مہنگائی اور عوام

جمعہ 10 جنوری 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

تبدیلی سرکار کو ایک سال سے ذیادہ عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ملک میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے‘ عوام اسی طرح بے حال‘ مجبور اور لاچار ہیں جس طرح گزشتہ ادوار میں تھے اگر کچھ بدلا ہے تو صرف اتنا کہ مہنگائی کی شرح پہلے سے دوگنی ہو چکی ہے‘ غریب بیچارہ تو دو وقت کی روٹی سے بھی قاصر ہے اور سفید پوش افراد اپنی عزت اور آبرو کو بچاتے بچاتے ہلکان ہو چکے ہیں۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ان اندھے‘ گونگے اور بہرے حکمرانوں کو کیا سمجھوں ان بے حس اور بے ضمیروں کو کیا حال سناؤں‘ یقین کریں کبھی تو دل اس قدر مضطرب ہوجاتا ہے کہ ان مسائل و مصائب پر نوحہ کنائی کرنے کو کرتا ہے۔ مگرحکو مت کا وہی ایک راگ ہے کہ ان کے لیے حالات آسان نہیں ہیں ان کو خزانہ خالی اور قرضے وراثت میں ملے ہیں۔

(جاری ہے)

 

کس قدر آسان ہوتا کہ گزشتہ دور کے حکمران میٹرو پر سبسڈی دینے کی بجائے اگر یہی سبسڈی ادویات‘ دالوں‘ چاولوں‘ آٹے‘ گھی‘ شکر اور دودھ پر دیتے تو عوام اس حال کو نہ پہنچتی‘ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جا نے کے بعد اب حکومت کی طرف سے ستر ارب کی سبسڈ ی یو ٹیلٹی اسٹور کو دینے کی بجائے صرف سات ارب روپے دے کر اپنی بے حسی پر پردہ ڈالنے کی کو شیش کی جا رہی ہے۔

حا لا نکہ کم از کم ستر ستر ارب کی سبسڈ ی بجلی اور گیس پر بھی دی جا نی چا ہئیے تھی اب بھی اگر حکومت لکیر پیٹنے کی بجائے اپنا قبلہ درست کر لے تو عوام کی حالت میں کسی حد تک تبدیلی ممکن ہے‘ کیونکہ کسی بھی فلاحی معاشرے میں زندگی کی روز مرہ کی اشیاء کو عوام کی پہنچ میں رکھنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اس کے علاوہ عوام کو کم از کم کچھ تو رلیف ملنا چاہیے سادہ فارمولا ہے کہ ان کے استعمال کی چند اشیاء پرٹیکس ختم کر دیا جائے اور بدلے میں غریب اور مسکین عوام کیلئے فوڈ بینک کا قیام عمل میں لایا جائے کہ جو عوام غربت اور لاچاری کے باعث اشیائے خوردنوش تک رسائی نہیں رکھتے ان کو فوڈ بینک سے مفت راشن فراہم کیا جائے‘ پانچ سو یونٹس تک بجلی پر سبسڈی دی جائے‘ گیس ایران سے لی جائے اور فوری طور پر ان لوگوں کو فری گیس فراہم کی جائے کہ جن کی تنخواہ 50000سے کم ہے‘ ان کو سستا پیٹرول فراہم کرنے کیلئے سبسڈی دی جائے ان کو خاص مقدار میں ماہانہ پیٹرول مفت یا کم نرخوں پر فراہم کیا جائے‘ گھروں کی تعمیر کا کام اگر تاخیر کا شکار ہے تو عوام کو ان کے گھروں کے کرایہ پر امداد فراہم کی جائے‘ بیواؤں‘ یتیموں اور محتاجوں کی مدد کی جائے‘ ان کے علاج کی یکساں اور مفت سہولیات فراہم کی جانی چاہیے۔

کیا یہ سب کچھ ان حکمرانوں کو نظر نہیں آتا کہ ان کے سامنے عوام دہائیاں دے رہے ہیں مگر سابق حکمرانوں کی طرح ریاست مدینہ کے دعویدار بھی کسی قسم کا عملی قدم اٹھانے سے کوسوں دور ہیں۔ 
اصل مسائل تو کسی کو بھی نظر نہیں آتے‘ بے چارے غریب عوام کو تو صرف عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی اور چھت ہی درکار ہے اس سے بڑھ کر یہ بیچارے کیا مانگتے ہیں‘ دنیا بھر میں عوام کی روز مرہ کے استعمال کی اشیاء پر ٹیکس کم سے کم یا پھر بالکل نہیں لگایا جاتا مگر یہاں خاص طور پر روزہ مرہ کے استعمال کی اشیاء پر ٹیکس بڑ ھا چڑ ھا کر لگایا جاتا ہے اور حکو مت لگائیں بھی کیوں نہ‘ یہاں اسمبلیوں میں کون ہے جو سراج الحق کی طرح غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ کون ہے جو عوام کا دکھ درد جانتا ہے‘ کس نے غربت دیکھی ہے‘ کس کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہے‘ کس کو غریبوں کی فکر ہے‘ یہ سب تو دولت اور اقتدار کے نشے میں اس قدر دھت ہیں کہ ان کو عوام اور ان کے مسائل کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں‘ ان کی محفلیں رنگین اور ان کی زندگیاں آسان ہیں‘ ان کو دو وقت کی روٹی تو کیا آنے والے پچاس سال تک کی کوئی فکر نہیں۔

یہ کبھی اپنی مسندوں سے نیچے اتر کر دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ عوام کس طرح پس رہے ہیں۔
 نواز شریف کا وہ بیان میرے کانوں میں بار بار گونجتا ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ ”اگر مجھے معلوم ہوتا کہ انصاف اس قدر مہنگا ہے تو میں ضرور اس کیلئے کچھ کرتا“ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے سابق اور موجودہ حکمران مقدس بیل ہیں ان سے کچھ نہ پوچھا جائے‘ کوئی سوال نہ کیا جائے اور اگر پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ سابق ادوار کا گند ہے ایک سال میں کیسے صاف ہو‘ ان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ”ان کا کچھ نہ جاننا ان کے کچھ نہ کرنے سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے“
 عنقریب انہیں اپنے ان اعمال کا جواب دینا ہوگا‘ اللہ پاک اپنے سے متعلقہ غلطیاں تو در گزر کر دینگے لیکن ان کمزور انسانوں سے کیا گیا سلوک کبھی معاف نہیں کرینگے۔

پنجاب حکومت کی نااہلی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ ان کے بس کا کام نہیں‘ کس قابلیت کی بنیاد پر عثمان بزدار کو پنجاب جیسے بڑے صوبے کا انچارج لگایا گیا ہے کہ جنہوں نے ایک سال میں پنجاب کی عوام کو کچھ نہیں دیا‘ نہ تو تعلیم کا نظام درست کیا‘ نہ فیسوں میں اضافے پر شور مچاتے والد ین کی شنوائی ہوئی‘ یہاں تک کہ کوئی میڈیا کوریج بھی ان مجبور والدین کو نہیں دی گئی کہ ان کی آواز ہی اقتدار اعلیٰ تک پہنچ جائے‘ پولیس کی کرپشن‘ ہسپتالوں کا نظام‘ عدالتوں اور انصاف کا نظام سب کا سب اسی طرح ہے کہ جیسے پچھلی حکومتیں چھوڑ کر گئی ہیں‘ کوئی منصوبہ بندی نہیں‘ کوئی عملی کام نہیں۔

ارے میرے بھائی کچھ تو پلان دو‘ کچھ تو عملی اقدامات اٹھاؤ‘ پولیس اور ہسپتالوں کا نظام درست کرنے میں تمہارا کیا جاتا ہے اس کیلئے تو صرف احساس اور منصوبہ بندی کیساتھ تھوڑی سی انتظامی صلاحیتوں کی ضرورت ہے مگر آپ تو اس میں بھی صفر بٹا صفر اور مایوس کن کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
 میں مان بھی لوں کہ ایک سال بہت کم ہے‘کسی بھی عملی اقدامات کیلئے یا کسی بھی منصوبہ بندی کیلئے تو ذرا اس چیز کا بھی جواب دینے میں آپ کو پانچ سال کا عرصہ درکار ہے کہ اب تک آپ نے الیکشن کمیشن کو بھی درست کرنے کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی عوام کے سامنے پیش نہیں کی کہ جس کا دعویٰ آپ روز اول سے کر رہے ہیں۔

 
یاد رکھیں! ریاست مدینہ کا ماڈل صرف زبان سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور اگر اب بھی آپ نے سست روی سے کام لیا تو یاد رکھئے خدا بار بار موقع فراہم نہیں کرتا اور عمران خان صاحب جو شعور آپ نے عوام کو دیا ہے وہی شعور آپ کے تابوت میں آخری کیل ثابت نہ ہوجائے اب بھی وقت ہے اپنے اردگرد موجود کھوٹے سکوں کو باہر نکال دیجئے‘ اپنی ٹیم میں اپنے جیسے ایماندار اور انصاف پسند لوگوں کو شامل کیجئے‘ اس کرپٹ بیوروکریسی کو تبدیل کرکے ایماندار لوگوں پر مبنی افسران لگائیے تاکہ آپ کو فیل کرنے کی جو سازش آپ ہی کے ایوانوں میں ہو رہی ہے اس کا راستہ روکا جاسکے۔ وگرنہ تمہاری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :