ایران پر اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ نا گزیر ہے

جمعرات 28 مئی 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

اس وقت کہ جب پوری دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور اس مشکل گھڑی میں ساری دنیا اس موذی مرض سے لڑنے کے لیے قدم سے قدم ملا کر چلنے کو تیار ہے وہاں بلاشبہ ہر آنے والا دن پوری دنیا کو اجتماعی اور انفرادی طور پر ایک دوسرے کے تجربات اور تحقیق سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے سر گرم عمل کیے ہوئے ہے۔ پوری دنیا کا مو ضوعِ گفتگو اِس وقت صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے انسا نیت اور انسانوں کو اس موذی مرض سے بچانے کے لیے کوشیش اور کاوش کرنا -اب ایک طرف تو ترقی یا فتہ ممالک کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں تو دوسری طرف اس پریشان کُن دور میں تاریخ کی آنکھیں اب بھی چند تاقتور ممالک کی طرف سے دوسرے ملکوں کے لیے مساوی حقوق، انسان دوستی، احساس ، بھائی چارے اور رواداری کا مظاہرہ دیکھنے کی منتظر ہیں۔

(جاری ہے)

اب تو حالت یہ ہے کہ کئی ملکوں، قوموں اور ان کے شہریوں، یہاں تک کہ ہمسایوں، دوستوں اور رشتہ داروں نے بھی اس موذی مرض کو شکست دینے کے لیے سوشل سوسا ئٹی سے دور رہنے اور ایک دوسرے کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے تنہائی اختیار کرنے تک کو قبول کر لیا ہے کیونکہ اس کا مقصد یقینناً اس وائرس کے پھیلاؤ کے سامنے بند با ندھنا ہے۔
برطانیہ اور یورپ کی صورت حال تو یہ ہے کہ شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں اُجاڑ اور ویران ہو چکی ہیں۔

یورپ میں تیزی سے وا ئرس اپنے پنجے گارڈ چکا ہے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ حالات بہت مشکل، پیچیدہ اور افسوسناک ہیں ان مشکل ترین حالات کے باوجود اُمید ہے کہ اللہ کوئی راستہ ضرور دیکھا ئیں گئے اور اسکے خالق کے فضل سے دنیااس موذی مرض پر قابو پانے میں کا میاب ہو جا ئے گی۔ کیونکہ ہمارا یقین کامل ہے کہ اُس خدا کے سوا نہ تو کوئی موت دے سکتا ہے اور نہ ہی زندگی بخش سکتا ہے۔

اُس کی مدد اور ایا نت ہی ہمارا واحد سہارا ہے اِس کے سوا اب کوئی چارہ نہیں اور ہمارے لیے وہ ذات پاک ہی کافی ہے ویسے بھی خدا سے اُمید کا دامن چھوڑنا کفر کے مترادف ہے۔ ۔۔
اب تو کمال یہ ہے کہ جہاں اس افراتفری اور نفسانفسی کے دور میں بہت سے ممالک ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا ایادہ رکھتے ہیں اور یورپ جیسے مادہ پرست معاشرے میں بھی عمومی ہمسا ئے، عزیز و اقارب اور دوست احباب تک ایک دوسرے کی مدد اور راہنمائی میں پیش پیش ہیں وہاں ان مشکل حالات میں تاریخ گواہ ہے کہ ایک قوم اب بھی تنِ تنہاء اس موذی مرض سے لڑ رہی ہے جو ہمت اور بلند حوصلے کے ساتھ عزم استقلال کا پہاڑ بنے اللہ پر بھروسے کے ساتھ اُس کی مدد اور نصرت کی منتظر ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ایران میں اموات کی سطح بہت زیادہ ہے یہ قوم کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے شہریوں کی ہر دس منٹ میں ایک لاش اُ ٹھا رہی ہے مگر مجال ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کو مدد کے لیے پکارا ہو۔

آفرین ہے ایران کی اس غیور اور با وقار قوم پر کہ آنکھوں میں نمی اور خدا سے رحم کی اپیل مگر زبان پرکوئی شکوہ نہیں، ہر حال میں شکر کے کلمات زیرِ لب اور کندھوں پر اپنے پیاروں کی لاشیں، حالات یہ ہیں کہ قبریں کھود کھود کر قبرستان بھرتے جا رہے ہیں مگر کرونا کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ 
ایران اس وقت امریکہ، چین اور اٹلی کے بعد سب سے زیادہ کرونا وائرس سے متاثر ہے مگر ایران کے ان مشکل ترین حالات میں عالمی دنیا اور خاص کر امریکہ بہادر مجرمانہ خاموشی کا شکار ہے۔

امریکہ نے ایران پر جو اقتصادی پابندیوں کا اطلاق ٹرمپ حکومت کے آنے بعد کیا تھا اس میں دن بہ دن مزید سختی آتی جا رہی ہے جو کہ ایک افسوسناک عمل ہے۔ ایران خطے میں سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے کہ جس پر تجارتی اور اقتصادی پابندیوں کے باعث ایران ا پنا تیل اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے سے قاصر ہے مگر ان پا بندیوں کا خمیازہ ایران کے علاوہ پوری دنیا مہنگا تیل خرید کر بھُگت رہی ہے۔

اگر ایران کو اوپن مارکیٹ میں تیل فروخت کرنے کی اجازت مل جائے تو اس کا فائدہ صرف ایران کو نہیں ہو گا بلکہ اس کا فائدہ دنیا بھر کے غریب ممالک کو بھی ہو گا ان کی صنعتی پیداوار اور عمومی زندگی میں بہتری آ جائے گی۔ 
اب کیا کہیے جناب طاقت کے نشے میں بدمست چند قومیں ان حالات میں بھی اخلاقی قدروں سے کوسوں دور ہیں جن کواس معا ملہ میں اپنے پیٹ سے آگے کچھ نظر نہیں آتا کوئی مرے یا جیے ان کو کوئی غرض نہیں میں حیران ہوں کہ کیا ان کو ایران کے ہر روز مرتے ہوئے انسان نظر نہیں آرہے،کیا ان کا دکھ اور درد نظر نہیں آرہا کیا ان کی مشکل اور پر ییشانی نظر نہیں آرہی کہ جو امریکی پابندیوں کے باعث ادویات اور طبعی آلات تک درآمد نہیں کر سکتے۔

اقوام متحدہ کو اس کا سخت نوٹس لینا چاہیے اور امریکہ کو اس بات پر نظر ثانی کر نی چاہیے کہ ایران پر سے فوری طور پر تجارتی اور اقتصادی پابندیوں کو تو ایک طرف کم از کم طبی آلات، میڈیکل اور ایمرجنسی کے لیے ادویات کی درآمد جیسی پابندیوں کو تو کرونا وائرس کی وجہ سے ایران پر سے یکسر اُٹھا لینا چاہئیے۔ در حقیقت اس وقت اصل میں انسانی جانوں کو بچانے کا مسئلہ درپیش ہے امریکہ اور اقوام عالم کو روائتی ہٹ دھرمی سے ہٹ کر انسان دوستی اور انسانیت کی اعلی مثال قائم کرنی چاہیے۔

یہ تو عالمی جنگی قانون میں بھی درج ہے کہ جنگ کے حالات میں بھی مخالف ملک کی میڈیکل یعنی طبی سہولتوں پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی مگر وہ ارسطو نے کیا خوب کہا تھا کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات پھنستے ہیں۔ بڑے جانور تو اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔
ان حالات میں ایران کے صدر حسن روحانی کا پاکستان کے وزیراعظم کو خط کے ذریعے عالمی ضمیر کو جگانے اور کم از کم اس وقت تک ایران سے پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کو کہا ہے کہ جب تک کرونا وائرس کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

اب وقت آ پہنچا ہے کہ اقوام عالم کو انسانیت اور ضد میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ظلم اور انصاف ایک جگہ اکھٹے نہیں رہ سکتے اگر چہ بے ضمیری اور بے شرمی ایک دوسرے کا ساتھ ضرور دے سکتی ہیں۔
 وزیر اعظم عمران خان نے اگرچے اس مطالبے کو دنیا کے سامنے رکھا ہے مگر اس شدت سے ابھی تک کوشیش نہیں کی گی جتنی شدت سے ان کو عالمی دنیا کے سامنے اس حقیقت کو اجاگر کرنا چاہئیے تھا۔

جیسا کہ میں نے پہلے متعدد بار ذکر کیا ہے کہ یہ مسئلہ ایران کا نہیں میرے نزدیک یہ مسئلہ انسا نیت کا ہے، انسان دوستی اور انصاف کا ہے۔ انسانیت ہی دنیا کا سب سے بڑا اصول ہے اسی اُصول پر عمل پیرا ہو کر دنیا کو ان حالات میں بچایا جا سکتا ہے۔ 
میں سلام پیش کر نا چاہتا ہوں ایدھی فاونڈیشن کو کہ جس نے ایک خطیر رقم حال ہی میں ایرانی حکومت کو اس کرونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عطیہ دی ہے جو کہ عالمی طاقتوں کے لیے ایک بہترین سبق ہے ذرا سوچیے اگر ایک چھوٹا سا خیراتی ادارہ ان انسانوں کا سوچ سکتا ہے کہ جن کو دنیا نے تنہا چھوڑ رکھا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں کو ان مظلوموں کی کسمپرسی نظر کیوں نہیں آتی۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اقوام عالم کو مل کر بلا تفریق اس مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہئیے۔ اس بات سے کو ئی انکار نہیں کر سکتا کہ مشکل وقت تو کسی نہ کسی طرح سے گزر جائے گا مگر اگر اس وقت ایران کے انسانوں کو بچانے کے لیے اُن کی حکومت کو مساوی حقوق نہ دئیے گئے تو یقینناًُتاریخ عالمی دنیا کے اس رویہ کو مجرمانہ غفلت اور سفاک عمل قرار دے گی۔

اب بھی وقت ہے دنیا کو ان بیاسی ملین انسانوں کو بچانے کے لئے اپنابھر پور کردار ادا کر کے تاریخ کو تبدیل کر دے اور اس میں پاکستان کو ببانگ دوہل آواز بلند کر کے اپنا حصہّ ڈالنا چاہئیے ورنہ ہم بھئی کہیں مظلوموں ایرانیوں کے قتل میں برابر کے شریک نہ ہو جائیں اور خالق کی بارگاہ میں جوابدہ ہو جائیں۔
 اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور دنیا بھر کے بے سہارا اور مظلوم انسانوں کا مدد گار ہو۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :