آٹھ آرمی چیفس کے ساتھ کام کرنے والے واحد وزیراعظم

منگل 15 دسمبر 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

موجودہ آئین پاکستان کے 1973ء میں نفاذ کے بعد سے اب تک پاک فوج کے 10 چیفس آف آرمی سٹاف مقرر ہوچکے ہیں۔ ان فوجی سربراہان کی سروس کے عرصے میں 10 وزرائے اعظم نے صرف ایک ایک فوجی سربراہ کے ساتھ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے دو فوجی سربراہان کے ساتھ، بینظیر بھٹو نے تین فوجی سربراہان کے ساتھ اور نواز شریف نے 8 فوجی سربراہان کے ساتھ بطور وزیراعظم کام کیا۔

نوازشریف کی اِس کلیدی حیثیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔ نواز شریف عام انتخابات کے نتیجے میں پہلی مرتبہ 6نومبر 1990ء کو وزیراعظم بنے۔ اُس وقت جنرل مرزا اسلم بیگ چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ انہوں نے سول حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے کویت سے عراقی فوجوں کو نکالنے کے لیے انٹرنیشنل فورس میں پاکستانی مسلح افواج کے دستوں کو بھیجنے کی مبینہ مخالفت کی۔

(جاری ہے)

ان کا خیال تھا کہ عراق امریکیوں کے لیے ویتنام ثابت ہوگا۔

اس کے علاوہ پاکستان میں عراقی صدر صدام حسین کے حق میں ریلیوں کے دوران جنرل بیگ کی تعریف میں نمایاں پوسٹر اور بینر وزیراعظم نواز شریف کے لیے فکرمندی کا باعث بھی بنے۔ کچھ عرصے بعد جنرل بیگ مدت ملازمت میں توسیع نہ ملنے پر ریٹائر ہوگئے۔ جنرل بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگست 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان نے پاک فوج کے سینئر موسٹ افسر جنرل آصف نواز جنجوعہ کو بطور چیف آف آرمی سٹاف کنفرم کیا۔

بعض اطلاعات کے مطابق جنرل جنجوعہ کو سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل رحیم الدین خان نے ریکمنڈ کیا تھا۔ مبینہ طور پر وزیراعظم نواز شریف جنرل جنجوعہ کو ایک ضدی جنرل سمجھتے تھے جو سویلین سربراہِ حکومت یعنی وزیراعظم کو مناسب احترام نہیں دیتے تھے۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات کے بعد جنوری 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے 6ویں نمبر پر موجود جنرل عبدالوحید کاکڑ کو پانچ سینئر جرنیلوں پر سپرسیڈ کرکے چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا۔

صدر کا خود ہی چیف آف آرمی سٹاف نامزد کرنا اور خود ہی نامزدگی کو منظور کرنا وزیراعظم نواز شریف کے نزدیک صدر کے اختیارات سے تجاوز تھا۔ رفتہ رفتہ وزیراعظم نواز شریف کے صدر غلام اسحاق خان سے اختلافات سنگین ہوتے گئے۔ صدر کی طرف سے حکومت کی برخواستگی اور سپریم کورٹ کی طرف سے حکومت کی بحالی کے باوجود بھی وزیراعظم اور صدر کے درمیان معاملات ٹھیک نہ ہوئے۔

چیف آف آرمی سٹاف جنرل کاکڑ نے ملک کو مزید کسی بحرانی صورتحال سے بچانے کے لیے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف دونوں سے استعفے لے لیے۔ نواز شریف عام انتخابات کے نتیجے میں دوسری مرتبہ فروری 1997ء میں وزیراعظم بنے۔ اس دوران جنرل کاکڑ کے بعد جنرل جہانگیر کرامت چیف آف آرمی سٹاف بن چکے تھے۔ جنرل کرامت سِول ملٹری ریلیشنز میں عدم توازن محسوس کرتے تھے۔

اس حوالے سے انہوں نے تجویز دی کہ ایک نیشنل سیکورٹی کونسل بنائی جائے جس کے ممبران میں ملٹری اور ٹیکنوکریٹس بھی شامل ہوں۔ نواز شریف نے اس تجویز کو سِول بالادستی سے متصادم خیال کیا۔ اس کے علاوہ نیشنل سیکورٹی اور انٹیلی جنس اصلاحات پر وزیراعظم نواز شریف اور جنرل کرامت میں اختلافات پیدا ہوئے۔ بعد ازاں جنرل کرامت مستعفی ہوگئے۔ جنرل کرامت کے استعفیٰ کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اکتوبر 1998ء میں جنرل پرویز مشرف کو پاک فوج کا چیف آف آرمی سٹاف بنایا۔

نواز شریف اور جنرل مشرف کے درمیان ایک سال کے اندر ہی شدید مسائل نے جنم لیا جن میں سے ایک نمایاں کارگل ایشو تھا۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل مشرف نے اکتوبر 1999ء میں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ نواز شریف عام انتخابات کے نتیجے میں تیسری مرتبہ جون 2013ء میں وزیراعظم بنے۔ اُس وقت جنرل اشفاق پرویز کیانی چیف آف آرمی سٹاف تھے اور ان کی مدت ملازمت کے اختتام میں صرف چند ماہ باقی تھے۔

اس دوران جنرل کیانی کا نام چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے لیے شارٹ لسٹ کرلیا گیا لیکن انہوں نے اس پیشکش کو قبول کرنے کی بجائے وقت پر ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی۔ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے نومبر 2013ء میں جنرل راحیل شریف کو نیا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا۔ وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کے تعلقات کو بمپی روڈ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان Raheel Sharif: The army chief who ruled without a coup تھا۔ اسی دوران ڈان لیکس کا سکینڈل بھی سامنے آیا۔ جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے مختلف خبروں کے بعد جنرل راحیل مقررہ تاریخ پر ہی ریٹائر ہوگئے۔ اُن کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے نومبر 2016ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا۔

اس کے تقریباً 8ماہ بعد جولائی 2017ء میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا۔ مندرجہ بالا ہسٹری شیٹ کو دیکھیں تو دلچسپ ڈیٹا سامنے آتا ہے۔ پہلا پوائنٹ یہ کہ نواز شریف پاکستان کے وہ واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے جنرل بیگ سے لے کر جنرل باجوہ تک کم یا زیادہ دورانئے کے لیے 8چیفس آف آرمی سٹاف کے ساتھ بطور وزیراعظم کام کیا۔

اس طرح وہ 1947ء سے لے کر اب تک سب سے زیادہ فوجی سربراہان کے ساتھ کام کرنے والے واحد سربراہِ حکومت بھی ہیں۔ دوسرا پوائنٹ یہ کہ اِن 8چیفس آف آرمی سٹاف میں سے تین آرمی چیفس یعنی جنر ل بیگ، جنرل کرامت اور جنرل کیانی کی سروس کے دوران نواز شریف ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے، دو آرمی چیفس یعنی جنرل جنجوعہ اور جنرل کاکڑ کی صدر غلام اسحاق خان نے خود ہی منظوری دی حالانکہ نواز شریف وزیراعظم تھے اور تین آرمی چیفس یعنی جنرل مشرف، جنرل راحیل اور جنرل باجوہ کو خود وزیراعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف بنایا۔

تاہم ان سب آرمی چیفس میں صرف جنرل راحیل شریف نے ہی اس عہدے پر اپنی تین سالہ مدت نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران مکمل کی۔ تیسرا پوائنٹ یہ کہ نواز شریف بطور وزیراعظم ملک کے آٹھوں آرمی چیفس میں سے کسی کے ساتھ بھی مکمل کمفرٹیبل ورکنگ ریلیشنز میں نہیں رہے۔ کچھ لوگ اِسے نواز شریف کی متصادم پالیسیوں کا ایکشن قرار دیتے ہیں جبکہ نواز شریف اسے سول سپرمیسی کی کوششیں کہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :