"جلسہ گاہ"

منگل 15 دسمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کی سیاست میں جلسے کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور جلسہ کسی بھی سیاسی مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے مؤثر ہتھیار بھی ہے۔لیکن جلسے کے گرد گھومتے کچھ ایسے حقائق بھی ہیں جو ہم میں سے عام عوام سمجھنے سے قاصر ہے لیکن بہت سے باشعور لوگ اِن حقائق کو سمجھتے بھی ہیں ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سے لیڈران نے بڑے بڑے جلسے کیے چاہے وہ الیکشن سے پہلے کے لمحات میں ہوئے یا بعد میں، لیکن اِن جلسوں کی بنیاد پر ہم کسی کی مقبولیت کا مکمل اندازہ نہیں لگا سکتے. پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بےنظیر تک، نواز شریف سے لے کر عمران خان تک ۔

اِن تمام لیڈران نے بہت بڑے جلسے کیے اِن جلسوں نے ریکارڈ بنائے بھی اور گرائے بھی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عمران خان صاحب نے تاریخ کے بہت بڑے جلسے کیے اور ریکارڈ قائم کیے، ایسا ہوا ہوگا کیونکہ 2011 کا عمران خان کا مینارِ پاکستان پر سیاسی جلسہ بہت بڑا تھا اور اِسی طرح خان صاحب کے جلسوں کی ایک سیریز ہے ۔

(جاری ہے)

نوازشریف صاحب نے بھی بہت بڑے جلسے کیے جن کی ایک لمبی تفصیل ہے لیکن موجودہ سیاسی حالات میں پاکستان کی ایک نسل جلسوں میں تعداد کے اندازوں سے ہی یہ سمجھتی ہے کہ کون کتنا مقبول ہے یا سیاسی طور پر اُس کا کتنا اثر ہے یا اگر جلسہ بڑا ہو گیا ہے تو اُس کے نتائج بھی بڑے ہونگے۔

میرے خیال میں جلسے کسی کی مقبولیت کا حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی جلسوں سے حکومتیں گرتی ہیں یا بنتی ہیں لیکن ایک ماحول ضرور بن جاتا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون سیاست میں اِن ہو چکا ہے یا کون آؤٹ ہو سکتا ہے ۔ پچھلے دورِ حکومت میں عمران خان نے لاتعداد جلسے کیے، دھرنے دیے اور ریلیاں بھی نکالیں لیکن اِس عمل سے نہ وہ نوازشریف کی حکومت کو گرا سکے اور نہ ہی مقبولیت کو کم کر سکے ہاں یہ البتہ ضرور ہوا کہ اُن کے چاہنے والے کافی چارج ہوئے جس کا فائدہ انہیں عدالتی فیصلے کے بعد ہوا جس میں نوازشریف کو عدالت کی طرف سے نااہل کیا گیا اُس کے بعد کایا پلٹی اور ایک ماحول بنایا گیا جس کا فائدہ پاکستان تحریکِ انصاف کو ہوا لیکن اِس سارے عمل میں تحریک انصاف کے اتنے بڑے جلسوں کا بھی کوئی خاص کردار نہیں تھا جس کی بدولت تحریک انصاف کو اقتدار نصیب ہوا۔


آجکل پی ڈی ایم(پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) موجودہ حکومت کے خلاف بڑے بڑے جلسے کر رہی ہے، پاکستان کے صوبوں کے تمام صوبائی دارالحکومتوں میں جلسے کیے گئے ۔اِس کڑی کا آخری جلسہ تیرہ دسمبر کو لاہور میں تھا ۔یقیناً لاہور کا یہ جلسہ بھی پی ڈی ایم کے باقی جلسوں کی طرح بہت بڑا جلسہ تھا لیکن حکومت اِسے ناکام جلسہ قرار دے رہی ہے تو یہ جاننا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ یہ جلسہ کس طرح ناکام تھا۔

سیاسی حوالوں سے ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم جلسے کی ناکامی کا اندازہ اِن باتوں سے لگاتے ہیں کہ جب جلسہ اپنے آغاز میں ہوتا ہے یا اپنے اختتام پر __ حالانکہ کسی بھی جلسے کی کامیابی کو پرکھنے کے لئے اُس کے تمام خدوخال کے علاوہ درمیانی وقت کو دیکھنا بہت ضروری ہے ۔اگر اِس وقت پر جلسے میں زیادہ لوگ نہیں آئے تو مطلب کوئی بھی جلسہ فلاپ ہوتا ہے ۔

لیکن مخالف جماعتیں اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے اُس وقت کی تصاویر لگاتی ہیں جب لوگ جلسہ گاہ آ رہے ہوتے ہیں اور جلسہ گاہ بھر رہی ہوتی ہے یا اُس وقت جب جلسے کا اختتام ہو رہا ہو ، لوگ جلسہ گاہ سے جا رہے ہوتے ہیں۔اگر جلسے کے آغاز اور اختتام کے مراحل کو دیکھا جائے تو یقیناً یہ ناکام پاور شو تھا لیکن اگر سیاسی اُصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ ایک کامیاب پاور شو تھا ۔

مینارِ پاکستان کا ایک بڑا حصہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا، گراؤنڈ کے باہر آس پاس کے علاقوں میں بھی لوگوں کا جمِ غفیر موجود تھا چاہے آزادی فلائی اوور ہو یا مینارِ پاکستان کی آس پاس کی دیگر سڑکیں ۔اِس حوالے سے میری لاہور میں موجود کئی دوستوں سے بات بھی ہوئی جو لاہور جلسے کے چشم دید گواہ بھی تھے اور انہوں نے پل پل جلسے کی صورتحال کو دیکھا اُن کے مطابق یہ ایک کامیاب پاور شو تھا۔

ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ شدید سردی ،کرونا کی وباء اور حکومتی اداروں کے تھریڈز کے باوجود اپوزیشن اچھی خاصی تعداد میں لوگ جمع کرنے میں کامیاب ہو گئی ۔جلسہ ہو گیا، اپوزیشن اور حکومت لاہور جلسے کو لے کر اپنے اپنے دعوے بھی کر چکیں لیکن یہ بات بھی حقیقت بیان کر رہی ہے کہ نا پہلے کبھی جلسوں سے حکومتیں گریں اور نہ اِن جلسوں سے موجودہ حکومت فارغ ہوئی ۔

البتہ پی ڈی ایم کے لئے ایک ماحول بن گیا ہے جو آگے چل کر پی ڈی ایم کے لئے کافی فائدہ مند ثابت ہوگا ۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے اِس جلسے میں مستقبل کا لائحہ عمل ضرور بتا دیا جس کے مطابق ‏جنوری کے آخر یا فروری کے اوائل میں لانگ مارچ ہو گا، استعفوں سمیت اسلام آباد روانگی کا اعلان اور وہاں پہنچ کر اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو دھرنا بھی دیا جا سکتا ہے ۔

لانگ مارچ اور دھرنوں سے حکومت پر دباؤ تو بڑھایا جا سکتا ہے اور پی ڈی ایم اپنے چاہنے والوں کو چارج بھی کر سکتی ہے لیکن استعفوں کے عمل سے حکومت کافی مشکلات میں آ سکتی ہے اور یہ عمل موجودہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر بھی مجبور کر دے گا لیکن پی ڈی ایم کے جلسوں سے نہ حکومت جائے گی اور نہ ہی حکومت پر اِس حد تک دباؤ بڑھے گا کہ وہ پی ڈی ایم کے مطالبات کو مان جائے ۔

اب بات استعفوں تک ہی محدود ہے اور پی ڈی ایم کے تمام اراکین استعفےٰ حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچا سکتے ہیں۔جس کا براہِ راست اثر آنے والے سینیٹ الیکشن پر بھی پڑے گا استعفوں کا عمل حکومت گرانے یا اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے کارآمد تو ثابت ہو سکتا ہے لیکن یہ روایت اچھی نہیں کیونکہ آگے چل کر بھی مخلوط حکومت بن سکتی ہے تو وہاں بھی یہ عمل دہرایا جا سکتا ہے۔ سینیٹ الیکشن سے پہلے کا وقت پاکستان کی سیاست کے لئے بہت اہم ہے۔ کوئی سرپرائز خبر بھی آ سکتی ہے ۔اللہ خیر کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :