تعمیر نو کیلئے کم شرح اور آسان اقساط پر قرضوں کی فراہمی اور ملک کے مخیر حضرات کی مدد سے مکانات کی تعمیر نو سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ آخر عمارت کے زمین پر آجانے کے بعد بھی تو مرنے والوں کے لواحقین کو کچھ نہ کچھ دیں گے ہی تو پھر ان کی زندگی میں ہی ان کے مسائل حل کرکے ان کی جانیں اور اپنی عزتیں کیوں نہ محفوظ کرلی جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :