نیا کھیل۔۔۔

منگل 10 نومبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

امریکہ اور بھارت کے درمیان بیسک ایکسچینج اینڈ کو آپر یشن ایگریمنٹ (بیکا) نامی معاہدہ طے پا جانے کے بعد سے خطے کے حالات میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے۔ اس معاہدے کو بظاہر دو طرفہ معلومات کے تبادلے کا ایک ذریعہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، مگر درحقیقت اس سے دونوں ملکوں کے درمیان سیٹلائیٹ و نقشوں سے حاصل ہونے والے حساس ڈیٹا کا تبادلہ ممکن ہو گا، یہ اس سلسلے کا تیسرا مرحلہ ہے،اس سے پہلے بھی اگست 2016ء میں دونوں ملکوں کے درمیان لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ (ایل ایل ایم او اے) پر دستخط ہو چکے ہیں جس کے تحت ایک ملک کی فوج کو دوسرے کی سہولتوں، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں تک رسائی و سہولت کی فراہمی اور دیگر خدمات کے لیے ایک دوسرے کے دفاعی ٹھکانوں کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔

(جاری ہے)

اسی طرح 2018ء میں ٹو پلس ٹو مکالمے کے دوران کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت انڈین اور امریکی فوجی کمانڈروں، اْن کے طیاروں اور دیگر ساز و سامان کے لیے خفیہ اور محفوظ مواصلاتی نیٹ ورکس پر معلومات کا تبادلہ کرنا آسان ہو گیا ہے۔انڈین میڈیا اور دفاعی تجزیہ کاروں کی جانب سے ان معاہدوں کو انڈیا کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

”دی اکنامک ٹائمز“ کی جانب سے ان معاہدوں سے کو ”انڈین میزائلوں کو کئی گنا زیادہ تباہ کن بنا دینے والے“ معاہدے قرار دیا گیا۔
مگر پاکستان و چین ان معاہدوں کو مختلف انداز سے دیکھ رہے ہیں، کیونکہ انڈیا پاکستان و چین دونوں کے لئے خیر سگالی کے جذبات سے کلی طور پر خالی ہے، بلکہ خاص طور پر مودی حکومت تو ایسا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی جس میں پاکستان و چین کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچایا جا سکے، مگر بھارت شاید امریکی چالوں سے پوری طرح واقف نہیں ہے یا پھر پاکستان کی دشمنی میں اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ اسے اپنا مستقبل بھی عزیز نہیں رہا۔

امریکہ اس قدر سیدھا نہیں ہے جتنا کہ بھارت نے اسے سمجھ رکھا ہے۔ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں بھارت کو دنیا کا گندہ ترین ملک قرار دیا تھا جو بھارت کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام تھا، مگر سمجھدار کو چارے اور جاہل کو باجے سے بھی سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ امریکہ کی گود میں بیٹھ کر اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ کامیابی کی طرف گامزن ہے تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہے۔

میرے خیال سے بھارت پوری طرح ٹریپ ہو چکا ہے، اس نے امریکہ کے سامنے اپنی آزادی کو فروخت کر دیا ہے۔ اس میں بھی کو ئی شک نہیں کہ امریکہ پاکستان سے بہت اچھی طرح واقف ہے، اس نے پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کو افغان جنگ میں اچھی طرح دیکھ لیا ہے، مگر شاید امریکہ پاکستان کی ہر وہ مدد بھول چکا ہے، جس نے امریکہ کو سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔
اب دنیا تو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔

پاکستان اور چین دونوں امریکہ اور بھارت کی ممکنہ جارحیت سے نمٹنے کے لئے  بھرپور تیار ی کر رہے ہیں، جس کا آغاز پاکستان نے اینٹی شپ میزائل کے تجربے  سے کر دیا ہے۔پاکستان و چین کے درمیان بھی انٹیلی جنس کے تبادلے کا معاہدہ ہو چکا ہے جو امریکہ و بھارت کی پیش قدمی کا مْنہ توڑ جواب ہے، اسی تناظر میں چین ایک قدم آگے بڑھ کر یوگان نامی سیٹ لائیٹ کے ذریعے امریکہ و بھارت کی لمحہ بہ لمحہ حرکات پر نظر رکھنے کی صلاحیت بھی حا صل کر چکا ہے، جو پاکستان کے لئے کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

امریکہ ان معاہدوں کے ذریعے پاکستان اور چین پر دباو بڑھانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان سی پیک کو مکمل طور پر ختم کر دے یا اس کو محدود کردے۔ اس کی بڑی وجہ چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ ہے، اس کے علاوہ علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو امریکہ کسی طرح سے بہت کم یا ختم کرنا چاہتا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کے پاس دو ہی آپشن ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے اور اپنے تعلقات امریکہ و چین کے ساتھ بیلنس کر کے آگے بڑھے، اس کے بعد امریکہ کو اپنی سفارتی کوششوں کے ساتھ بھارت کے ساتھ معاہدوں کے باوجود ان کو حساس معلومات فراہم نہ کرنے کے لئے قائل کرے۔

دوسری آپشن یہ ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ ساتھ روس، ترکی اور ایران کو ساتھ ملا کر خطے میں اپنے آپ کو مظبوط کرئے اور افغانستان میں امن کی کوششوں میں ساتھ دینے کے لئے امریکہ کے سامنے آپشن رکھے کہ اگر انڈیا کی طرف سے پاکستان پر جارحیت کی گئی تو اس کا نقصان افغان امن ڈیل پر ہو سکتا ہے یا پاکستان اس سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ امریکہ اس وقت افغانستان سے نکلنے کی بھرپور کوشش اس لئے بھی کر رہا ہے، کیونکہ امریکہ مالی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہے اور جو کروڑوں اربوں ڈالر وہ افغانستان میں خرچ کر رہا ہے، وہ اسے ان حالات میں مشکلات کا شکار کر رہا ہے۔ پاکستان کو اس موقع پر سمجھداری سے کام لینے کی ضرورت ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :