'' گدی نشین '' مافیا

ہفتہ 22 مئی 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

پاکستان کے مایہ ناز تاریخ دان پروفیسر دانی برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم کے آنے سے بھی بہت پہلے بزرگان دین کی بدولت برصغیر میں اسلام پھیلا۔پروفیسر دانی کہتے ہیں کہ بزرگان دین کی جانب سے جو اس وقت نئے مسلمان ہونے والے افراد کو سب سے پہلے چیز دی گئی وہ قرآن پاک اور عربی کھجوریں تھیں۔ اس وقت کے نومسلموں نے قرآن پاک کو پیغام رب جلال کے طور پر قبول تو کر لیالیکن عربی زبان سے لاعلمی کے باعث انہیں قرآن پاک کو صرف ایک صاف ستھرے دیدہ زیب کپڑے میں لپیٹ کرگھر کی کسی اونچی جگہ پر رکھ لیا،اوراتنی صدیاں گزر جانے کے باوجود آج کے دور میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔

لیکن آج بھی برصغیر میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جو عربی زبان کو ناصرف سمجھتی ہے بلکہ بولنے لکھنے اور پڑھنے میں اچھا خاصا عبور رکھتی ہے، انہی کی بدولت آج بھی برصغیر میں باشعور مسلمان اسلام کی تعلیمات کو ایک اچھے انداز میں سمجھتے اور انہی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزارنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، اور ایسے مسلمان جو عربی زبان سے نابلد ہیں وہ عربی زبان کے اردو ترجموں سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو پڑھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

قرآن پاک کی مقدس کتاب کا لازم و ملزوم مصرف ہمارے برصغیر کے مسلمانوں کے گھروں میں ابھی تک لڑکی کی شادی رخصتی کے موقع پر نکال کر اس کے سر کے اوپر سایہ کرنا کوئی نہیں بھولتا۔پروفیسر دانی کہتے ہیں کہ تاریخ میں مذاہب کی بھی ایک لوکل چاشنی سی ہوتی ہے کہ جب کوئی مذہب ایک جگہ سے دوسری پھیلتے ہوئے پہنچتا ہے تو اس مذہب میں اس کی لوکل چاشنی بھی اس میں شامل ہونا ایک قدرتی امر ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں برصغیر میں بھی ایک انڈینز یشن اسلام کی شکل ظاہر ہوئی کیونکہ جب بزرگان دین نے یہاں کی مختلف غیرمذاہب کی آبادی میں اسلام کی تشہیر کی تو انہیں برصغیر کے لوگوں کو ایک نئے انداز سے اسلام کو پھیلانے کیلئے کوشش کرنی پڑی جس کو انڈیئزنیشن اسلام کا نام دیا گیا۔ کیونکہ اس دور میں جتنے بھی مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر چلتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں عبادات کرنے میں مصروف تھے۔

جن میں سرفہرست ہندو مذہب تھا، اسکے علاوہ عیسائی، بدمت، اور آتش پرست شامل تھے۔ لیکن ہندو جن کے بھگوان، دیوتاؤں دیوئیوں کی خودساختہ ہزاروں مورتیاں اور ان کی شبیہ موجود تھیں جن کی وہ اپنے مندروں میں مختلف انداز میں عبادت کرتے، اور ابھی تک ہندوستان اور ساؤتھ ایسٹ ایشیا میں کئی جگہوں پر کر رہے ہیں۔ اور جب اس دور میں بزرگان دین نے اسلام پھیلانے کیلئے ہندو یا غیر مذاہب کے لوگوں میں اشاعت اسلام کی تبلیغ شروع کی تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ آپ بھی ہمیں اللہ تعالٰی کی کوئی نعوذباللہ تصویر یا رسول اللہ ﷺ کی کوئی شبیہ دکھائیں۔

تو انہیں اس کیلئے انہیں قائل کرنا پڑا کہ ان کی نعوذباللہ کوئی تصویر، مورتی یا شبیہ نہیں، اور ان نو مسلموں کو بغیر تصویر، مورتی یا شبیہ کے ہی اسلام قبول کرنا پڑا۔ پروفیسر دانی کا خیال ہے کہ اس وقت کے بزرگان دین اور اسلامی مفکر حضرات نے اس کا ایک حل نکالا۔ وہ یہ کہ انہوں نے اپنے نیک بزرگان دین کی وفات کے بعد جب انہیں دفن کر دیا جاتا تو ان کے مزارات کی تعمیر ہونا شروع ہو گئی اور ان کے عقیدت مندوں نے مزاروں پر لنگر، نذر نیاز، تعویز گنڈے اور اسی طریقے سے ملتے جلتے سالانہ عرس اور قوالی کی محفلوں کا انعقاد شروع کر دیا، جو بڑھتے بڑھتے پیر پرستی اور قبرپرستی کی شکل اختیار کر گیا، جو ابھی تک جاری و ساری ہے، اور یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ موجود برصغیر کے مسلمانوں میں بھی پیر پرستی اور قبرپرستی اسی طرح ابھی تک رچی بسی ہوئی ہے۔

اس کا ثبوت ہر ہفتے اخبارات کے میگزین اشتہارات میں بخوبی دیکھا جا سکتا، جن میں ان ڈھونگی بنگالی بابا، عامل پیر سرکار، دو دن میں محبوب آپ کے قدموں میں اور اسی طرح کے کئی اشتہارات سڑکوں کے اطراف میں دیواروں پر لکھے اور بل بورڈ کی شکل میں آپ کو دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں گے، برصغیر بھر میں ناصرف ہر بندہ ان اشتہارات کو پڑھتا ہے بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں اور آپ ان ساری خرافات کے سب سے بڑے گاہک بھی ہیں، کیونکہ یاد رکھیں کسی بھی چیز کی اشتہاربازی یا مشہوری اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اس کی مانگ نہ ہو۔

اس کی مانگ کو پورا کرنے کیلئے بے شمار ڈھونگی، جعلی پیر اور فراڈیئے اسلام اور پیری مریدی کے نام پر پاکستان کے مختلف حصوں میں غریب اور بے شعور عوام کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، جن کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔جس طرح سیاست دانوں پر ہاتھ ڈالیں تو جمہوریت خطرے میں، بیورو کریسی کی کرپشن کی نشاندہی کی جائے تو ملکی آفیسر شاہی خطرے میں، عدلیہ اور عدالت عالیہ کے ججز کی کرپشن پر کوئی آواز بلند کرے تو ملکی قانون اور انصاف خطرے میں پڑ جاتے ہیں اسی طرح یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر کسی جعلی پیر، غریبوں کو دھوکہ فراڈ کر کے لوٹنے والوں کی نشاندہی کی جائے تو سیدھا سیدھا اسلام ہی خطرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

راقم الحروف ایسے کئی جعلی پیروں سے آشنا ہے جو اپنے اوپر تو کسی پہنچے ہوئے مئوکل کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اندر سے اس قدر گندے میلے اور مکروہ ضمیر کے مالک ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ کسی بھی غریب کے مال کو اپنے باپ کا مال سمجھ کر ڈکار لینے والے، اور اسی لوٹے ہوئے مال کے عوض اپنے اور اپنے خاندان کے پیٹوں میں دوزخ کی آگ بھرنے کے علاوہ ہر سال حج و عمرہ ادا کرتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ان حرام خوروں کو اپنی ہی موت یاد نہیں، جنہیں یہ بھی یاد نہیں کہ مرنے کے بعد ان کے ساتھ کیا ہونیوالا ہے، اس حقیقت کو نظر انداز کئے ایسے خواب خرگوش میں گم ہیں کہ ان کے پیٹ کی آگ تو شائد قبر کی مٹی سے بھی نہیں بھر سکے گی۔


یہ ذکر تو ان جعلی ڈھونگی قسم کے پیروں اور فراڈیئے نوسربازوں کا تھا جو اپنی اشتہار بازی سے ملک کے غریب اوربے شعور عوام کے ساتھ نقب زنی کرتے ہیں،اب زرا ان سیاسی خاندانوں کا بھی ذکر کیا جانا بہت ضروری ہے ، جن کو میں آپ بخوبی جانتے ہیں،یہ گردیزی، ہاشمی ،قریشی،گیلانی اور بخاری جو عملی زندگی میں بھی ایسی ہی رنگ بازی کرنے کے علاوہ میں بڑے بڑے درباروں اور اپنے بزرگوں کے نام کی'' گدی ''پر '' گدی نشین'' بن کر تعویذ دھاگوں کی بدولت اپنے سینکڑوں نہیں ہزاروں مریدین کی نذر و نیاز کی شکل میں کروڑوں روپے کا لوٹ مار کا بازار سرعام گرم کئے ہوئے ہیں۔

اس سارے فراڈ کے کاروبار کا نا کوئی حساب ہے اور نا ہی حکومتی سطح پر کسی کو اس بارے میں جاننے کی جرات ہے، کہ یہ حرام کی کمائی کیسے اور کس کے کھاتے میں منتقل ہو رہی ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ابھی کچھ ہفتوں پہلے کرونا کے باعث بھارت میں قیامت برپا ہونے کے بعد وہاں کے بہت سے ہندو پنڈتوں اور ان کے پیروکاروں نے ہندوازم سے بغاوت کرتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا، اسی اثناء میں جب انڈیاکے بہت سے ماہر معاشیات نے انڈیا میں موجود بڑے بڑے مندروں پر چڑھاوے کے نام پر چڑھائی جانے والی رقوم کا حساب کتاب کیااور اسے سوشل میڈیا پر عام عوام کے سامنے لائے تو ساری دنیا یہ دیکھ اور سن کر حیران و پریشان ہو گئی کہ بھارت کے بہت سے مندروں کے پنڈتوں کے پاس اتنا سونا اور اس قدر کرنسی ہے کہ اتنا سونا پورے امریکہ کے پاس نہیں۔

اور کرنسی نوٹوں اتنے کہ جس صحیح معنوں میں '' بے شمار'' کا لفظ استعمال کیا جائے تو بجا نا ہو گا کیونکہ بے شمار کا مطلب ہی یہی ہے کہ جس کا شمار نا کیا جا سکے۔اسی طرح ہمارے اپنے ملک پاکستان میں بھی یہ مزارات اور گدیوں کے مالک ، مجاور، خلیفے اور پتہ نہیں کیا کیا، ان مزارات و درباروں پر ایسے قابض ہیں ، جن کی کمائی سے ان کے پورے پورے خاندان کی عیاشی بھری زندگی بسر ہو رہی ہے۔

یہ سیاسی خاندان اپنی گدیوں کے بزرگوں کی ہر سال برسی پر عرس میلے کا اہتمام کرتے ہیں ، اور اس موقع پر ان کے مریدین کا یہ اولین فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے پیروں کیلئے اس موقع پر نذر و نیاز کی شکل میں کثیر تعداد میں رقوم ، سونا چاندی،حلال جانور اور اپنا قیمتی سامان انہیں لا کر دیں۔جیسے موجود پی ٹی آئی حکومت نے ملک کے ناجانے کتنے مافیاز کو بے نقاب کرتے ہوئے اور ان کا احتساب کرتے ہوئے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے اسی طرح اس '' گدی نشین مافیا'' کا بھی احتساب کیا جانا بہت ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :