"آئینی مدت کی تکمیل ضروری ہے"

جمعہ 18 دسمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کو بنے تہتر سال ہو گئے، اِن تہتر سالوں کی تاریخ میں کئی موڑ ایسے بھی آئے جب ہمارے پاس خود کو بدلنے کا سنہری موقع تھا لیکن ہمیں فقط گمراہی کی چھتری تلے ہی رکھا گیا، تہتر سالوں میں کئی حکومتیں بنی یا بنائی گئیں، کبھی مارشل لاء لگے تو کبھی جمہوریت نصیب ہوئی تو کبھی جمہوریت کے پردے میں چھپی آمریت سے واسطہ پڑا ۔لیکن یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے کہ کبھی بھی کسی جمہوری وزیراعظم نے اپنی آئینی مدت کو پورا نہیں کیا۔

کسی کو چور کہ کر نکالا گیا تو کسی کو پھانسی کا پھندا نصیب ہوا تو کوئی نامعلوم افراد کی طرف سے شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جو تحریکِ پاکستان کے روحِ رواں بھی تھے، انہیں لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا، اِسی طرح یہ سیریز چلتی رہی جس کا آخری شکار نواز شریف بنے جن کو عدالتی فیصلے کے ذریعے اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

مطلب یہ ہے کہ کسی وزیراعظم نے مختلف وجوہات کی بنا پر کبھی بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔پاکستان کے آئین وقانون کے مطابق وزیراعظم کسی بھی حکومت کا آئینی سربراہ ہوتا ہے اور وزیراعظم کی کارکردگی ہی بتاتی ہے کہ ملک نے کس سمت کو جانا ہے اِس لیے ہمارے آئین میں وزیراعظم کی حکومتی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے ۔ یہ پانچ سال پاکستان کی عوام کی طرف سے دی گئی امانت ہوتی ہے جس میں خیانت کا ذمہ دار کوئی بھی وزیرِ اعظم ہوتا ہے اور ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اگر کوئی بھی وزیراعظم یا حکومت عوام کی امانت میں خیانت کرتے تو عوام ہی اِن کا محاسبہ کرتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا ۔

ہمیشہ کوئی تیسری قوت عوام کی امانت میں خیانت بھی کرتی ہے اور وزیراعظم کو اُن کی آئینی مدت بھی پوری کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتی اور مختلف وجوہات کی بنا پر ہمیشہ ہی وزیراعظم کو اقتدار سے الگ کیا جاتا رہا ہے ۔لیکن یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کسی بھی جماعت کو آئینی مدت تو پوری کرنے دی گئی لیکن حکومت کا سربراہ یعنی کہ وزیراعظم اپنی مدت کو پورا کرنے میں ہر بار ناکام رہا۔

حکومت گرانے کی باتیں تو ہر دفعہ کی جاتی ہیں اور نوے کی دہائی میں اِس حوالے سے کامیابیاں بھی ملیں لیکن پرویزمشرف کی آمریت کے بعد سے اب تک یہ تیسری حکومت ہے جو اپنی آئینی مدت کو پورا کرنے کی طرف گامزن ہے۔موجودہ حکومت کو اڑھائی سال گزر گئے اور وزیراعظم عمران خان ہی ہیں ۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز نے اپنی حکومتوں کے پانچ پانچ سال مکمل کیے لیکن یہ بدقسمتی ضرور رہی کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت کو مکمل نہ کر سکا جس کا سیاسی فائدہ اِن جماعتوں کو ہوتا رہا ہے لیکن بظاہر ملک کا نقصان ضرور ہوا ہے کیونکہ کوئی بھی وزیراعظم جب اقتدار میں آتا ہے تو وہ اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کو ساتھ لاتا ہے جن پر عملدرآمد کرنے کے لئے پانچ سال کا وقت ہوتا ہے، اِن پانچ سالوں کے شروع میں تو وہ ابھی منصوبہ بندی ہی بنا رہا ہوتا ہے یا اِس سے نکل کر عملدرآمد والے مرحلے میں داخلہ ہی ہوتا ہے تو اُسے وزیراعظم کے منصب سے الگ کر دیا جاتا ہے اور ابھی تک یہ روایت برقرار رہی ہے جس کی وجہ سے وزیراعظم سیاسی شہید بنتے رہے ہیں جس کا فائدہ اُن کی جماعتوں کو ضرور ہوا ہے لیکن پاکستان نے نقصان اُٹھایا ہے کیونکہ جن پالیسوں پر عمل پیرا ہو کر ہمیں آگے بڑھنا چاہئے وہ پالیسیاں وزیراعظم کے اقتدار میں الگ ہونے کے بعد وہیں دفن ہو جاتی ہیں ،اور ہمارے لیے کسی کی کارکردگی کو مکمل طور پر جانچنا مشکل رہا ہے ۔

جس کے بعد نیا وزیراعظم اپنی نئی پالیسیوں کے مطابق آتا ہے اور سیاسی افراتفری کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق ہی چلتا ہے یوں یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان ترقی کی منازل کو طے نہیں کر سکا۔شاید یہ بات بھی حقیقت ٹھہرے کہ عمران خان صاحب بھی پانچ سال مکمل نہ کر سکیں لیکن اُن کی جماعت پانچ سال پورے کر لے۔

میرے خیال سے اب کی بار روایت کو بدلنا چاہئے تاکہ سب واضح ہونے کے بعد حقائق کے مطابق چلا جا سکے کہ خان صاحب میں کارکردگی دکھانے کی کتنی صلاحیت ہے۔یقیناً موجودہ حالات میں پاکستان کئی مشکلات میں گھرا ہے، اداروں کے مکمل تعاون کے باوجود بھی خان صاحب بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں،اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو یقیناً اگلے الیکشن میں اپوزیشن میں شامل جماعتیں اِس کا فائدہ اُٹھائیں گی اور خان صاحب کو کارکردگی کی بنا پر سیاسی ناکامیوں کا سامنا ہوگا، لیکن اگر موجودہ حالات میں اپوزیشن کسی وجہ سے خان صاحب کو اقتدار سے الگ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اِس کا وقتی طور پر اپوزیشن کو فائدہ ضرور ہوگا لیکن خان صاحب کی سیاست بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی طرح ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گی جس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا، جب وہ سیاسی شہید کہلائیں گے اور موجودہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کو اِس بات کا نقصان ہوگا ۔

اگر اپوزیشن اگلے اڑھائی سال عمران خان صاحب کو حکومت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے جو کہ اُن کا آئینی حق بھی ہے تو یقیناً موجودہ حالات کے مطابق اگلے اڑھائی سال بھی مایوس کن ہی ہونگے۔جس کا فائدہ عمران خان کے ناقدین اُٹھائیں گے۔اگر کسی بنا پر خان صاحب اپنی کارکردگی بہتر بنا بھی گئے تو پھر پاکستان کو اِس کا فائدہ ہو گا جو کہ ہر پاکستانی کی دلی خواہش ہے کہ ہمارا ملک آگے بڑھے۔اِس لیے عمران خان کو پانچ سال ضرور پورے کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :