کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ؟

جمعرات 6 اگست 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

دنیا بھر میں زیادہ مسائل ایسے ہیں جو انسانوں کے ہی پیدا کردہ ہیں ۔ کئی ممالک میں یہ مسائل تو چاہ کر بھی حل نہیں کیے جا سکے۔اِس کے پیچھے اِن ممالک کا کہیں نہ کہیں ذاتی مفاد ضرور جڑا ہوتا ہے اِس لیے وہ ایسے مسائل کو حل کرنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ یا تو اِن مسائل سے کوئی تیسرا فریق اپنا کاروبار چمکا رہا ہوتا ہے یا اپنا راستہ کلیئر کر رہا ہوتا ہے تاکہ مستقبل میں وہ اپنی جگہ بنا سکے۔


پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا مسئلہ بھی کچھ اسی طرح کا ہی ہے۔ یہ مسئلہ پچھلے تہتر سالوں سے ہی موجود ہے ۔اور آجتک دونوں فریقین میں سے ایک فریق تو ہمیشہ سے ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا آیا ہے ۔کبھی پاکستان اِس معاملے میں بازی لے جاتا تو کبھی بھارت لیکن پاکستان کے لیے صورتحال واضح تھی کیونکہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو چکا تھا لیکن بھارت نے قبضہ جما کر اِسے اپنے کنٹرول میں کر لیا ۔

(جاری ہے)

بھارت تو غیر سنجیدگی دکھاتا بھی تو اُس کے پاس گنجائش موجود تھی کیونکہ کشمیر پر وہ اپنا قبضہ جما چکا تھا لیکن پاکستان کے لئے حالات مختلف تھے۔پاکستان کو ہمیشہ سے ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ ہم نے کشمیر کاز کو بہت آسان لیا اور کشمیر کو حاصل کرنے یا بھارت کو رسوا کرنے کے کئی مواقعے گنوا بیٹھے ۔


کل پاکستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیریوں نے یومِ استحصال منایا۔اِس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں بھارت کے خطرناک عزائم کو بےنقاب کرنا تھا کیونکہ آج سے ایک سال پہلے 5 اگست کو انڈیا نے گھناؤنا کھیل کھیلتے ہوئے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنا لیا تھا ۔پاکستان سمیت دنیا پھر میں بسنے والے کشمیریوں نے اِس مسئلے پر آواز بلند کی۔

پاکستان کی حکومت نے ہمیشہ کی طرح کشمیر کو اخلاقی اور سفارتی سپورٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔اِس واقعے کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے اِس ایک سال میں ہم کشمیریوں پر نہ ہی کرفیو کو ہٹوا سکے اور نہ ہی آرٹیکل 370 کی آئینی حیثیت کو بحال کروا سکے لیکن ہم نے کچھ کام ایسے کیے ہیں جو ہماری غیر سنجیدگی کا واضح ثبوت بھی ہیں جیسا کہ کچھ روز قبل ہم نے کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دیا ۔

پاکستان کے نیے نقشے کو ایک بار پھر سے خبروں کی زینت تو بنا دیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کا ہمیشہ سے ہی کشمیر کے ساتھ نقشہ بنایا جاتا رہا ہے اور ہر سرکاری اور غیر سرکاری ادارے میں یہ نقشہ کئی دہائیوں سے استعمال بھی ہو رہا ہے لیکن ہم نے ایک بار پھر سے غیر ضروری کام کر کے دنیا میں بسنے والے کشمیریوں کو بتا دیا کہ ہم آپ کے ساتھ کتنے سنجیدہ ہیں کہ ہم خود پرانے نقشے کا نیا اعلان کر کے  خود ہی خوش ہو رہے ہیں اور کشمیری پچھلے تہتر سالوں سے سلگ رہے ہیں اور پچھلے ایک سال سے مُسلسل قید میں ہیں لیکن ہم اُن کی مشکلات کو آجتک کم نہ کروا سکے۔


کل یعنی 5 اگست کو یومِ استحصال کے موقع پر آزاد کشمیر کے بہت سے علاقوں میں بھارت کے غیر آئینی اقدام کو ایک سال مکمل ہونے کے سلسلے میں جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں ۔ صبح کے وقت ہی ریلیوں کا آزاد ہو گیا ۔ مظفرآباد میں واقع یو این کے دفتر کے باہر نعرے بازی کی گئی اور بہت سے لوگ یہاں پاکستان سے مایوسی کا اظہار بھی کرتے نظر آئے کیونکہ بہت سے کشمیریوں کو پاکستان سے بہتر توقعات تھیں لیکن اِس دن کی مناسبت سے آج سے ایک سال پہلے 5 اگست کو بھارت نے جو غیر آئینی قدم اُٹھایا اُس حوالے سے پاکستان نے کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں دکھائی اور ایک سال پہلے جنم لینے والے مسائل ویسے ہی موجود ہیں ۔

وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے بھی یو این کے دفتر کے باہر احتجاج کیا اور دنیا کو یہ باور کروایا کہ دنیا بھارت پر زور دے کہ وہ اپنے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرے تاکہ کشمیریوں کے مسائل کا ازالہ کیا جا سکے۔۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب بھی آزاد کشمیر کے دورے پر نکلے اور قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا ۔اِس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان سے نوازنے کا فیصلہ یقیناً قابلِ تحسین ہے ۔

کیونکہ حریت رہنما سید علی گیلانی نے اپنی ساری زندگی کشمیر بنے گا پاکستان کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے کی گئی جدوجہدِ آزادی میں وقف کر دی۔ یقیناً یہ اقدام قابلِ تحسین ہے لیکن کشمیر کے مسائل میں بہتری کے ِحوالے سے حکومت کے اقدامات مایوس کن ہیں۔اِس لیے کشمیری پاکستان کے ساتھ اعتماد کی فضا کو آہستہ آہستہ زائل کر رہے ہیں ۔کشمیر کی عوام کی ایک بڑی تعداد اب آزاد اور خودمختار ریاست کا مطالبہ کر رہی ہے کیونکہ یہ لوگ جان چکے ہیں کہ پاکستان اِن کی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہا کیونکہ پاکستان ایسے غیر سنجیدہ اقدامات کر رہا ہے جن کا کشمیر کے مسائل حل کرنے کے ساتھ دور دور کا، کوئی واسطہ نہیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ کشمیر میں اگر آج ریفرینڈم ہوا تو کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے ہی ووٹ کرینگے یہ ایک صورت میں ہی ہوگا جب دونوں طرف کی کشمیری عوام مل کر استصواب رائے کا فیصلہ کریں تو تبھی ایسا ممکن ہے
پاکستان کو اب اپنی کشمیر پالیسی پر ضرور نظر ثانی کرنا ہوگی ہم تہتر سالوں سے کشمیریوں کے ساتھ ایک سال میں کئی بار اظہارِ یکجہتی تو کرتے آئے ہیں لیکن ایسا کرنے سے کشمیریوں کے حالات نہیں بدل سکے۔

اُن کی زندگیوں کی رونقیں بحال نہیں ہو سکیں اِس لیے ہمیں اظہارِ یکجہتی جیسا راگ الاپنے کی بجائے عملی اقدامات کرنے چاہیں تاکہ ہم کشمیر کے مسائل کا بہتر طریقے سے حل نکال سکیں ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :