"تبدیلی سے مہکتا پاکستان"

ہفتہ 2 مئی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان ایک جمہوری نظام رکھنے والا ملک ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں جمہوریت سہی معنوں میں کبھی نہیں رہی اور نہ ہی اِسے پروان چڑھنے دیا گیا ۔اِس میں پاکستان کے سیاستدان بھی برابر کے ذمہ دار ہیں ۔
پاکستان کا ایک بہت بڑا طبقہ اِس فرسودہ نظام سے تنگ آ چکا تھا ۔وہ ایک الگ بحث ہے کہ کس طرح یہ بیانیہ بنایا گیا اور اِسے بازار میں فروخت کیا گیا ۔

پاکستان کی عوام اِن حالات میں تبدیلی کی خواہش مند تھی وہ چاہتی تھی کہ پاکستان میں یہ فرسودہ نظام دفن ہو ۔یہ اِن لوگوں سے چٹکارا حاصل کریں جو ستر سالوں سے کسی نہ کسی صورت اُن پر مسلط رہے ہیں ۔2018 کے الیکشن میں پاکستان کی قوم خاص طور پر یوتھ تبدیلی کے خواب دیکھ رہی تھی ۔اور پاکستان کی قوم یہ تبدیلی عمران خان کی صورت میں ہی چاہتی تھی ۔

(جاری ہے)

گلی محلے پی ٹی آئی کے ترانوں سے مہک رہے تھے۔نوجوان پُر جوش تھے کہ اب کی بار پاکستان کی تقدیر بدلے گی۔تاریخ انگڑائی لے گی اور پاکستان خوشحال ہو گا۔
بالآخر اقتدار تک پہنچنے کاوہ خواب پورا ہوا جو کپتان اور اُس کے کھلاڑی دیکھ رہے تھے ۔لیکن یہ ادھورا خواب تھا اِس کو مکمل ہونے کے لئے پانچ سال کا وقت ہے ۔ اور یہ وقت قوم کی امامت ہے۔
پاکستان کی عوام کو خان صاحب سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔

سیاست اپنی جگہ لیکن میں ہمیشہ اِس بات کا خواہش مند رہا ہوں کہ عمران خان کو ایک موقع ملا ہے تو اِسے بہتر طریقے سے پانچ سال پورے کرنے چاہئیں اِسی میں ہم سب کی بہتری ہے تنقید کرنا ہم سب کا آئینی حق ہے اور اچھے اقدام کو سراہنا بھی چاہئے ۔کیونکہ یہاں کوئی انسان بھی مکمل پرفیکٹ نہیں ہوتا چاہے عام آدمی ہو یا کوئی سیاستدان لیکن ہمیشہ معاشرہ تبھی ترقی کرے گا جب وہاں غلط کاموں کی نشاندہی کی جائے گی تاکہ حکمرانِ وقت کو اندازہ ہو کہ وہ کہاں تک عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے اقدامات کر رہا ہے ۔


عمران خان کی گورنمنٹ کو چھ سو دن مکمل ہو گئے جہاں میں نے غلط کاموں کو تنقید کے نرغے میں رکھا وہی اچھے کاموں کا کریڈٹ بھی خان صاحب سے کوئی طاقت نہیں چھین سکتی۔ عمران خان کی شخصیت کی پوری دنیا ہمیشہ سے معترف رہی ہے۔ جہاں پاکستانیت کی بات ہو تو بہت کم سیاستدان ایسے آئے جنھوں نے قوم کی پہچان کو اِس عہدے پر بھی برقرار رکھا، یہ پاکستان سے محبت اور اِس کی قدر کا عملی ثبوت ہی تو ہے کہ خان صاحب جہاں گئے ہمیشہ پاکستان کے قومی لباس کوہی زیب تن کئے رکھا اور شلوار قمیض کی دنیا میں پہچان کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یقیناً وزیراعظم کے منصب کے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔اور ہمیشہ اِس چیز کو قدر کی نگاہ سے ہی دیکھا جاتا ہے ۔
اگر عوامی مسائل کی بات کی جائے تو شاید عمران خان صاحب حل کرنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں لیکن اشرافیہ کو جس طریقے سے گرم توے پر بیٹھایا اور اُن کو یہ باور کرایا کہ پاکستان کا آئین ابھی زندہ ہے۔ وہ بات الگ ہے کہ اِس عمل میں بے ضابطگیاں ضرور ہوئی ہیں اور سیلیکٹڈ احتساب کی بو بھی آتی رہی ہے لیکن یہ حقیقت ضرور ہے کہ اشرافیہ کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ پاکستان کا آئین امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں رکھتا ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ خان صاحب پاکستان کے لئے درد رکھنے والے وزیراعظم ہیں۔ پانچ سالوں میں سے تین سال باقی ہیں ۔لیکن مسائل بہت زیادہ ہیں وقت بہت کم ہے ۔یہاں چلنے کا نہیں دوڑنے کا وقت ہے کام کرنا نہیں کر کے دیکھانا ہو گا۔کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ پورا کرنا ہوگا ۔معیشت کو بہترین بنانا ہو گا۔پاکستان سے کرپشن ختم کرنے کا وعدہ پورا کرنا ہوگا ۔

اشرفیہ اور مافیا کو ہمیشہ کے لئے نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبوں پر زیادہ بجٹ لگانا ہو گا اور اِن کی بہتری کے لئے عملی اقدامات بھی کرنے ہونگے۔خان صاحب امید ہے آپ مسائل کا پہاڑ عبور کرنے میں کامیاب ہونگے۔آپ کو جس مقصد کے لئے وزیراعظم بنایا گیا ہے آپ کو اُن مقاصد پر پورا اُترنا ہو گا۔اگر آپ اپنے وعدوں پر آدھا بھی عمل کر بیٹھے تو یقیناً آپ کا شمار بھی پاکستان کے کامیاب ترین حکمرانوں میں ہی شمار ہو گا۔
اب فیصلہ آپ کو کرنا ہو گا کہ گاڑی کا رکھ کس طرف موڑنا ہے کیونکہ ڈرائیور آپ ہیں اور پاکستان کی عوام سواریاں ہیں ۔یہ سواریاں آپ کو تَک رہی ہیں کہ آپ انہیں اِن کی منزل تک کب پہنچائینگے اور یہ فیصلہ اب آپ کو کرنا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :