
مہذب قوم اور نسلی فسادات
اتوار 7 جون 2020

شیخ جواد حسین
(جاری ہے)
اگر اس ظلم کو پہلی دفعہ ہی پوری مزاحمت سے روکا ہوتا تو شاید امریکن افریقن کو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا اوراس طرح ان کو ظلم کی چکی تلے پیسا نہ جاتا اب تو شاید اس ظالمانہ نظام کو جڑ سے اُکھٹنے میں شاید کئی اور صدیاں درکار ہوں گئ بہرحال مجھے تو امریکی معاشرے میں اس کا جلد اختتام نظر نہیں آ رہا بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ نسل پرستی شاید کبھی ختم بھی نہ ہو اس کی بہت سی وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ انسانوں کی جبلت میں نسل پرستی کا شامل ہونا ہے چونکہ ہر شخص اگر بس میں ہو تو اپنی نسل اور قوم کو ہر معاملے میں اہمیت دینے کی کوشیش ضرور کرتا ہے۔
اس مشکل سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جو دنیا کو اسلام نے سکھایا ہے اور وہ ہےکہ کسی کالے کو گورے پر اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل ہے اور اگر فوقیت ہے تو صرف اُس کو کہ جو تقویٰ اختیار کرئے۔اسلام کی ان تعلیمات کا عملی نمونہ خدا کے رسول نے حضرت بلال حبشی سے ولہانہ محبت اور حسن سلوک کی صورت میں دنیا کو سیکھایا۔بہر کیف امریکہ میں نسل پرستی کا آغاز تو صدیوں پہلے ہو چکا تھا کہ جب ہم امریکی افریقن لیڈر کونٹی کینٹی کی نسلی تعصب کے خلاف جدوجہد اور ان کو قربانیوں کی عملی تصویر دیکھتے ہیں مگر اس کا دوسرا مرحلہ یا ماڈرن دور سےتھوڑا سا کچھ پہلے 1824 اور پھر 1831 میں شروع ہوا کہ جب ہارڈ سکریبل اینڈ سنو ٹاون کے علاقوں میں سیاہ فام لوگوں کے گھروں کو ظالمانہ طور پر مسمارک کر دیا گیا جس کے بعد جو تحریک برپا ہوئی اس سےبہت سی عمارتوں کو نقصان ہوا اور بہت سے افراد زخمی اور قید ہوئے۔ اس کے بعد تقریباً ہر سال دو سال کے بعد اسی طرح کے واقعیات ایک تسلسل سے دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔ اب تک تقریباً 159 سے زائد سیاہ فام کی نسلی تعصب کے خلاف قومی سطح پر تحریکیں قلم بند ہوچکی ہیں ان احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد جیلوں میں ڈالے گئے اور ہزاروں افراد موت کی وادی میں جا پہنچے۔
ان 159 سیاہ فام تحریکوں میں ہیومن را ہیٹس اور نسلی تعصب کے خاتمے کی بات کرنے والے بہت سے لیڈرز ہیں مگر چند سیاہ فام راہنماؤں کا نام واقعی قابل ذکر ہے کہ جن کا ذکر آگے چل کر کریں گئے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان افراد کو بھی گزشتہ دو تین صدیوں میں چن چن کر یا تو قتل کر دیا کیا گیا یا پھر خود کشی پر مجبور کر دیا گیا جس کی وجہ سے سیاہ فام کمیونٹی امریکہ بھر میں آج تک حقیقی لیڈرشپ سے محروم رہی ہے ۔ جب بھی امریکہ میں سیاہ فام افراد کی طرف سے مساوی حقوق کی آواز بلند ہوئی اُس نے موب یا رائیڈرز کی شکل اختیار کر لی کیونکہ نہ تو ان کی راہنمائی کرنے کے لیے کوئی جامع نصب العین موجود ہوتا ہے نہ کوئی جامع مقصد اور نہ ہی کو ئی درست سمت مقرر کی جاتی ہے اس کے برعکس صرف غم وغصہ نظر آتا ہے جس کے نتیجے میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھر او امریکہ کا مقدر بن جاتا ہے۔
اسی سلسلے کی ایک اور کڑی چند دن قبل منیا پولس میں دیکھنے کو ملی کہ جب نسلی فسادات کا سلسلہ امریکہ میں پوری شدید سے دوبارہ شروع ہو گیا جب جارج فلُو ائیڈ کو پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ابھی تک امریکہ کے حالات قابو میں نہیں ہیں ملک کی 24 ریاستوں میں سپیشل فورسسز کو مدد کے لیے بلایا جا چکا ہے ہر طرف جلاؤ گھراو اور پتھراو کا سلسلہ جاری ہے دو سو سے زائد عمارتوں کو نظر آتش کیا جا چکا ہے اور تین سو سے زائد پولیس کی گاڑیوں کو توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگائی جا چکی ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
اس پر ملک کے صدر ٹرمپ جلتی پر تیل چھیڑ کنے کا کام کر رہے ہیں موصوف کوئی فہم وتدبر سے کام لیتے تو بہتر ہوتا ۔ مگر حالیہ بیان میں بہت غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جہاں رائیڈرز ہو ں گئے وہاں حکومت کی طرف سے بُلٹ بھی ہو گئی۔
اس بیان کی بعد دنیا بھر میں مہذب قوم ہونے کا دعوی کرنے والی امریکی حکومت کی کلی کھل کر رہ گئی ہے اس حکومتی تھپکی کے بعد پولیس عوام کے ساتھ اس طرح معاملہ کر رہی ہے کہ جیسے کسی دشمن قوم کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ چشمہ فلک نے وہ واقعیات بھی دیکھے کہ جس میں پولیس امریکی افریقن خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹ رہی ہےاور یہ پولیس کا ایک بھیا نک ترین چہرہ تھا۔
خیر بات ہو رہی تھی ان قابل ذکر شخصیات کی کہ جنہوں نے امریکہ میں نسلی تعصب کے خلاف آواز حق بلند کی ان میں میلکم ایکس شامل ہیں کہ جہنوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا انہوں نے اسلام کو دنیا کا واحد مذہب قرار دیا کہ جو دنیا بھر کے انسانوں کو ایک ہی آنکھ سے دیکھنے کی تلقین کرتا ہے انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر نسلی فسادات اور تعصب کا کوئی حل ہے تو صرف اسلام میں ۔ اس نے مزید لکھا کہ مسلمانوں سے زیادہ بھائی چارہ ، محبت اور مساوی حقوق انہوں نے کہیں اور نہیں دیکھے۔ اسی طرح ایک اور قد آور شخصیت مارٹن لوتھرکنگ کی تھی کہ جس نے امریکی تعصب پسندی کے خلاف آواز بلند کی اور امریکہ میں مساوی حقوق کی بات کی ،سیاہ فام امریکی افریقن کو ایک نسل کی بجائے ایک قوم بنانے کی بات کی ، اُنہوں نے امریکہ کی تاریخ میں سیاہ فام ہونے کے باوجود سب سے زیادہ عوامی پزیرائی اور محبتیں سمیٹیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت جلد امریکہ کی قومی اسمبلی میں پہنچ گئے اور 1955 میں منٹگومری بس بائی کاٹ سے عوامی حقوق کی تحریک کا آغاز کیا اور پھر 1962 میں یہ سلسلہ نسلی تعصب کے خاتمے کی تحریک شکل اختیار کر گیا اور پھر یہاں تک کہ مارٹن لوتھر کنگ نے چند سالوں میں ہی اس تحریک کو ملکی تحریک بنا کر کھڑا کر دیا یہاں تک کہ انہوں نے واشنگٹن ڈی سی کا قومی شعبہ زندگی غریب لوگوں کی تحریک کے نام سے منصوب کرنے کی کوشیش شروع کر دی۔ 1964 میں انہوں نے نوبل پیس پرائس بھی جیت لیا اور ان کو صدارتی ایواڑ سے بھی نوازا گیا۔مگر ایک سازش نے ان کو صرف 39 سال کی عمر میں ہی جہان فانی سے کوچ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ما رٹن لوتھر نے زندگی کی چالیس بہاریں بھی نہ دیکھیں مگر دنیا میں نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے اس قدر کام کیا کہ ان کوامریکہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مشکل گھڑی میں امریکہ میں موجود تمام قوموں کو مل کر اس نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں ابھی تک سب سے گراں قدر خدمات امریکہ میں موجود پاکستانی مسلمانوں کی طرف سے دیکھنے میں آئی ہیں جن میں امریکی صدر کے مشیر ساجد تارڈ اور ڈی ایف ڈبلیو مسلم کمیونٹی کے صدر مبشر وڑائچ نے سیاہ فام افراد اور پولیس کے درمیان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت کو بہترین تجاویز پیش کی ہیں جن میں انہوں نے امریکہ میں موجود تمام افراد کو نسلی تعصب سے پاک مساوی حقوق دینے پر زور دیا ہے شاید کہ ان کی بات امریکی صدر کی سمجھ میں بھی آ جائے۔ ڈی ایف ڈبلیو نے چند شہروں سے کام کا آغاز کرتے ہوئے پولیس اور عوامی سطح پر روابط کا سلسلہ بڑھا کر عملی فوائد حاصل کرنا شروع کر دئیے ہیں اس وقت امریکی شہر ایولیس ان چند شہروں میں ایک ہےکہ جہاں ابھی تک پولیس اور سیاہ فام افراد کے درمیان جھگڑے کا ایک واقعہ بھی رپورٹ نہیں ہوا یہاں تک کہ نہ کوئی پتھرو، نہ جلاؤ گھراو اور نہ ہی کسی قسم کے نسلی فسادات کہ جو پاکستانی مسلمانوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو واقعتاً قابل تعریف ہے مگر وقت آ چکا ہے کہ اب امریکہ کو اپنا قبلہ درست کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ امریکہ کی اکانومی کورونا کے جھٹکوں کے ساتھ ساتھ نسلی فسادات کی نظر نہ ہو جائے۔
حضرت علی کرم اللہ کا وہ قول بہت یاد آرہا ہے کہ” کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر جبر کا نظام قائم نہیں رہ سکتا “ اگر امریکہ افغا نستان کی شکست ، کورونا وائرس کی مشکلات اور اب نسلی فسادات کے اشاروں کے بعد بھی نہیں سمجھ رہا تو میرا خیال ہے کہ اس جبر کے نظام کے دن گنے جا چکے ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شیخ جواد حسین کے کالمز
-
صدی کا بیٹا ۔سید علی گیلانی
جمعرات 23 ستمبر 2021
-
بھارت پرانی غلطیاں نہ دہرائے
پیر 30 اگست 2021
-
الیکشن اور اصلاحات
منگل 10 اگست 2021
-
شکست فاش
جمعہ 23 جولائی 2021
-
اُمیدوں سے افسوس تک……
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
اسلامو فوبیا کی وجوہات اور ہماری ذمہ داریاں
جمعرات 1 جولائی 2021
-
بجٹ تماشہ
جمعہ 25 جون 2021
-
افغانستان سے امریکی انخلا……حکمت یا شکست
ہفتہ 12 جون 2021
شیخ جواد حسین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.