گلگت بلتستان کے انتخابات کی اہمیت‎

منگل 24 نومبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

گلگت بلتستان میں تیسری قانون ساز اسمبلی کے الیکشن 15 نومبر کو منعقد ہوئے،اس دوران یہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں  کے ہنگامی دورے،وعدے اور دعوے حسبِ روایت عوامی لہو گرماتے رہے، ہر جماعت کی کوشش تھی کہ وہ اس علاقے میں حکومت سازی کرے،جس کے سیاست و حکومت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کی  وجہ بہت حد تک واضح  تھی کہ اگر حکومتی پارٹی فتح یاب ہوتی ہے تو اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ خود بہ خود دم توڑ جائے گا،اس کے برعکس اگر اپوزیشن جماعتیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو حکومت کی رٹ و مقبولیت اور مستقبل کے قومی الیکشن پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔


1839ء سے قبل یہ خطہِ زمین گلگت، بلتستان و ہنزہ کے علاقوں پر مشتمل تھا، جسے بعدازاں اس وقت کے مہاراجہ نے ریاست جموں و کشمیر میں شامل کر لیا۔

(جاری ہے)


1947ء میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے ایک سال بعد ہی اس علاقے کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک محدود جنگ کے بعد خود کو ریاست جموں و کشمیر سے الگ کر کے آزادی و خود مختاری حاصل کر لی۔ بلتی اور شینا یہاں کی مقامی زبانیں ہیں، یہاں کے عوام پاکستان کی محبت سے اْسی طرح سرشار ہیں،جس طرح کشمیر کے عوام پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔

اس لئے یہ خطہ آزادی و خود مختاری کے بعد سے ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے پیش پیش تھا۔ اس خطے کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس اسی خطے سے شاہراہ ِ ریشم گزرتی ہے، اس کے علاوہ موجودہ حکومت کے گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کے اعلان کے بعد چین و پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ، یعنی سی  پیک کی تکمیل کے مراحل تیری سے طے پا جائیں گے، کیونکہ یہ واحد خطہ ہے،جس کی سرحدیں تین ممالک سے ملتی  ہیں جو  سی پیک کی کا میابی کی ضمانت ثابت ہو سکتا ہے۔

1948ء میں کارگل وسیاچن جنگ کا مرکز بھی یہی علاقہ رہا، جو کشمیر کی آزادی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
2009ء میں یہاں پہلی مرتبہ عام انتخابات ہوئے جس کا سہرا پیپلز پارٹی کی حکومت کے سر ہے، اس وقت اس خطے کو نیم صوبائی حیثیت بھی دی گئی۔ پیپلز پارٹی کے سیدمہدی شاہ نے پہلے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے قلم دان سنبھالا، اس کے بعد دوسرے عام انتخابات میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور حفیظ الرحمن نے وزار ت اعلیٰ کا منصب حاصل کرلیا۔


اس وقت سیاسی جماعتوں کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ انتخابات کی شفافیت اور اس کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا ہے۔ اگر گزشتہ دھائی کے انتخابی نتائج  کا جائزہ لیا جائے توعوام کا رویہ تو بظاہر خیبر پختونخوا کے عوام سے مختلف نظر نہیں آ رہا کہ جیسے وہاں ہر پارٹی کو صرف ایک مدت کے لئے آزمایا جاتا ہے،اگر وہ اپنے وعدے پورے کرے تو پی ٹی آئی کی آخری ٹرم کی طرح دوبارہ منتخب کیا جاتا ہے ورنہ بہت محبت سے خیرباد کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام بھی بہت ذہین و ذی شعور معلوم ہو رہے ہیں۔

ان کی سوچ بھی  خیبر پختونخوا کے عوام کی طرح منقسم ہونے کی بجائے اپنے مقصد میں یکسو دکھائی دے رہی ہے جو ایک خوش کن آغاز ہے، مگر میرے نزدیک سب سے اہم بات ان معصوم عوام سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری ہے کیونکہ اگر ان کے ساتھ بھی وہی روایتی سیاسی رویہ اختیار کیا گیا تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان عوام کے ساتھ نئی منتخب حکومت کا رویہ بہت اہم ہے جو پاکستان بالخصوص اس خطے کے مستقبل کے لئے اہم ہے۔


اب ذرا عالمی سطح پر جائزہ لیں تو ان انتخابات پر بھارت کی بہت گہری نظر ہے، بھارتی میڈیا و حکومت اس پر مختلف انداز سے زہر اْگلنے میں مصروف ہیں جو ان کا معمول تو ہے، مگر اس خطے کی سی پیک کے اعتبار سے اہمیت کی وجہ سے بھارت عالمی سطح پر پروپیگنڈہ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ امریکہ سی پیک پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے، مگر  جو بائیڈن کے حکومت میں آنے کے بعد حالات میں بہتری کی اُمید کی جا رہی ہے، جنوری  کے بعد ہی امریکی حکومت کی پالیسی مزید واضح ہو گی۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد خریف کا حالیہ دورہئ پاکستان  اہم ہے۔ پاکستانی حکومت کو پاکستان میں گلگت بلتستان کے علاوہ  ملک بھر میں فری و فیئرالیکشن کروانے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے اس لئے الیکشن کمیشن کے نظام کو بدل کر مزید شفاف نظام،جو تحفظات سے پاک ہو، متعارف کروانا مستقبل کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر زائل کرنا اور نئی امریکی حکومت کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنا، ایران و چین کے ساتھ معا ملات میں کسی بیرونی دباؤ کو تسلیم نہ کرنا، حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :