پاکستان عدلیہ کا ایک اور غلط فیصلہ

اتوار 6 ستمبر 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

15 سال جاری رہنے والا مقدمہ جیتنے کے بعد ایک جج صاحب نے اس مقدمہ میں ملوث بزرگ شخص کو مبارکباد دی تو عدالت میں ہی اسی بزرگ نے جج صاحب کو دعا دی کہ آپ کی بڑی مہربانی کہ آپ نے مجھے اس طویل مقدمہ میں بری کر دیا،'' اللہ آپ کو ترقی دے اور اللہ آپ کو تھانیدار بنائے''، بزرگوار کے اس سادہ لوح جواب پر ساری عدالت میں خاموشی چھا گئی اور عدالت میں موجود وکیل نے انہیں بتایا کہ تھانیدار جج سے چھوٹی پوسٹ ہوتی اور آپ جج صاحب کو کیسی دعا دے رہے ہیں؟ تو ان بزرگوار نے کہا کہ نہیں بیٹا اس عدالت میں براجمان جج تھانیدار سے بھلا کیسے بڑی پوسٹ پر ہو سکتے ہیں ؟جج نے استفسار کیا کہ تھانیداربھلا کیسے جج سے بڑی پوسٹ ہوتی ہے؟ تو وہی بزرگ جواباً بولے کہ جناب والا آپ کو کیس ختم اورمجھے رہائی دینے میں 15 سال لگ گئے اور اسی کیس کے شروع دنوں میں ہی ہمارے علاقے کے تھانیدار نے مجھے بولاتھا کہ جناب والا مجھے 5000 روپے دے دو اور آپ کا کیس ختم کرتے ہوئے معاملہ رفع دفع کئے دیتا ہوں، اب آپ خود بتائیں کہ اگر میں انہیں اس وقت 5000 روپے دے دیتاتو 15 سال مجھے اس طرح عدالتوں میں ذلیل نا ہونا پڑتا ۔

(جاری ہے)

لیکن اس جواب پر اس اندھے قانون کی اندھی عدالت کے جج کو زرا سی بھی شرم نہیں آئی۔
دوسرے بہت سارے واقعات میں جہاں پاکستان کی عدلیہ پوری دنیا میں مذاق بنی ہوئی ہے ، اسی طرح گزشتہ روز کی ایک خبر نے سوشل میں میڈیا پر پاکستان کی عدلیہ کو ایک بار پھرمذاق بنا کر رکھ دیا ہے، جون 2017ء میں بلوچستان میں ایک وڈیرا شاہی کے نمائندے، حکومتی بینچوں کے روح رواں ایم پی اے مجید اچکزئی نے اپنی مہنگی گاڑی پر تیز رفتاری کے باعث سڑک پرڈیوٹی پر مامور ایک پولیس کانسٹیبل کو بڑی بے دردی سے کچل کر ہلاک کر دیا، اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج پوری دنیا نے سوشل میڈیا پر وائرل بھی کر دی گئی ، جو ابھی تک یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے اور بڑی مشکل سے اس وقت عوامی ردعمل کے نتیجہ میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے گرفتار کر لیا گیا، لیکن صرف چند دنوں میں ہی یہ بااثر شخص ضمانت پر باہر بھی آگیا ۔

تین سال مجید اچکزئی پر قتل کا مقدمہ چلایاگیا لیکن ''جب سیاں بہے کوتوال تو پھر ڈر کا ہے کا'' ، گزشتہ روز عدلیہ نے ثبوت ناکافی ہونے پر مجید اچکزئی کو بری کر دیا، صحیح کہا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے، اس بات کو عوام کے سامنے واضح کرنے کیلئے پوری دنیا میں مجسمہ قانون کی آنکھوں پر کالی پٹی بندھی اس بات کی علامت ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن ماضی کے کئی دوسرے مقدموں کے فیصلوں سے اب تو یہ بھی لگنے لگا ہے کہ اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ قانون بہرہ بھی ہوتا ہے، ایسا بھی اندھا کیا کہ سامنے کیمرے کی آنکھ سے چلتی فوٹیج کوہی درگزر کر دیا جائے اور مجسمہ قانون کی طرح جج صاحبان بھی صماً بکمً عمیاًً ہی بن جائے اور اس بات کو ثابت کریں کہ پوری دنیا میں ہر مظلوم اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے عدالت کے سامنے وکیل کا سہارا لیتا ہے اور اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ، لیکن پاکستان وہ واحدملک ہے جہاں آپ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی خاطر وکیل کے ساتھ ساتھ جج بھی کروا سکتے ہیں۔

اس واقعہ کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج پورے سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی ہے جس میں مجید اچکزئی کو بے گناہ ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے کانسٹیبل کو بے دردی سے اپنی قیمتی گاڑی سے اڑاتے ہوئے قتل کیا گیا ، کو دیکھا جا سکتا ہے، اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ایسی ویڈیو کو جب بھی کوئی دیکھے ، اس کے اوساں خطا ہو جاتے ہیں،اور جج صاحب کو یہ حتمی اور بڑا ثبوت نظر ہی نہیں آیا اور اپنے فیصلے میں یہ لکھ کر کہ '' ثبوت ناکافی ہیں'' مجرم کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کر دیا جائے۔

اسی طرح سانحہ ساہیوال کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا، جس میں بالکل صاف طور پر ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس نے کس طرح پولیس گردی کرتے ہوئے معصوم شہریوں کو مین روڈ پر قتل کیا لیکن عدالت نے ان سب کو ناصرف بری کیا بلکہ پرانی سروس پر بھی بحال کرتے ہوئے اس کی تمام تنخواہوں کی ادائیگی بھی کی۔لیکن یاد رہے آجکل کے دور میں پوری دنیا میں ہر وہ شخص جس کے پاس سمارٹ فون موجود ہے وہ چلتاپھرتا رپورٹر ہے ، اور اسی بناء پر وہ اپنے سمارٹ فون پر ہونے والے واقعہ کو محفوظ کر کے اگلے ہی لمحے پوری دنیامیں سوشل میڈیا سے جڑے ہر شخص کے پاس پہنچا دیتا ہے جو اسے دیکھتے اور اس پر آواز اٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔

اسی طرح کے ناجانے کتنے ہی بے شمار واقعات موجود ہیں جن کو عوام بھلا تو سکتی ہے لیکن جب بھی وہ سوشل میڈیا پر اسے دیکھتے ہیں تو ان کی یاد تازہ ضرور ہو جاتی ہے۔اس لئے ایسے بدبودار، ظالم، فرسودہ اور ناقص نظام عدالت پر ہر محب وطن پاکستانی کو سخت افسوس ہے، اور اللہ تعالٰی سے یہی دعا کر رہا ہے کہ اے اللہ کسی غریب اور بے کس پاکستانی کو ایسے نظام انصاف سے بچائے، آمین ثم آمین۔

۔
کچھ عرصہ قبل نیب کیسوں کی طوالت اور اس کے فیصلوں میں تاخیرپر چیف جسٹس گلزار صاحب نے ایک حکم صادر کیا کہ جلد از جلد عدالت اور عدالت کے کرتا دھرتا ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ ایک تو عدالت میں موجود لاتعداد کیسوں کا فیصلہ جلد از جلد ہو سکے اور دوسرا یہ کہ ان کیسوں کی پیروی کرنے میں سرکاری وکیلوں کے کام کے دباؤ کو بھی کم کیا جا سکے۔

لیکن لگتا ہے کہ دوسرے بہت سے احکامات کی طرح اس حکم کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا ہے۔ ایک لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود اس پر عملدراآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔عدالتی احکامات کے علاوہ صوبائی اور قومی حکومت کے عہدیداران کے احکامات کو ہوا میں اٹھا دینا اور اس پر عمل نا کرنا پاکستانی سیاست اور بیورو کریسی میں ایک فیشن بن چکا ہے۔ کوئی بھی بڑے سے بڑا واقعہ ہونے کے بعد حکومتی عہدیداران اور ارباب اختیار کا اس واقعہ پر وقتی طور پر دلچسپی لینا اور اس پر اپنے بیان داغ دینا عوام کو وقتی طور پر لالی پوپ دینے کے مترداف ہے جس طرح روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کیلئے وہ اسے لالی پوپ کو چھوسنے میں مگن کرانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اور شور نا مچائے، یا یوں کہئے نشستاً گفتگو اور پھربرخستاً سے آگے کچھ نہیں۔

ماضی میں بھی جتنی بھی حکومتیں رہیں ان میں بیشتر حکومتوں کا اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہی اختتام ہوا،اس کی وجہ یہی چھوٹے چھوٹے مسائل بنے جو اکھٹے ہوتے ہوتے ایک جبل مسائل کی شکل اختیار کر گئے۔ابھی کچھ روز قبل وزیراعظم عمران خان نے بھی کراچی کا دورہ کیا اور حسب سابق کراچی کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے اربوں روپے کے فنڈز کا اعلان کیا، اور ہمیشہ کی طرح بڑے بڑے منصوبوں پر جلد از جلد عملدرآمد کرانے کیلئے حکم در حکم دیئے۔

لیکن ان سے کوئی یہ پوچھے کہ ان پر عملدرآمد کون اور کیسے کرے گا؟ اور کچھ مہینوں نہیں بلکہ کچھ دنوں بعد ہی عوام کے ذہن میں بھی نہیں ہوگا کہ کبھی کراچی میں بارشیں بھی ہوئیں تھیں، بلکہ سابق وزیراعلٰی سائیں قائم علی شاہ سے منسوب دوسرے مذاح سے بھرپور بیانات کی طرح یہ بیان بھی گردش کر رہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ '' پورے کراچی کی عوام آئے روز سمندر کو دیکھنے اوروہاں انجوائے کرنے جایا کرتے ہیں، اس مرتبہ سمندر ان سے ملنے کراچی شہر میں آ گیا تو کراچی والوں کوبھی انجوائے کرانا چاہئے'' لیکن یقین جانئے میرے یا میرے جیسے اور بہت سے لکھاریوں کے کالم لکھنے یا آواز اٹھانے سے کچھ بھی نہیں ہو گا اور پورا ملک پہلے کی طرح ایسے ہی چلے گا جیسے چھکڑا گاڑی ٹوٹی پھوٹی یا گڑھوں سے بھرپور سڑک پر آہستہ آہستہ چلتی ہے، جس کے باعث اس کا پنجر پنجر ہلتا اور آواز دیتا رہتاہے۔

اس کیلئے عوام کو احتجاج کا راستہ ہی اپنانا ہو گا اور ان سب غفلت شدہ اقدامات کرنے والوں کا محاصرہ کرنا ہو گا۔جن پر ہمارے پاکستان کے تمام سرکاری و غیرسرکاری ادارے اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ اب تو دو سال سے اوپر کا عرصہ ہونے کو آیا وزیراعظم عمران خان خود بھی ہوش کے ناخن لیں کیونکہ انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ اب آہستہ آہستہ تحریک انصاف کی حکومت کی کلئی بھی کھلنے لگی ہے جس کے باعث ان شہرت کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے، اور اس شہرت کو ایک مرتبہ بدنامی کا داغ اگر لگ گیا تو یقین جانئے اس کے نتیجہ میں تحریک انصاف کی حکومت کا بھی وہی حال ہو گا جو ماضی کی دو بڑی پارٹیوں کا ہوا ہے اور پھر ان پر بھی وہی فقرہ صادر آئے گا کہ '' داستاں بھی نا ملے گی، داستانوں میں'' ۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :